میں یہاں 'کرن کرن سورج' کے واصف علی واصف کے الفاظ نقل کروں گا کہ '' آج کا مہذب و متمدن انسان ایک عجیب صورتحال سے دوچار ہے۔ اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی کوشش نے انسان کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔
زندگی تمام تر آسائشوں کے باوجود کرب مسلسل کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ نیکیوں کا ثمر تو دور تک نظر نہیں آتا لیکن فوری عاقبت کی راہ دیوار بنی ہوئی ہے۔ انسان اپنے علم، اپنے عمل، اپنے حالات، اپنی خواہشات، اپنی عادات غرضیکہ اپنے آپ سے نجات چاہتا ہے، اپنی گرفت سے آزادی چاہتا ہے۔ بےنام اندیشوں کی آندھیاں امید و آگہی کے چراغوں کو بجھاتی جا رہی ہیں۔ آج کے انسان کی فکری صلاحتیں منتشر ہو کر رہ گئی ہیں۔ قائدین کی بہتات نے قیادت کا فقدان پیدا کر دیا ہے۔ وحدت آدم، جمیت التفریق بن کے رہ گئی ہے۔ کسی کو کسی پر اعتماد نہیں۔ انسان کو اپنے آپ پر اعتماد نہیں، مستقبل واضح نہ ہو تو حال اپنی تمام تر آسودگیوں کے باوجود بے معنی نظر آتا ہے۔ آج مسیحائی کا دعوٰی ایک وباء کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جب کہ ہر آدمی کے سر پر کتبہ گڑا ہوا ہے اور تعزیت کرنے والا اپنے آپ سے تعزیت کر رہا ہے۔ زندگی کے جائز ناجائز تقاضے اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ انسان بے بسی اور بیچارگی کے عالم میں اندر سے ٹوٹ رہا ہے۔ علم بڑھتا جا رہا ہے، پھیلتا جا رہا ہے، لائبریریاں کتابوں سے بھری جا رہی ہیں اور انسان کا دل سکون سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔ آسائشوں کے حصول کا جنون آکاس بیل کی طرح انسان کی سوچ اور اس کے احساس کو لپیٹ میں لے چکا ہے۔ آج اگر سقراط دوبارہ پیدا ہو جائے تو اسے دوبارہ مرنا پڑے گا۔ آج احساس مر چکا ہے۔ آج کی ٹریجدی یہ ہے کہ ٹریجدی مر چکی ہے اور اس پر ماتم کرنے کا کسی کے پاس وقت نہیں۔ یہ بات انسان کی سمجھ سے باہر ہے کہ زمین کے سفر میں آسمان کے احکام کیوں اور کس لئے ہیں؟ مشینوں نے انسان سے مروت چھین لی ہے، گناہوں نے دعائیں چھین لی ہیں، روشنی نے بینائی چھین لی ہے۔ ایسے عالم میں ایک چھوٹا سا بلاگ کیا دعوٰی کر سکتا ہے؟ لیکن مقام غور ہے کہ انسانوں کے اژدھام اور سیل بے پایاں کے باوجود ایک پیدا ہونے والا بچہ کتنے وثوق اور یقین سے تشریف لاتا ہے اس اعلان کے ساتھ کہ بہت کچھ ہو چکا ہے، لیکن ابھی اور بہت کچھ باقی ہے۔ رات کی تاریکی میں دور سے نظر آنا والا چراغ روشنی تو نہیں دے سکتا لیکن ایسی کیفیات مرتب کرتا ہے کہ مسافر مایوسی سے نکل کر امید تک آ پہنچتا ہے، اور امید سے یقین کی منزل دو قدم پر ہے۔''
زندگی تمام تر آسائشوں کے باوجود کرب مسلسل کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ نیکیوں کا ثمر تو دور تک نظر نہیں آتا لیکن فوری عاقبت کی راہ دیوار بنی ہوئی ہے۔ انسان اپنے علم، اپنے عمل، اپنے حالات، اپنی خواہشات، اپنی عادات غرضیکہ اپنے آپ سے نجات چاہتا ہے، اپنی گرفت سے آزادی چاہتا ہے۔ بےنام اندیشوں کی آندھیاں امید و آگہی کے چراغوں کو بجھاتی جا رہی ہیں۔ آج کے انسان کی فکری صلاحتیں منتشر ہو کر رہ گئی ہیں۔ قائدین کی بہتات نے قیادت کا فقدان پیدا کر دیا ہے۔ وحدت آدم، جمیت التفریق بن کے رہ گئی ہے۔ کسی کو کسی پر اعتماد نہیں۔ انسان کو اپنے آپ پر اعتماد نہیں، مستقبل واضح نہ ہو تو حال اپنی تمام تر آسودگیوں کے باوجود بے معنی نظر آتا ہے۔ آج مسیحائی کا دعوٰی ایک وباء کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جب کہ ہر آدمی کے سر پر کتبہ گڑا ہوا ہے اور تعزیت کرنے والا اپنے آپ سے تعزیت کر رہا ہے۔ زندگی کے جائز ناجائز تقاضے اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ انسان بے بسی اور بیچارگی کے عالم میں اندر سے ٹوٹ رہا ہے۔ علم بڑھتا جا رہا ہے، پھیلتا جا رہا ہے، لائبریریاں کتابوں سے بھری جا رہی ہیں اور انسان کا دل سکون سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔ آسائشوں کے حصول کا جنون آکاس بیل کی طرح انسان کی سوچ اور اس کے احساس کو لپیٹ میں لے چکا ہے۔ آج اگر سقراط دوبارہ پیدا ہو جائے تو اسے دوبارہ مرنا پڑے گا۔ آج احساس مر چکا ہے۔ آج کی ٹریجدی یہ ہے کہ ٹریجدی مر چکی ہے اور اس پر ماتم کرنے کا کسی کے پاس وقت نہیں۔ یہ بات انسان کی سمجھ سے باہر ہے کہ زمین کے سفر میں آسمان کے احکام کیوں اور کس لئے ہیں؟ مشینوں نے انسان سے مروت چھین لی ہے، گناہوں نے دعائیں چھین لی ہیں، روشنی نے بینائی چھین لی ہے۔ ایسے عالم میں ایک چھوٹا سا بلاگ کیا دعوٰی کر سکتا ہے؟ لیکن مقام غور ہے کہ انسانوں کے اژدھام اور سیل بے پایاں کے باوجود ایک پیدا ہونے والا بچہ کتنے وثوق اور یقین سے تشریف لاتا ہے اس اعلان کے ساتھ کہ بہت کچھ ہو چکا ہے، لیکن ابھی اور بہت کچھ باقی ہے۔ رات کی تاریکی میں دور سے نظر آنا والا چراغ روشنی تو نہیں دے سکتا لیکن ایسی کیفیات مرتب کرتا ہے کہ مسافر مایوسی سے نکل کر امید تک آ پہنچتا ہے، اور امید سے یقین کی منزل دو قدم پر ہے۔''
1 comments:
ap ki blog pe kafi sabaq amoz article hain, yeh nek kam jari rakhen.
11/21/2012 12:00:00 AMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔