نام نہاد مسلم عورتوں کے منہ پر طمانچہ


ایک باپردہ عورت نے فرانس کی ایک سپرمارکیٹ سے خریداری کی اور اس کے بعد وہ عورت پیسوں کی ادائیگی کیلئے لائن میں کھڑی ہو گئی۔ اپنی باری آنے پر وہ چیک آؤٹ کاؤنٹرآئی، جہاں اسے رقم ادا کرنا تھی، وہاں اس نے اپنا سامان ایک ایک کر کے کاؤنٹر پر رکھ دیا۔ چیک آؤٹ پر کھڑی ایک بے پردہ مسلم لڑکی نے اس خاتون کی چیزیں ایک ایک کر کے اٹھائیں، اور ان کی قیمتوں کا جائزہ لینے لگی۔

تھوڑی دیر بعد اس نے نقاب والی خاتون گاہک کی طرف ناراضی سے دیکھا اور کہنے لگی! ہمیں اس ملک میں کئی مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل میں ایک مسئلہ تمہارا نقاب ہے۔ ہم یہاں تجارت کرنے کے لئے آئے ہیں نہ کہ اپنا دین اور تاریخ دکھانے کے لئے۔ وہ مسلم عرب عورت جو نام نہاد روشن خیال تھی اپنی بے ہودہ تقریر جھاڑے جا رہی تھی کہ اگر تم اپنے دین پر عمل کرنا چاہتی ہو اور نقاب پہننا ضروری سمجھتی ہو تو اپنے ملک واپس چلی جاؤ، جہاں جو تمہارا دل چاہے کر سکتی ہو۔ وہاں نقاب پہنو، برقع پہنو، ٹوپی والا برقع پہنو، جو چاہے کرو مگر یہاں رہ کر ہم لوگوں کے لئے مسائل مت پیدا کرو....
نقاب پہننے والی خاتون ایک مسلم عورت کے منہ سے نکلنے والے الفاظ پر دم بخود ہو کر رہ گئی۔ اپنے سامان کو بیگ میں رکھتے ہوئے اس کے ہاتھ رک گئے اور اچانک اس نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دیا، کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی اس کا چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئی کیونکہ نقاب والی لڑکی کے بال سنہری اور آنکھیں نیلی تھیں، اس نے کاؤنٹر والی سے کہا ”میں فرانسیسی لڑکی ہو نہ کہ عرب مہاجر، یہ میرا ملک ہے، میں مسلمان ہوں.... اسلام میرا دین ہے، یہ نسلی دین نہیں ہے کہ تم اس کی مالک ہو، یہ میرا دین ہے اور میرا اسلام مجھے یہی سبق دیتا ہے جو میں کر رہی ہو۔ میرا دین مجھے پردے کا حکم کادیتا ہے تم نسلی مسلمان ہو کر ہمارے یہاں کے غیر مسلموں سے مر عوب ہو، دنیا کی خاطر خوف میں مبتلا ہو، مجھے کسی کا خوف نہیں ہے۔مجھے صرف اپنے اللہ کا خوف ہے اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے محبت ہے ، اور حکم کو پورا کرنے میں مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے
اس فرانسیسی نو مسلم عورت کے یہ لفظ تو بے پردہ مسلم عورتوں کے منہ پر طمانچہ تھے کہ تم پیدائشی مسلمانوں نے دنیا کے بدلے اپنا دین بیچ دیا ہے اور ہم نے تم سے خرید لیا ہے۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

سکندراعظم کون؟

مغرب کے نام نہاد مفکرین نے مقدونیہ کے الیگزینڈرکو سکندراعظم کا لقب دیا ہے جو تاریخ کے ساتھ ناانصافی ہے ، اگر تعصب کا عینک ہٹا کرتاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہم یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوں گے کہ دنیا کا سکندراعظم عمربن خطاب رضى الله عنه  ہے۔ الیگزینڈربادشاہ کا بیٹا تھا، دنیا کے بہترین لوگوں نے اس کوگھوڑسواری سکھائی، جب وہ بیس سال کا ہوا تو اس کو تخت وتاج پیش کیا گیا۔ 23سال کی عمر میں مقدونیہ سے نکلا ۔ ایران، شام، یونان، ترکی اورمصر کو فتح کرتے ہوئے ہندوستان پہنچا ۔ 323قبل مسیح 33سال کی عمرمیں انتقال کرگیا ۔ اس کی فتوحات کا عرصہ دس سال پر محیط ہے، ان دس سالوں میں اس نے 17لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا، ان فتوحات میںاس کو آرگنائزڈ آرمی کی خدمات میسرتھیں۔

جبکہ عمرفاروق رضى الله عنه نے دس سالوں میں 22لاکھ مربع میل کا علاقہ بغیرآرگنائزڈ آرمی کے فتح کیا ۔ آپ نے کسی تیرانداز سے تیراندازی نہیں سیکھی۔ آپ کی ان فتوحات میں اس وقت کی دو سپرپاورطاقتیں روم اور ایران بھی ہیں۔  آج سیٹلائٹ میزائل اورآبدوزوں کے دور میں دنیا کے کسی حکمراں کے پاس اتنی بڑی سلطنت نہیں ہے ۔

اس نے صرف فتوحات کیں اور مفتوح علاقوں کو کوئی نظام نہیں دیا بلکہ فتوحات کے دوران بے شمار جرنیل قتل کروائے ، بے شمارجرنیلوںاورنوجوانوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا ۔ جبکہ حضرت عمرفاروق رضى الله عنه کے کسی ساتھی نے ان کی حکم عدولی نہیں کی وہ ایسے عظیم مدبرومنتظم تھے کہ عین میدان جنگ میں اسلام کے مایہ ناز کمانڈرسیدناخالدبن ولیدص کومعزول کردیا اورکسی کو یہ حکم ٹالنے اور بغاوت کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔

 الیگزینڈرنے جو سلطنت بنائی وہ اس کے مرنے کے پانچ سال بعد اس کے نظریے سے نکل گئی اورآج اس کا تاریخ کی کتابوںمیں صرف نام ملتا ہے ۔ حضرت عمرفاروق رضى الله عنه نے جن علاقوں کوفتح کیا وہاں آج بھی سیدنا عمرفاروق کا نظریہ موجود ہے ،دن رات کے پانچ اوقات میںمسجد کے میناروں سے اس نظریے کا اعلان ہوتا ہے ۔ عمرفاروق رضى الله عنه نے دنیا کوایسے سسٹم دئیے جو آج تک دنیا میں موجود ہے ۔ آپ کے عہد میں باجماعت نماز تراویح کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا،آپ کے دورمیں شراب نوشی کی سزا 80 کوڑے مقررہوئی ، سن ہجری کا اجراءکیا، جیل کاتصور دیا، مؤذنوںکی تنخواہیں مقررکیں،مسجدوںمیں روشنی کا بندوبست کروایا،باوردی پولس، فوج اورچھاؤ نیوں کاقیام عمل میں لایا، آپ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواو ں اور بے آسرا لوگوںکے وظائف مقررکئے ۔ آپ نے دنیامیں پہلی بار حکمرانوں، گورنروں، سرکاری عہدے داروںکے اثاثے ڈکلیر کرنے کا تصور دیا ۔ آپ جب کسی کو سرکاری عہدے پر فائز کرتے تھے تواس کے اثاثوںکا تخمینہ لگواکر اپنے پاس رکھ لیتے اوراگرعرصہ ¿ امارت کے دوران عہدہ دار کے اثاثوں میں اضافہ ہوتا تواس کی تحقیق کرتے ۔ جب آپ کسی کوگورنر بناتے تو اس کونصیحت کرتے کہ ترکی گھوڑے پرمت بیٹھنا ، باریک کپڑا مت پہننا،چھنا ہوا آٹا مت کھانا، دروازے پر دربان مت رکھنا ۔
آپ کی مہر پر لکھا ہوا تھا : ”عمر !نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے “۔
یہ وہ سسٹم ہے جس کو دنیا میںکوئی دوسرا شخص متعارف نہ کروا سکا، دنیا کے 245ممالک میںیہ نظام کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے ۔ان حقائق کی روشنی میں زبان وقلم بے اختیار گواہی دیتا ہے کہ دنیا کا سکندر اعظم عمرفاروق رضى الله عنه ہیں۔

آپ کے عدل کی مثال دنیا کے کسی دوسرے حکمراں میں نہیں ملتی ، آپ کے عدل کی یہ حالت تھی کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کی سلطنت کے دوردراز علاقہ کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اورچینخ کربولا: لوگو!حضرت عمرفاروق کا انتقال ہوگیا ہے ۔ لوگوںنے پوچھا : تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں رہتے ہو‘تمہیں کس نے خبردی ؟ چرواہا بولا: جب تک عمر فاروق رضى الله عنه زندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف چرتی پھرتی تھیں ،کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھتا تھا لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھاکر لے گیا ہے ۔ میں نے بھیڑئیے کی جرا ¿ت سے جان لیا کہ آج عمررضى الله عنه دنیا میں نہیں ہیں ۔

مدینہ کے بازارمیں گشت کے دوران ایک موٹے تازے اونٹ پر نظر پڑی ، پوچھا: یہ کس کا اونٹ ہے ؟ بتایا کہ یہ آپ کے صاحبزادے عبداللہ رضى الله عنه  کا ہے ۔ آپ نے گرجدار آواز میں کہا کہ عبداللہ کو فوراً میرے پاس بلاؤ،  جب سیدناعبداللہ رضى الله عنه آئے توپوچھا: عبداللہ! یہ اونٹ تمہارے ہاتھ کیسے لگا؟ عرض کیا : اباجان !یہ اونٹ بڑا کمزورتھا اورمیں نے اس کو سستے داموں خرید کرچراگاہ میںبھیج دیا تاکہ یہ موٹا تازہ ہوجائے اور میں اس کو بیچ کر نفع حاصل کروں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: تمہاراخیال ہوگا کہ لوگ اس کو چراگاہ میں دیکھ کر کہیں گے : یہ امیر المومنین کے بیٹے کا اونٹ ہے، اسے خوب چرنے دو، اس کو پانی پلاو ¿ ، اس کی خدمت کرو۔ سنو! اس کو بیچ کر اصل رقم لے لو اور منافع بیت المال میںجمع کرادو۔ سیدنا عبداللہ رضى الله عنه نے سرتسلیم خم کردیا ۔

امیرالمو منین سیدنا عمر فاروق رضى الله عنه  کے دربار میں ایک نوجوان روتے ہوئے داخل ہوا ۔ آپ نے رونے کی وجہ پوچھی :اس نے روتے روتے عرض کیا کہ میں مصر سے آیا ہوں، وہاں کے گورنر کے بیٹے سے دوڑ کے مقابلے میں جیت گیا تو محمد بن عمروبن عاص  رضى الله عنه نے میری کمر پر کوڑے برسائے جس سے میری کمر چھلنی ہوگئی ۔ وہ کوڑے مارتا رہا اور کہتا رہا کہ تمہاری یہ جرأت کہ سرداروںکی اولاد سے آگے بڑھو۔ آپ نے یہ داستان سننے کے بعد مصر کے گورنر اور ان کے بیٹے کو بلابھیجا، جب وہ آگئے توکہا: یہ ہیں سردار کے بیٹے ، پھرمصری کو کوڑا دیا اور کہا کہ اس کی پیٹھ پرزورسے کوڑے ماروتاکہ اس کو پتہ چلے کہ سرداروںکے بیٹوںکی بے اعتدالیوںپر ان کا کیا حشر ہوتا ہے ۔ اس نوجوان نے جی بھر کر بدلہ لیا ۔ پھر آپ نے فاتح مصرسیدناعمروبن عاصؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
” اے عمرو! تونے لوگوں کو کب سے غلام بنایا ہے جبکہ ان کی ماو ¿ںنے ان کو آزاد جنم دیا ہے ۔“
یہ ہے وہ بے لاگ عدل جس میں قوموں کی عزت اورترقی کا راز پنہاں ہے ۔

آج اسلام پر شبخون مارنے والے یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذمہ دار اسلام ہے ، جبکہ اسلام امن وامان کا داعی ہے، عدل ومساوات کاپیکر ہے اورعروج وترقی اس کی خمیر میں داخل ہے جس پر تاریخی حقائق گواہ ہیں۔ آج اسلام غریب الدیار ہے ،آج اسلام کو عمرکی ضرورت ہے ،اسلام کے غلبہ کے لیے کردار کی اعلی مثالیں درکار ہیں ،آج مسلمان اپنے نفس کے غلام بن کر رہ گئے ہیں اوراپنے رب کو بھول گئے ہیں ،نجات کا واحد راستہ نفس کی غلامی سے نکل کر رب العزت کی رضا مطلوب ومقصود ہے : وَلِلَّہِ العِزَّةُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلمُومِنِینَ (المنافقون 8) ”سنو! عزت توصرف اللہ تعالی اوراس کے رسول اورایمان والوںکے لیے ہے “۔
حافظ حفیظ الرحمن کویت
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

پانی کے بعد اب ہوا سے پیٹرول بنائیں

پٹرول پیدا کرنے کا ایک نیا طریقہ تجویز کیا گیا ہے جس میں ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اخذ کرنے کے بعد اسے پانی سے حاصل کی گئی ہائیڈروجن گیس سے ملا کر ایندھن بنانے کی بات کی گئی ہے۔

لیکن سائنسدان کہتے ہیں کہ ایندھن کے معاملے میں کچھ بھی مفت حاصل نہیں ہوتا۔ جیسے پودوں کو کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی سے توانائی کے لیے سورج کی ضرورت پڑتی ہے بالکل اسی طرح ہوا سے پٹرول حاصل کرنے کے لیے بجلی کی ضرورت پڑے گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو توانائی سے بھرے خلیوں میں تبدیل کرنے کا خیال نیا نہیں ہے۔ انیس سو چورانوے میں امریکہ کی پرِنسٹن یونیورسٹی میں اس کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی گئی تھی۔ حال ہی میں ایک ’لِکویڈ لائٹ‘ نامی کمپنی نے بھی اس تکنیک کو استعمال کرنا شروع کیا ہے۔

آئیس لینڈ میں ’کاربن ری سائیکلنگ انٹرنیشنل‘ نے سن دو ہزار گیارہ میں ایک پلانٹ کا افتتاح کیا تھا جس میں دوسری فیکٹریوں سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ سے سالانہ پچاس لاکھ لیٹر میتھنال تیار کی جاتی ہے۔ کمپنی نے تجرباتی مرحلے میں دس لاکھ پاؤنڈ کی لاگت سے پچاس لاکھ لیٹر میتھنال تیار کی ہے۔ایئر فیول سِینتھیسس اس میتھنال کو پٹرول میں تبدیل کرتی ہے۔

فرم کے سربراہ پیٹر ہیرِیسن نے بی بی سی کو بتایا کہ تجرباتی مرحلے میں اس عمل پر آنے والی لاگت سے زیادہ توجہ کاربن ڈائی آکسائیڈ سے توانائی حاصل کرنے کے اصول کو درست ثابت کرنے پر مرکوز تھی۔ ’برطانیہ میں ہم صرف یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ ہوا سے پٹرول بنایا جا سکتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے یومیہ ایک ٹن ایندھن پیدا کرنے کے یونٹ کا ڈیزائن تیار کر لیا ہے اور امید ہے کہ دو ہزار پندرہ تک پیداوار شروع کر دیں گے۔‘ بشکریہ بی بی سی اردو
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

برازیل میں گوگل کے صدر کی گرفتاری کا حکم

کیا کوئی اسلامی ملک اس قسم کی حرکت کرنے کی جرآت رکھتا ہے؟
برازیل کے ایک مقامی جج نے برازیل میں گوگل کے صدر فیبیو ژوزے سِلوا کوئلیو کی گرفتاری کا حکم دیا ہے کیونکہ گوگل نے یوٹیوب پر چند ویڈیوز ہٹانے سے انکار کر دیا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان ویڈیوز میں ایک امیدوار کے خلاف بہتان تراشی کی گئی ہے جو میئر کے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔

جج نے گذشتہ ہفتے ویڈیوز ہٹانے کا حکم دیا تھا لیکن گوگل نے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گا۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ گوگل یوٹیوب پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز کے مواد کے لیے ذمے دار نہیں ہے۔

برازیلی میڈیا کے مطابق اس ویڈیو میں ظاہر کیا گیا ہے کہ کیمپو گراندے نامی شہر کے میئر کے عہدے کے امیدوار الیسیدیس برنال نے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

ماتو گراسو دو سول ریاست کی انتخابی عدالت کے جج فلاویو پیرین نے فیصلہ دیا تھا کہ یہ ویڈیوز مقامی انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔

لیکن گوگل کی طرف سے یوٹیوب پر سے ویڈیوز کو ہٹانے کے حکم کو نظرانداز کیے جانے کے بعد انھوں نے پیر کے روز کوئلیو کی گرفتاری کا حکم جاری کیا۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق گوگل کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کر رہا ہے۔

اس سے قبل گوگل نے کہا تھا کہ انٹرنیٹ ایک ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں رائے دہندگان سیاسی امیدواروں کے بارے میں اپنے خیالات و نظریات آزادی کے ساتھ پیش کر سکیں۔

گوگل جو مواد اپنی ویب سائٹوں پر پیش کرتا ہے اس کی ذمے داری پر حالیہ دنوں میں سوال اٹھا ہے۔ خاص طور پر ایک اسلام مخالف فلم پر تمام مسلم دنیا میں پرتشدد احتجاج کیا گیا ہے اور کئی ملکوں نے یوٹیوب اور گوگل کو بند کر دیا ہے۔  بشکریہ بی بی سی اردو
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

ببلو, رکشہ اور نومولود بچی

بھارت کے علاقے بھرت پور کے رہائشی رکشہ ڈرائیور ببلو معاشی اور سماجی لحاظ سےکمزور سہی لیکن ’بیٹی‘ ان کے لیے ایک نعمت ہے۔

ببلو دلت ہیں اور بھرت پور میں سائیکل رکشہ چلاتے ہیں۔ انہیں گزشتہ ایک ماہ سے اپنی نومولود بیٹی کو سینے سے لگائے بھرت پور شہر میں رکشہ چلاتے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ اس نوزائیدہ کے پیدا ہوتے ہی ماں کا سایہ اٹھ گیا۔گھر میں کوئی اور نہیں جو اس ننّھی پری کا خیال رکھ سکے۔

ہوا کے تھپیڑوں اور رکشے پر جھولتي زندگی کی مشکلات نے اس ننھی پری کو بیمار کر دیا۔ وہ دو دن سے بھرت پور کے سرکاری ہسپتال میں داخل ہے۔

ببلو، ننھی بیٹی اور رکشہ، انسانی رشتوں کی ایسی مثلث بناتے ہیں جس سے بیٹی کو نظر انداز کرنے والے اس معاشرے میں امید کی کرن دور سے ہی نظر آتی ہے۔

ببلو اور ان کی بیوی شانتی کو گزشتہ ماہ ہی پندرہ سال بعد پہلی اولاد کے طور پر بیٹی نصیب ہوئی تھی۔ مگر جلد ہی اس ننھی پری کو ماں کے سکھ اور شفقت سے محروم ہونا پڑا۔

ببلو نے بتایا کہ خون کی کمی کے باعث شانتی کی حالت بگڑی اور وہ زچہ بچہ دونوں کو ہسپتال لے گیا۔

ببلو کا کہنا تھا ’ڈاکٹر نے خون لانے کے لئے کہا، میں خون لے کر آیا، لوٹا تو پتہ چلا کہ شانتی کی سانس ہمیشہ کے لیے اکھڑ گئی، میری آنکھوں کے آگے اندھیرا پھیل گیا‘۔

’خود کو ننھی بیٹی کی خاطر سنبھالا‘، یہ کہتے کہتے ببلو کی آنکھیں بھر آئیں۔ انہوں نے بتایا کہ کس مشکل سے انہوں نے بیوی کی آخری رسومات کے لیے پیسے جمع کیے۔

اپنی بیوی کی موت کے بعد بیٹی کی پرورش کی ذمہ داری ببلو پر آن پڑی۔ انہوں نے بیٹی کو کپڑے کے جھولے میں ڈال کر اپنی گردن سے لٹکا لیا۔

بھرت پور نے یہ منظر دیکھا ہے جس میں ببلو رکشے چلا رہا ہے، گلے میں نومولود بیٹی کو لٹکائے ہوئے ہے اور پیچھے سواریاں بیٹھی ہیں۔ ببلو کہتا ہے ’ہمدردی کے الفاظ تو بہت ملے، لیکن اسے کوئی مدد نہیں ملی۔ رشتہ داروں نے بھی کوئی مدد نہیں کی‘۔

ببلو کے کندھے پر بوڑھے والد کی ذمہ داری بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’کبھی کبھی کرایے کے کمرے میں والد کے ساتھ بیٹی کو چھوڑ جاتا ہوں، بیچ بیچ میں اسے کھلانے لوٹ آتا ہوں۔ یہ شانتی کی امانت ہے، اس لیے میری ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے‘۔

ببلو کا ایک کمرے کا گھر کرایے کا ہے۔ وہ پانچ سو روپے ماہانہ کرایہ دیتا ہے۔ پھر ہر روز اسے تیس روپے رکشے کے لیے کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ ان مشکلات کے درمیان ببلو رکشا چلا کر بیٹی کے لیے باپ کی ذمہ داری بھی نبھا رہا ہے۔

ببلو کا کہنا ہے کہ ’شانتی تو اس دنیا میں نہیں ہے لیکن میری خواہش یہ ہے کہ اس کی وراثت پھولے پھلے، میرا خواب ہے اسے بہترین تعلیم ملے۔ ہمارے لیے وہ بیٹے سے بھی بڑھ کر ہے‘۔

بہت سے لوگ اپنی لڑکی کو لاوارث چھوڑ جاتے ہیں کیونکہ انہیں بیٹی بوجھ لگتی ہے لیکن ببلو کی کہانی بتاتی ہے بیٹی کو پالنے کے لیے ہستی اور حیثیت ہونا ضروری نہیں۔ بس باپ کے دل میں اس کی خواہش ہونا کافی ہے۔ بشکریہ بی بی اسی اردو
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

تھر کے کوئلے سے بجلی بنانا نا ممکن ہے ۔ ایشیائی ترقیاتی بینک


مکمل تحریر اور تبصرے >>>

شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے

فرض کیجیے کہ آپ پاکستانی نہیں ہیں، پاکستان سے باہر رہتے ہیں لیکن حالات حاضرہ میں دلچسپی اور عالمی خبروں پر نظر رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پچھلی ایک دہائی میں دہشتگردی سے متعلق خبروں کی وجہ سے پاکستان بھی آپ کی توجہ کا مرکز رہا ہو گا۔

یہ عین ممکن ہے کہ دنیا میں کروڑوں اور لوگوں کی طرح آپ کی یہ دلچسپی محض خبریں سننے تک ہی محدود ہو اور پاکستان کو اس سے زیادہ سمجھنے کا نا تو آپ کے پاس وقت ہو اور نہ ہی خواہش۔ لیکن حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے زیادہ تر لوگوں کی طرح آپ بھی خبروں کی بنیاد پر پاکستان کے بارے میں رائے قائم کرنے میں کوئی خاص ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے ہوں۔

تو جمعہ اکیس ستمبر کو جب پاکستان میں ہونے والے احتجاج یا بقول حکومت وقت کے پاکستان میں منائے جانے والے یوم عشقِ رسول کی کوریج دنیا بھر کے میڈیا پر آپ نے دیکھی ہو گئی تو اس سے کیا نتیجہ نکالا ہو گا؟

ظاہر ہے میں نے بھی ٹیلی ویژن پر یہ کوریج دیکھی۔ پشاور میں ایک سینما ہال جل رہا ہے۔ کسی جگہ ایک موٹر سائیکل سے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔ چند لوگ ایک بند دکان کے شٹر پر دھڑا دھڑ ڈنڈے برسا رہے ہیں۔ سڑکوں پر جگہ جگہ ٹائر یا پرانے فرنیچر کے ٹکڑے جل رہے ہیں۔ پھر ہسپتال کے مناظر نشر ہوتے ہیں۔ خون میں لت پت ایک شخص کو ایمرجنسی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے یہ کسی دشمن رسول نہیں بلکہ عاشقان رسول کے ہاتھوں گھائل ہوا ہے۔ سڑکیں، چوراہے اور بند بازار آنسو گیس کے بادلوں سے اٹے ہوئے ہیں۔

ہمیں بار بار بتایا جا رہا ہے کہ پولیس مظاہرین کے سامنے بے بس ہے۔ اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مظاہرین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جہاں کہیں بھی کسی چینل کا کیمرہ مین کوئی نیا شعلہ تلاش کر لیتا ہے وہ چینل اس شعلے کی تصاویر کے سامنے ایکسکلوسیو کی پٹی چلانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ سب مناظر دیکھنے کے بعد، اگر آپ پاکستان سے باہر رہنے والے ایک غیر پاکستانی ہیں، تو آپ کے ذہن میں کیا سوالات اٹھیں گے؟

ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ خیال آئے کہ کیا یہ عشق ہے جو دھکم پیل، مارا ماری، گھیراؤ جلاؤ، آگ اور خون کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے؟ اگر ہاں تو عجب بھیس ہے۔ جس کا سینما گھر یا موٹر سائیکل جلا، جس کی دکان ٹوٹی یا جس کو اپنی تمام تر مجبوریوں کے باوجود اپنا کاروبار بند کرنا پڑا، کیا وہ عاشقِ رسول نہیں ہے؟ جس کا بچہ یوم عشقِ رسول منانے گھر سے نکلا لیکن خون میں لت پت ہسپتال جا پہنچا، کیا پیغمبرِ اسلام کے لیے اس کی محبت مشکوک تھی۔

لیکن یقیناً آپ کے ذہن میں سب سے اہم سوال یہ ہو گا کہ محبت کے اظہار کا یہ کیسا طریقہ ہے جس میں اپنوں کی ہی املاک جلائی جا رہی ہیں اور اپنوں کے ہاتھوں اپنے ہی گھائل ہو رہے ہیں۔ اور کیونکہ یقیناً اس سوال کا کوئی منطقی جواب نہیں تو شاید آپ یہ پوچھنے پر مجبور ہو جائیں کہ کیا ان بھڑکے ہوئے جذبات کے پیچھے عشقِ رسول ہے یا کچھ اور؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ عشق کی آڑ میں کوئی ایسی بھڑاس نکالی جا رہی ہے جس کا نا تو عشق سے کوئی تعلق ہے اور نا ہی کسی پیغمبر سے۔

دنیا میں اور بھی کئی ممالک میں اسلام مخالف فلم پر مظاہرے ہوئے ہیں۔ اس لمبی فہرست میں مصر، اردن، اسرائیل، یمن، لبنان، تیونس، سوڈان، بھارت، عراق، ایران، بحرین، افغانستان، ملائیشیا، انڈونیشیا، نائجیریا، لیبیا اور شام شامل ہیں۔ ان میں کئی ایک جگہوں پر یہ مظاہرے پرتشدد بھی ہو گئے لیکن کیا وجہ ہے کہ خود اذیتی کا عنصر سب سے زیادہ صرف پاکستان میں ہی دیکھنے کو ملا ہے۔

پاکستانیوں کو اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ دنیا انہیں یا تو صحیح طور پر سمجھتی نہیں یا دانستہ انہیں صحیح رنگ میں پیش نہیں کرتی۔ لیکن کیا یہ جلاؤ گھیراؤ کرنے والے لوگ دنیا کو سمجھا سکتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ دنیا کو تو کیا وہ پاکستان میں بسنے والے کروڑوں عاشقان رسول کو نہیں سمجھا پا رہے جیسا کہ ہماری ویب سائٹ پر قارئین کی رائے سے صاف ظاہر ہے۔

سو پاکستان سے جو مناظر آج دنیا بھر میں نشر ہوئے ہیں ان سے تو شاید یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان مظاہرین کو عشق نہیں۔ اپنے آپ سے بھی، قوم سے بھی، ملک سے بھی، مذہب سے بھی اور اپنے محبوب سے بھی۔

اسلام آباد میں میرے ساتھی طاہر عمران بی بی سی اردو کے لیے سوشل میڈیا پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کلِک آج کا کالم ضرور پڑھیے گا۔ ایک جھلک یہاں شامل کرتا ہوں۔ ضیاالرحمٰن نے ٹوئٹر پر لکھا ’براہ مہربانی آج اپنی دکان نہ کھولیں نہ ہی کام پر جائیں کیونکہ شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے‘۔ مکمل شعر کچھ یوں ہے۔ 
 
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر
  شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

میرا گھر ہے پاکستان


نہ میں کشمیری، سندھی، بلوچی، پنجابی نہ پٹھان

میں ہوں

مسلمان

میرا گھر ہے پاکستان

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

بریکنگ نیوز


رمضان المبارک کا پہلا روزہ     2012-07-20
27 رمضان المبارک                 2012-08-14 

14 اگست 1947ء ۔۔۔ 27 رمضان المبارک کو پاکستان آزاد ہوا تھا۔
65 سال بعد یہ دن دوبارہ آنے والا ہے۔
تمام پاکستانیوں کو برکتوں اور رحمتوں والی آزادی مبارک ہو۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

رمضان کریم مبارک

عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزاء مانگے گا ۔۔؟
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا۔۔؟


تمام عالم اسلام کو رمضان شریف کی رحمتیں اور برکتیں مبارک ہوں۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

پاکستانی اور امریکی مسلمان میں فرق

پاکستانی اور امریکی مسلمان میں فرق

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

بلاگر حلقہ احباب