زلزلہ ۔ کچھ مزید
پاکستان میں زلزلے کے چھٹے دن بعد بھی تباہی کی مکمل تصویر سامنے نہیں آئی۔ موسم کی خرابی اور سڑکوں کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے دور دراز علاقوں میں پہنچنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ اب تک کے اندازوں کے مطابق تئیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس تباہی کی کہانی وڈیو رپورٹوں میں
کچھ بیانات ، تبصرے وغیرہ
صدر مشرف!
زلزلہ زدگان کے لیے ہونے والی امدادی کاموں میں دیر کے لئے انہیں افسوس ہے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان!
سانحہ بہت بڑا تھا۔اس میں ہمیں مدد کے ضرورت ہے اور تھی اور مدد آ بھی رہی ہے۔ کئی فیلڈ ہسپتال آ کر کام شروع کر چکے ہیں۔ کچھ نے مالی مدد دی ہے اور کچھ کے ہیلی کاپٹر آئے ہیں۔
عامر احمد خان، بی بی سی !
پچھلی رات میں نے راولپنڈی میں سنا تھا کہ زلزلہ سے متاثرین کے لئے کھانے پینے کی ہزاروں ٹن اشیا بھیجے جانے کے لئے تیار ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ پاکستانی کشمیریوں کی مدد کے لیے نکل آئے ہیں۔
علی احمد خان، بی بی سی !
پھر بالا کوٹ کی جانب روانہ ہوا۔ دوسری جانب سے میتوں کے آنے کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا۔ اور جب میں خواص کاٹھا نامی نالہ پار کرکے آگے بڑھا تو دریا کے دوسری جانب اچانک بالا کوٹ کا شہر نظر آیا جس کی عمارتیں اپنی بنیادوں پر کھڑی نہیں تھیں بلکہ بیٹھی اور لیٹی ہوئی نظر آئیں۔ بالکل جیسے ایٹم بم گرائے جانے کے بعد ہیرو شیما تصویروں میں نظر آتا ہے۔میں نے اپنے ساتھ چلنے والوں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ایک صاحب نے کہا ’جی ہاں کچھ نہیں بچا‘ اور رونے لگے اور پھر جیسے سب رونے لگے۔ میں نے اپنی نظریں جھکا لیں۔ مجھ میں اب کسی سے کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں تھی۔
وسعت اللہ خان، بی بی سی !
وہ سرکاری عملدار اور سیاستداں جن کا اسوقت امدادی سرگرمیوں سے براہ راست تعلق نہیں ہے اگر چند دن متاثرہ علاقوں میں صرف تباہ کاری کے معائنے کے لیے جانے سے گریز کریں تو یہ بھی متاثرہ علاقوں کی انتظامیہ اور لوگوں کی ایک بڑی مدد ہوگی اور اس سے انکی توجہ ادھر ادھر بٹنے سے بچ جائےگی۔ رہا سوال خود احتسابی اور مستقبل سازی کا تو اسکے لیے اک عمر پڑی ہے۔
آصف جیلانی، بی بی سی !
یہ عجیب و غریب حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی تقدیر میں اکتوبر کا مہینہ انقلابات، اٹھا پٹخ، اتھل پتھل اور ایسی تبدیلیوں سے عبارت رہا ہے کہ جس کے اثرات دور رس اور ہمہ گیر رہے ہیں اور تین نسلیں گزر جانے کے بعد بھی ملک ان کی گرفت میں ہے۔
ڈاکٹر عرفان نور، بی بی سی !
یہاں پر دنیا بھر کی امدادی ٹیمیں موجود ہیں لیکن کوئی بھی ان کا ایک دوسرے سے رابطہ کرانے والا نہیں ہے۔ ہم ان کو اُن علاقوں میں لے جا رہے ہیں جہاں پر امداد کی اشد ضرورت ہے۔
شاہ زیب جیلانی، بالاکوٹ !
صورتِ حال کا بدترین پہلو یہ ہے کہ کئی قصبے، شہر اور دیہاتوں سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے اور فوری امداد کے ادارے یہاں تک نہیں پہنچ پائے۔ ہمیں لوگوں کے ایسے بہت سے پیغامات ملے ہیں جن میں انہوں نے امدادی کارروائیوں پر شدید عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ تاہم حکومتی اداروں کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں کو بچانے کے لئے اپنی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں
عبدالقادرحسن، جنگ !
پوری قوم سوگوار ہی نہیں ماتم کناں ہے۔ کل یہ سمجھا جا رہا تھا کہ یہ قوم مر چکی ہے۔ بےحس اور لاتعلق ہو چکی ہے۔ اسے پراوہ نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ یہ دل چھوڑ چکی ہے لیکن ادھر قوم کے ایک حصے پر مصیبت نازل ہوئی اور یہ قوم یکایک اٹھ کھڑی ہوئی- پہلے تو روٹی ہیٹتی رہی پھر اس نے اپنے بھائیوں کی امداد کا سوچا اور کام شروع کر دیا۔ ایک آدھ دن میں بھی اتنا سامان جمع ہو چکا ہے کہ اسے قطار در قطار ٹرک لے جا رہے ہیں مگر لگتا ہے اسے حقداروں تک پہنچانے میں ایک بڑا وقت لگے گا۔ سوال یہ نہیں کہ ان کی امداد کے لئے سامان کہاں ہے سوال یہ ہے کہ اس سامان کو ان تک کیسے پہنچایا جائےاور اس کی فوری تقسیم کا طریقہ کیا ہو کہ کوئی محروم نہ رہ رہے۔
پاکستان میں شدید زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ہنگامی امداد اب پہنچنا شروع ہو گئی ہے مگر امدادی سامان اور اشیاء خردو نوش بڑی تعداد ان علاقوں تک پہنچ جانے کے باوجود بہت سے دیہات ایسے ہیں جہاں اب تک امدادی سامان نہیں پہنچایا جا سکا ہے۔صوبہ سرحد کے متاثرہ علاقوں کے دور دارز دیہات میں زلزلہ سے بچ جانے والے افراد خوارک نہ ہونے کے باعث گھاس کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ امدادی کارروائیاں پہلے سست تھیں اور اب ان میں تیزی آئی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ امدادی سامان کی غیر منظم تقسیم کا ہے جو عام طور پر گاڑیوں سے پھینکا جاتا ہے اور انہیں حاصل کرنے میں کمزور لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی حد تک خیمے، ادوایات اور کمبل نہ ملنے کی شکایت بھی دور ہوئی ہے لیکن اب بھی شہری علاقوں میں بہت سارے لوگ اس بارے میں شکایت کرتے ہیں۔ اس مسئلے میں بھی زیادہ تر شکایات دیہاتی علاقوں سے آ رہی ہیں جہاں لوگ بہت پریشان ہیں
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔