جواب عرض ہے ۔ ٢
خاور صاحب کے جواب میں جواب عرض ہے لکھ چکا ہوں۔ اسے پڑھنے کے بعد آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کانٹا کہاں ہے، کنواں کون ہے اور کنویں سے کتا کیسے نکالا جائے یا کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔
خاور صاحب کے جواب میں ہی محترم افتخار اجمل بھوپال صاحب بڑے فلسفیانہ انداز میں اظہار خیال کر چکے ہیں۔
اس سلسلے میں مزید عرض ہے کہ شادى بياہ پر پچھلے كچھ سالوں سے پيدا ہونے والى یا ابھر کر سامنے آنے والی رسوم میں سے سب سے بڑی بیماری ہے ‘جہیز‘ یہ ایک ایسی معاشرتی برائی ہے جس پھلنے پھولنے سے کئی دوسری سنگین برائیوں کے راستے ہموار ہوتے ہیں اور اس طرح معاشرے میں نفسا نفسی اور مادیت پرستی کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں لڑکیاں شادی کی عمر کو پہنچنے کے باوجود شادی سے محروم ہیں۔ ہر سال والدین ادھار لے کر اپنی بچیوں کی شادیاں کرتے ہیں اور پھر عمر بھر قرض اتارنے میں مصروف رہتے ہیں اور جو والدین جہیز نہیں دے پاتے انکی بچیوں کو سسرال والے طعنے دے دے کر مار دیتے ہیں کچھ چولہے کا ایندھن بن جاتی ہیں اور کچھ کے ہاتھوں میں طلاق کا کاغذ پکڑا دیا جاتا ہے۔
کتنی بہنیں، بیٹیاں جہیز کا شکار بن کر بڑھاپے کی دہلیز پر دستک دے رہی ہیں۔ نہ جانے کتنے بھائی بہنوں کے جہیز کے لئے ہاتھوں میں کلاشنکوف پکڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں والدین گھر میں جوان بچیوں کی موجودگی اور جہیز نہ ہونے کی وجہ سے راتوں کو سو نہیں پاتے دوسری طرف لڑکیاں اپنے آپ کو بوجھ سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو کوستی رہتی ہیں، آگے چل کر یہی سوچیں لڑکی کو نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہیں اور بعض لڑکیاں تو خودکشی تک کر گزرتی ہیں۔
دوستوں نے تو اس بیماری کا تعلق تعلیم سے جوڑ دیا، ٹھیک ہے تعلیم شعوروآگہی دیتی ہے مگر آپ آس پاس نظر دوڑایں تو یہ بیماری آپ کو پڑھے لکھے اور مالدار طبقوں میں زیادہ نظر آئے گی۔ مالدار تو اپنے اسٹیٹس کے مطابق اپنی بیٹی کی شادی کرے گا اور جہیز میں فریج، کار، بنگلہ اور دیگر ارلم پرلم دے گا مگر مارے گئے تو بیچارے غریب جو بیٹی کو صرف دعاوؤں کے سہارے رخصت کرنا چاہتے ہیں۔
ہمارے ہاں تو ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو رشتہ کرتے وقت کہتا ہے کہ ‘اجی ہمیں تو صرف بیٹی چاہیے باقی تو اللہ کا دیا سب کچھ ہے بس دو کپڑوں میں بیٹی ہمیں دے دیں‘ والدین بیچارے خوش ہو جاتے ہیں کہ چلو مادہ پرشتی کے اس دور میں کسی کو کسی خیال تو ہے۔ لیکن جب بہو گھر آ جاتی ہے تو ساسو ماں صرف ‘ساس‘ بن جاتی ہے اور پھر طعن و تشنیع کے تیروں کی بارش شروع ہو جاتی ہے کہ ‘باپ نے تو بس بوجھ سر سے اتار دیا ایک ٹی وی تک نہ دے سکا۔ ارے ہماری ہی نصیب خراب تھی جو اس کنجوس اور کنگال گھرانے سے واسطہ پڑ گیا، پھر اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر آتی ہے کہ ‘ مسمات فلاں بیگم چولہا پھٹنے سے جھلس گئی بعدازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی‘ اس طرح یہ برائی قتل سے سنگین جرم کا ارتکاب کراتی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
کتا کہاں چھپا ہے؟
اسے کون نکالے گا یا کیسے نکالا جائے؟
والدین جب اپنی سب سے قیمتی اور پیاری چیز سپرد کر دیتے ہیں تو پھر کسی اور چیز کی گنجائس ہی رہتی۔
ہمارے نبی کریم صلٰی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ کی شادی حضرت علی سے کی تو حضرت علی نے اپنی زرہ بیچ کر حق مہر اور دیگر امور کا انتظام کیا۔
جب حضور صلٰی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو بیٹیاں ذوالنورین حضرت عثمان کے نکاح میں دیں تو آپ صلٰی اللہ علیہ وسلم نے جہیز نام کی کوئی شے نہیں دی تھی۔
اس برائی کو ختم کرنے کے لئے کچھ تجاویز ہیں کیونکہ ہم جیسے لوگ تو صرف یہ ہی بتا سکتے ہیں کہ کتا کہاں چھپا ہے۔
١۔ جہیز کی ایک خاص حد مقرر کی جائے اور ہر محلے کی سطح پر انہی میں سے چند ایماندار لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو یہ
چیک کرے کہ آیا مقرر حد سے زائد جہیز تو نہیں دیا جا رہا اور اگر دیا جا رہا ہو تو زائد سامان ضبط کر لیا جائے جسے غریب والدین کی بیٹیوں کی شادی میں جہیز کے طور پر دیا جائے۔
٢۔ والدین کی جائداد میں سے بیٹیوں کو اسلامی طریقے سے حصہ دیا جائے (قانون تو موجود ہے مگر اس پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے) کیونکہ دین کے مطابق وراثت کی نفی نہیں ہو سکتی۔
٣۔ نکاح نامہ کے ساتھ ایک مزید سرٹیفکیٹ کا اضافہ ہونا چاہیے جس میں تحریر ہو کہ جہیز نہیں دیا جائے گا۔
٣۔ نمودونمائش پر مکمل پابندی لگا دینی چاہیے۔ اس سلسلے میں قوم کے اجتماعی شعور کو بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
٤۔ جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے قومی سطح پر مہم چلائی جائے۔
یار دوست مزید تجاویز دیں۔
جناب جاوید قریشی کی ایک پرانی غزل ہتھے چڑھ گئی ہے جس کے کچھ شعر حاضر ہیں۔
خاور صاحب کے جواب میں ہی محترم افتخار اجمل بھوپال صاحب بڑے فلسفیانہ انداز میں اظہار خیال کر چکے ہیں۔
اس سلسلے میں مزید عرض ہے کہ شادى بياہ پر پچھلے كچھ سالوں سے پيدا ہونے والى یا ابھر کر سامنے آنے والی رسوم میں سے سب سے بڑی بیماری ہے ‘جہیز‘ یہ ایک ایسی معاشرتی برائی ہے جس پھلنے پھولنے سے کئی دوسری سنگین برائیوں کے راستے ہموار ہوتے ہیں اور اس طرح معاشرے میں نفسا نفسی اور مادیت پرستی کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں لڑکیاں شادی کی عمر کو پہنچنے کے باوجود شادی سے محروم ہیں۔ ہر سال والدین ادھار لے کر اپنی بچیوں کی شادیاں کرتے ہیں اور پھر عمر بھر قرض اتارنے میں مصروف رہتے ہیں اور جو والدین جہیز نہیں دے پاتے انکی بچیوں کو سسرال والے طعنے دے دے کر مار دیتے ہیں کچھ چولہے کا ایندھن بن جاتی ہیں اور کچھ کے ہاتھوں میں طلاق کا کاغذ پکڑا دیا جاتا ہے۔
کتنی بہنیں، بیٹیاں جہیز کا شکار بن کر بڑھاپے کی دہلیز پر دستک دے رہی ہیں۔ نہ جانے کتنے بھائی بہنوں کے جہیز کے لئے ہاتھوں میں کلاشنکوف پکڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں والدین گھر میں جوان بچیوں کی موجودگی اور جہیز نہ ہونے کی وجہ سے راتوں کو سو نہیں پاتے دوسری طرف لڑکیاں اپنے آپ کو بوجھ سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو کوستی رہتی ہیں، آگے چل کر یہی سوچیں لڑکی کو نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہیں اور بعض لڑکیاں تو خودکشی تک کر گزرتی ہیں۔
دوستوں نے تو اس بیماری کا تعلق تعلیم سے جوڑ دیا، ٹھیک ہے تعلیم شعوروآگہی دیتی ہے مگر آپ آس پاس نظر دوڑایں تو یہ بیماری آپ کو پڑھے لکھے اور مالدار طبقوں میں زیادہ نظر آئے گی۔ مالدار تو اپنے اسٹیٹس کے مطابق اپنی بیٹی کی شادی کرے گا اور جہیز میں فریج، کار، بنگلہ اور دیگر ارلم پرلم دے گا مگر مارے گئے تو بیچارے غریب جو بیٹی کو صرف دعاوؤں کے سہارے رخصت کرنا چاہتے ہیں۔
ہمارے ہاں تو ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو رشتہ کرتے وقت کہتا ہے کہ ‘اجی ہمیں تو صرف بیٹی چاہیے باقی تو اللہ کا دیا سب کچھ ہے بس دو کپڑوں میں بیٹی ہمیں دے دیں‘ والدین بیچارے خوش ہو جاتے ہیں کہ چلو مادہ پرشتی کے اس دور میں کسی کو کسی خیال تو ہے۔ لیکن جب بہو گھر آ جاتی ہے تو ساسو ماں صرف ‘ساس‘ بن جاتی ہے اور پھر طعن و تشنیع کے تیروں کی بارش شروع ہو جاتی ہے کہ ‘باپ نے تو بس بوجھ سر سے اتار دیا ایک ٹی وی تک نہ دے سکا۔ ارے ہماری ہی نصیب خراب تھی جو اس کنجوس اور کنگال گھرانے سے واسطہ پڑ گیا، پھر اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر آتی ہے کہ ‘ مسمات فلاں بیگم چولہا پھٹنے سے جھلس گئی بعدازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی‘ اس طرح یہ برائی قتل سے سنگین جرم کا ارتکاب کراتی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
کتا کہاں چھپا ہے؟
اسے کون نکالے گا یا کیسے نکالا جائے؟
والدین جب اپنی سب سے قیمتی اور پیاری چیز سپرد کر دیتے ہیں تو پھر کسی اور چیز کی گنجائس ہی رہتی۔
ہمارے نبی کریم صلٰی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ کی شادی حضرت علی سے کی تو حضرت علی نے اپنی زرہ بیچ کر حق مہر اور دیگر امور کا انتظام کیا۔
جب حضور صلٰی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو بیٹیاں ذوالنورین حضرت عثمان کے نکاح میں دیں تو آپ صلٰی اللہ علیہ وسلم نے جہیز نام کی کوئی شے نہیں دی تھی۔
اس برائی کو ختم کرنے کے لئے کچھ تجاویز ہیں کیونکہ ہم جیسے لوگ تو صرف یہ ہی بتا سکتے ہیں کہ کتا کہاں چھپا ہے۔
١۔ جہیز کی ایک خاص حد مقرر کی جائے اور ہر محلے کی سطح پر انہی میں سے چند ایماندار لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو یہ
چیک کرے کہ آیا مقرر حد سے زائد جہیز تو نہیں دیا جا رہا اور اگر دیا جا رہا ہو تو زائد سامان ضبط کر لیا جائے جسے غریب والدین کی بیٹیوں کی شادی میں جہیز کے طور پر دیا جائے۔
٢۔ والدین کی جائداد میں سے بیٹیوں کو اسلامی طریقے سے حصہ دیا جائے (قانون تو موجود ہے مگر اس پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے) کیونکہ دین کے مطابق وراثت کی نفی نہیں ہو سکتی۔
٣۔ نکاح نامہ کے ساتھ ایک مزید سرٹیفکیٹ کا اضافہ ہونا چاہیے جس میں تحریر ہو کہ جہیز نہیں دیا جائے گا۔
٣۔ نمودونمائش پر مکمل پابندی لگا دینی چاہیے۔ اس سلسلے میں قوم کے اجتماعی شعور کو بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
٤۔ جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے قومی سطح پر مہم چلائی جائے۔
یار دوست مزید تجاویز دیں۔
جناب جاوید قریشی کی ایک پرانی غزل ہتھے چڑھ گئی ہے جس کے کچھ شعر حاضر ہیں۔
کبھی تو ظلمت کی شب کٹے گی
کبھی تو صبح کا ظہور ہو گا
کبھی تو ان بے وقعت لوگوں سے
زندگی کا شعور ہو گا
جو ظلم سے سر جھکے ہوئے ہیں
جو آنکھیں پتھرا گئی ہیں غم سے
کبھی تو ان کو سکون ملے گا
کبھی تو ان میں بھی نور ہو گا
کبھی تو صبح کا ظہور ہو گا
کبھی تو ان بے وقعت لوگوں سے
زندگی کا شعور ہو گا
جو ظلم سے سر جھکے ہوئے ہیں
جو آنکھیں پتھرا گئی ہیں غم سے
کبھی تو ان کو سکون ملے گا
کبھی تو ان میں بھی نور ہو گا
2 comments:
جناب عالی ۔ ميں نے اپنی تحرير ميں تعليم کا ذکر کيا تھا پڑھائی کا نہيں ۔ آجکل لوگ پڑھائی کو تعليم کہنے لگ گئے ہيں ۔ يہ بھی کم علمی کا نتيجہ ہے ۔ تعليم اور پڑھائی ميں فرق ہوتا ہے ۔ جس نے رياضی ۔ تاريخ ۔ جغرافيہ ۔ طبيعات ۔ کيميا ۔ معاشيات ۔ معاشرتی علوم وغيرہ کی سنديں حاصل کر ليں وہ پڑھا لکھا تو بن گيا ليکن وہ تعليم يافتہ اُس وقت بنے گا جب وہ ان کے عملی نفاذ سے انسانيت کی خدمت کرے گا ۔ ہمارے ملک ميں پڑھے لکھوں کی تعداد ميں کچھ اضافہ ہوا ہے مگر تعليم يافتہ بہت کم ہو گئے ہيں کيونکہ ہماری قوم کا مقصدِ حيات سنديں حاصل کر کے مال کمانا بن چکا ہے انسانيت کی خدمت انہوں نے اللہ پر چھوڑ دی ہے ۔
5/20/2006 04:17:00 PMمثال کے طور پر انجنئرنگ ميں پی ايچ ڈی کرنے والے صاحب کے پاس کوٹھی ہو کار ہو وہ بيس ہزار روپے کے گديلے پر سوئيں اور بڑے ہوٹلوں ميں کھانا کھائيں جب کے اُن کے سرونٹ کوارٹر ميں رہنے والے اُنہی کے خدمتگار زمين پر سوئيں اور اُنہيں دو وقت کی پيٹ بھر کے روٹی بھی نصيب نہ ہو ۔ کيا آپ اس انجنئر کو تعليم يافتہ کہيں گے ؟
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔