دنیا سمجھ گئی ہے حقیقت
آٹھ اکتوبر کو پاکستان اور بھارت میں آنے والے شدید زلزلے میں ہلاک ہونے والے کم و بیش ڈیڑھ لاکھ ہلاک شدگان پر دونوں ممالک سیاست کے مقبرے تعمیر کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ سیاست کھلے بندوں دیکھنے میں آئی ہے جہاں زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی ایک ایک لاش پرسیاست کی گئی۔حکومتی اداروں نے فوجیوں کے فراہم کردہ اعدادوشمار میڈیا کو دیئے جن کو میڈیا نے نا قابل تسلیم کہا ہے۔ حکومت کے کسی بھی ادارے کے پاس متاثرہ افراد کی بھلائی میں کرنے کو کچھ نہیں تھا جو بھی تھا وہ فوج کے ہاتھ میں تھاجس کی وجہ سے نہ صرف ہلاکتوں میں اضافہ ہوا بلکہ اب بیرونی امداد میں کمی کی وجہ بھی یہی ہے۔
پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ عالمی برادری نے وہ امداد نہیں کی جو کرنی چاہیئے تھی لیکن یہی عالمی برادری اب محسوس ہی نہیں خود اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ رہی ہے کہ پاکستان میں متاثرین کےلیئے کیا ہو رہا ہے۔
غیر ممالک کی امدادی ٹیموں سے ائرپورٹوں پر ڈالروں میں ٹیکس وصول کرنا جبکہ ائرپورٹ حکام کو معلوم تھا کہ یہ امدادی ٹیموں کے ارکان ہیں۔ جرمنی سمیت کئی ممالک کی امدادی ٹیموں کو ہوٹلوں اور ائرپورٹوں پر روکے رکھنا جس سے یہ ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں بارہ سے چوبیس گھنٹوں بعد پہنچیں۔ اسلام آباد سے قریب ترین متاثرہ علاقوں کا فاصلہ صرف ڈیڑھ سو کلو میٹر تھا لیکن ان ٹیموں کو وہاں تک پہنچانے میں حکام نے بارہ سے چوبیس گھنٹے ضائع کیئے۔ اسلام آباد میں پہنچنے والی دوسری امدادی ٹیم جرمنی کی تھی جس کو مارگلہ ٹاور کی بلڈنگ میں کام کرنے سے روک دیا گیا تھا اور امدادی ٹیم کا سربراہ گری ہوئی بلڈنگ کے آس پاس بے بسی سے پھرتے رہے۔ مارگلہ ٹاور کی بلڈنگ پر امدادی زور کی وجہ اس بلڈنگ میں غیرملکیوں کا مقیم ہونا تھا جن میں برطانیہ سمیت دیگر کئی ممالک کی فیملیاں مقیم تھی اور پاکستان کے اعلی سرکاری و سول حکام رہائش پذیر تھے۔
متاثرین کو پہنچنے والی اب تک کی امداد صرف عوامی حلقوں کی دی ہوئی امداد ہے جو ابتدائی امداد کےلیئے کافی تھی لیکن اسے تقسیم کرنے میں سیاست آڑے آئی اور اس طرح وہ امداد بھی متاثرین تک نہیں پہنچ سکی۔
عالمی برادری پر پاکستان زور ڈال رہا کہ امداد مزید دی جائے لیکن عالمی برادری امداد کے پہلے جھٹکے کے بعد اب تذبذب میں مبتلا ہے کیونکہ بیرون ممالک سے پاکستانیوں اور عالمی برادری کی طرف سے بھیجی گئی امداد تقسیم ہی نہیں کی گئی حتی کہ جن خیموں کی پاکستان دہائی دے رہا ہے ان میں سے اب تک ملنے والے زیادہ تر خیمے تقسیم ہی نہیں کیئے گئے اور سینکڑوں خیمے فوجی حکام نے فروخت کر دیئے ہیں۔
زلزلے میں ہلاکتیں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جانی نقصان ہے لیکن کسی ایک وزیر کویہ اختیار بھی نہیں کہ وہ فوجیوں کے بغیر ایک مزدور کو کسی مکان کا ملبہ ہٹانے پر لگا سکے۔ ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جن کو اب ملبے کے ساتھ کہیں پھینک دیا جائے گا اور پاکستان کا بڑا ادارہ ََ نادرہ َ کبھی بھی یہ نہیں بتائے گا کہ کس علاقے میں کتنے افراد رہتے تھے۔ اب ان حالات میں پاکستان کو مزید کسی بڑی امداد کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے۔ ابن طاہر۔ اردو سروس ۔ نیٹ
پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ عالمی برادری نے وہ امداد نہیں کی جو کرنی چاہیئے تھی لیکن یہی عالمی برادری اب محسوس ہی نہیں خود اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ رہی ہے کہ پاکستان میں متاثرین کےلیئے کیا ہو رہا ہے۔
غیر ممالک کی امدادی ٹیموں سے ائرپورٹوں پر ڈالروں میں ٹیکس وصول کرنا جبکہ ائرپورٹ حکام کو معلوم تھا کہ یہ امدادی ٹیموں کے ارکان ہیں۔ جرمنی سمیت کئی ممالک کی امدادی ٹیموں کو ہوٹلوں اور ائرپورٹوں پر روکے رکھنا جس سے یہ ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں بارہ سے چوبیس گھنٹوں بعد پہنچیں۔ اسلام آباد سے قریب ترین متاثرہ علاقوں کا فاصلہ صرف ڈیڑھ سو کلو میٹر تھا لیکن ان ٹیموں کو وہاں تک پہنچانے میں حکام نے بارہ سے چوبیس گھنٹے ضائع کیئے۔ اسلام آباد میں پہنچنے والی دوسری امدادی ٹیم جرمنی کی تھی جس کو مارگلہ ٹاور کی بلڈنگ میں کام کرنے سے روک دیا گیا تھا اور امدادی ٹیم کا سربراہ گری ہوئی بلڈنگ کے آس پاس بے بسی سے پھرتے رہے۔ مارگلہ ٹاور کی بلڈنگ پر امدادی زور کی وجہ اس بلڈنگ میں غیرملکیوں کا مقیم ہونا تھا جن میں برطانیہ سمیت دیگر کئی ممالک کی فیملیاں مقیم تھی اور پاکستان کے اعلی سرکاری و سول حکام رہائش پذیر تھے۔
متاثرین کو پہنچنے والی اب تک کی امداد صرف عوامی حلقوں کی دی ہوئی امداد ہے جو ابتدائی امداد کےلیئے کافی تھی لیکن اسے تقسیم کرنے میں سیاست آڑے آئی اور اس طرح وہ امداد بھی متاثرین تک نہیں پہنچ سکی۔
عالمی برادری پر پاکستان زور ڈال رہا کہ امداد مزید دی جائے لیکن عالمی برادری امداد کے پہلے جھٹکے کے بعد اب تذبذب میں مبتلا ہے کیونکہ بیرون ممالک سے پاکستانیوں اور عالمی برادری کی طرف سے بھیجی گئی امداد تقسیم ہی نہیں کی گئی حتی کہ جن خیموں کی پاکستان دہائی دے رہا ہے ان میں سے اب تک ملنے والے زیادہ تر خیمے تقسیم ہی نہیں کیئے گئے اور سینکڑوں خیمے فوجی حکام نے فروخت کر دیئے ہیں۔
زلزلے میں ہلاکتیں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جانی نقصان ہے لیکن کسی ایک وزیر کویہ اختیار بھی نہیں کہ وہ فوجیوں کے بغیر ایک مزدور کو کسی مکان کا ملبہ ہٹانے پر لگا سکے۔ ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جن کو اب ملبے کے ساتھ کہیں پھینک دیا جائے گا اور پاکستان کا بڑا ادارہ ََ نادرہ َ کبھی بھی یہ نہیں بتائے گا کہ کس علاقے میں کتنے افراد رہتے تھے۔ اب ان حالات میں پاکستان کو مزید کسی بڑی امداد کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے۔ ابن طاہر۔ اردو سروس ۔ نیٹ
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔