29 May, 2006

تلخ سچ

ناکام ریاستوں کی فہرست شائع ہونے کے فورا بعد میں نے اس پر بڑے ہلکے پھلکے انداز میں لکھا تھا ‘دوست دوست نہ رہا‘ مگر محترم جناب افتخار اجمل صاحب نے بڑے خوبصورت انداز میں اس پر تبصرہ کیا، انہوں نے خاص طور پر ان پوائینٹ یا عوامل کا ذکر کیا جس کی وجہ سے پاکستان کو ناکام ریاستوں میں نواں نمبر دیا گیا۔

ہر صاحب ہوش پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ پاکستان کو ناکام ریاست بنانے والے کون ہیں؟ اور وہ کون سے عوامل یا اسباب ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کو ٣٤ نمبر سے نواں نمبر تک ترقی دی گئی ہے۔
پاکستان میں جینے کا سلیقہ ہے نہ مرنے کا طریقہ۔ ہمارا سماج ان گنت انسانوں کا ایک جلوس ہے جو آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ یہاں سب کچھ اسی کے پاس ہے جس کے پاس طاقت اور دولت ہے۔
آزادی کے بعد سے اب تک ملک کا اقتدار عوام کے پاس آیا ہی نہیں، یہاں سیاسی جماعتیں تو قائم ہوتی رہیں لیکن عوام صرف نعرے لگاتے رہے۔ جھنڈے لہراتے رہے اور دھوکے کھاتے رہے۔ انہیں کبھی اقتدار میں شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس ملک کے حکمرانوں نے عوام کو کبھی اہمیت دی۔
پاکستان کی مضبوط نوکر شاہی نے شروع دن سے ہی یہ طے کر لیا تھا کہ یہاں کبھی عوام کے حقیقی نمائیدوں کو پیدا نہیں ہونے دے گی اور اس ملک کو اسی قانون کے تحت چلایا جائے گا جو انگریز چھوڑ کر گئے ہیں، لہذا ابتدا ہی سے انہوں نے ایک غیر محسوس طریقے سے جاگیردار، سردار، صنعت کار، سرمایہ دار، گدی نشین پیروں اور مولویوں کو آگے لانا شروع کر دیا۔ انہوں نے نوکرشاہی کی طاقت سے عوام کو باندھ دیا اور ان کی سوچ کو ایک سطح تک محدود کر دیا۔ جاگیردار نے دیہی آبادی کو تھانوں، تحصیلوں اور عدالتوں میں الجھا دیا، سردار نے اپنے قبیلے والوں کو غلام بنا دیا، صنعت کار اور سرمایہ دار نے شہری مزور اور ملوک الحال آبادی کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا، گدی نشین پیر اور درباری مولوی نے مذہب کے نام پر قوم کے اندر حمیت کو قتل کر دیا۔ اگر کسی جاگیردار نے مضارع کی بیٹی اٹھا لی تو مذہبی رہمنا نے اسے صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ ‘صبر کرو! تمھاری بیٹی کی قسمت یہی تھی‘۔ اگر کسی سردار نے اپنے قبیلے کے ابھرتے ہوئے نوجوان کو اپنی سرزمین سے باہر دھکیل دیا تو بھی مولوی نے کہا کہ ‘یہ تمھاری قسمت میں لکھا تھا‘۔ اگر کسی صنعتکار اور سرمایہ دار نے خون تھوکتے مزدور کو بے روزگار کر دیا تو گدی نشین پیر نے کہا ‘یہ تعویز لو اور سو روپے نذرانہ دو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘۔ مزدور کے سینکڑوں روپے پیر کی نذر ہو گئے مگر اس کی کھوٹی قسمت نہ بدلی۔ قوم کی جہالت، سادہ لوحی اور امرا کی عیاری نے ایک ایسا جہنم بھڑکا دیا جس کے بجھنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔
پاکستان میں ایک ایسا ناکام نظام موجود ہے جو نئی صدی اور نئی زندگی سے ہم آہنگ نہیں۔ اس ملک کے طاقت ور لوگ موجودہ نظام کو ہر قیمت پر قائم رکھنا چاہتے ہیں جبکہ یہ نظام ملک کو ناکام بنا رہا ہے اور عوام غلام بنتے جا رہے ہیں۔ ابھی عوام اتنے باشعور نہیں کہ وہ ایک خونریز جنگ لڑ کر غلامی کو آزادی میں بدل ڈالیں۔
قوم کی تشریح کیا ہے؟ بہت سے انسان جب کسی ایک مقصد کے حصول کے لئے اکھٹے ہوں، ان کی ثقافت، مذہب، رواج اور زبان مشترکہ ہو تو ایسے بہت سے انسانوں کو قوم کا نام دیا جاتا ہے۔ آج کا یہ ایک اہم سوال ہے کہ کیا پاکستان میں کوئی قوم موجود ہے؟۔ یہاں کئی چھوٹی بڑی قومیں پنجابی، سندھی، بلوچی، پختوں، کشمیری، سرائیکی وغیرہ تو صدیوں سے آباد ہیں مگر ان میں پاکستانی قوم کہیں نظر نہیں آتی، اگر بغرض محال یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ یہاں پاکستانی قوم موجود ہے تو ان کا آپس میں مشترکہ بودوباش کا کوئی مقصد بھی موجود ہے؟۔
جو قوم صرف ڈیموں پر متفق نہ ہو سکے جو ان کی زندگی اور موت کا مسلہ ہے اور اس اہم مقصد حیات پر بھی پہلے سندھی، بلوچی، پنجابی اور پختوں ہونے کا دعوی کرے اور زندگی اور موت کے مسلے پر بھی صرف تعصب کی زبان بولے اور علاقائی سوچ سے باہر نہ نکل سکے تو اسے کبھی بھی ایک قوم کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
جس ملک میں قوم ہی موجود نہ ہو وہاں سوچ اور مقاصد انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے ممالک میں عوام کا کوئی وزن ہوتا ہے اور نہ ہی عوام کی رائے کی کوئی قیمت ہوتی ہے۔ یہاں عوام اتنے کمزور ہیں کہ یہ اپنے اوپر مسلط فرسودہ نظام نہیں بدل سکتے بلکہ میں تو کہوں گا عوام خود اس ناکام نظام کو تقویت دے رہے ہیں۔ عوام خود ایسے سیاستدان پیدا کر رہے ہیں جو کرسی پر بیٹھتے ہی عوام کو لولا، لنگڑا اور اپائج بنانے کے مشن پر لگ جاتے ہیں۔
کیا ہم یہ تلخ سچ کہہ سکتے ہیں کہ عوام خود اپنی ریاست کو ناکام بنانے کے ذمہ دار ہیں؟۔

3 comments:

Anonymous نے لکھا ہے

مجھے اس فہرست پر اعتبار نہیں ہے۔۔۔۔۔

5/29/2006 11:18:00 PM
Anonymous نے لکھا ہے

مجھے اس فہرست پر اعتبار نہیں ہے۔۔۔۔۔

5/29/2006 11:20:00 PM
Anonymous نے لکھا ہے

درست فرمایا آپ نے عوام خود ذمہ دار ہیں اس تنزلی کے۔

1/14/2007 12:24:00 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب