05 June, 2006

جاں فروشی سے ایمان فروشی تک

بلوچ گورنمنٹ‘ کے جواب میں بلوچستان کی خودساختہ جلاوطن حکومت کے جنرل سیکریٹری میر آزاد خان بلوچ نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے۔


Thank you for introducing our blog to your readers. Unfortunately, neither India nor Israel are assisting us. But, if they do offer any help, we would gladly accept it and use it to liberate Balochistan.

For your information, the policies of the Pakistani military dictator, General Pervez Musharraf has alienated the entire Baloch nation. The Baloch are simply reacting to the blatant disregard to their genuine grievences by the Government of Pakistan.

So, rest assured that the Government of Balochistan in Exile is the result of the ruthlessness of the Punjabi domination of Balochistan. It is not concocted by a foreign intelligence.


Mir Azaad Khan Baloch
General Secretary
The Government of Balochistan in Exile
http://www.pkblogs.com/governmentofbalochistan/


جناب میر آزاد خان بلوچ! میں خود ایک بلوچ ہوں، ڈیرہ غازی خان سے میرا تعلق ہے اور ڈیرہ غازی خان پنجاب میں ہونے کی وجہ سے میں پنجابی بھی ہوں، مگر میں سب سے پہلے پاکستانی ہوں اس کے بعد بلوچ، پنجابی، سرائیکی، ڈیروی یا کچھ اور۔
بلوچ ہونے کے ناطے میں بلوچوں کے احساسات و جذبات کو بہتر سمجھتا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان احساس محرومی میں ہے، اسے اس کا حق نہیں دیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستاں سے نکلنے والی معدنیات سے پورا پاکستان ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے مگر بلوچستان میں صرف ترقی کے الفاظ ہی پہنچ سکے، میں سمجھتا ہوں اور بھی بہت سے مسائل اور مشکلات ہیں جن کا رونا رویا جا رہا ہے، مگر کبھی آپ نے ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا کہ ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟
آج جو کچھ بلوچستاں میں ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟
ان سب مشکلات، تکالیف اور تمام مسائل کا ذمہ دار صرف اور صرف بلوچ سردار ہیں، صدر پرویز مشرف کی حکومت کو تو صرف چار پانچ ہو رہے ہیں آپ اس سے پہلے کے ادوار کو بھی نگاہ میں رکھیں تو آج کے حالات کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
حکومت کی طرف سے بلوچ سرداروں کو رائلٹی اور مختلف مدوں میں اربوں روہے ملنے کے باوجود ان سرداروں نے بلوچستان کی عوام کے ساتھ کیا کیا؟ ان اربوں روپوں میں سے کبھی یا کہیں ایک روپیہ بھی عوام پر خرچ کیا ہو تو مجھے بتائیے؟
آج بلوچستان میں ہرطرف دھماکے ہو رہے ہیں اور ان تمام دھماکوں کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان لبریشن آرمی قبول کر رہی ہیں جبکہ بلوچ سردار ان تنظیموں کے وجود سے انکاری ہیں! کیوں؟ ان تنظیموں کو کون چلا رہے ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں؟ بلوچستان علیحدہ کرانا اور پاکستان کو توڑنا (یہ ایک لمبی باعث ہے جس میں میں اس وقت پڑنا نہیں چاہتا)
میر آزاد خان بلوچ صاحب! پاکستان ہماری وحدت ہے، یہ ایک اکائی ہے، یہ ہماری پہچان ہے۔ اس کی طرف اٹھنے والا ہر ہاتھ توڑ دیا جائے گا چاہے وہ اپنے کا ہو یا کسی دشمن کا، چاہے وہ کسی سدھی کا ہو یا سرحدی کا، کسی بلوچ کا ہو یا کسی پنجابی کا۔
آج کا تاریخ دان آپ کو قوم پرست، شدت پرست اور ‘شرپسند‘ لکھ رہا ہے، کل کا مورخ آپ کو کن الفاظ میں یاد کرے گا اس بارے میں آپ خود بہتر اندازہ کر سکتے ہیں۔ تاریخ میں ایک جاں فروش ابراہیم خان گاردی کا واقعہ یقینا آپ نے پڑھا ہو گا۔ اس لئے اب بھی وقت ہے واپس پلٹ آئیں اپنوں اور آپ خوب جانتے ہیں کہ کوئی بھی پاکستانی خواہ وہ پنجابی ہو یا سندھی، بلوچی ہو یا سرحدی اپنوں کا استقبال کس طرح کرتے ہیں۔
جاں فروشی کے شوق میں آپ ایمان فروشی کی طرف بڑھ رہے ہیں، ایمان فروشوں کے لئے تاریخ میں احمد شاہ ابدالی کا قول ملتا ہے کہ جاں فروشوں کی جان بخشی تو ہوسکتی ہے لیکن ایمان فروشوں کی جان بخشی نہیں ہو سکتی۔


تمام اردو بلاگرز کو دعوت عام ہے کہ وہ اس موضوع پر اپنے تاثرات بیان کریں، خاص کر
محترم جناب افتخار اجمل بھوپال صاحب
خاور کھوکھر صاحب
میرا پاکستان


یہ چونکہ اردو کا صفحہ ہے اس لئے آپ تبصرہ بھی اردو میں کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ شکریہ

3 comments:

خاور کھوکھر نے لکھا ہے

جەانزيب كا وه مشوره كه آپ لوگ غير اهم آدمى كو اهميت دے رهے هيں ميرے بهى دل كو لگا هے ـ اس لئے ميرے خيال ميں هر لكهنے والے كو بلوچ بهاهئيوں كے متعلق آپنے آپنے خيالات اور حقيقى جذبات لكهنے چاهئيے مگر سستى شهرت كے خواهش مند اور خود ساخته گورنمنٹ كا كوئى بهى ذكر نهيں كرنا چاهئيے ـ
ميں ميرے جاننے والے اور ميرے خاندان ميں كوئي ايكـ بهى بلوچ بهائيوں كے خلاف نهيں هے ـ

6/06/2006 12:37:00 AM
میرا پاکستان نے لکھا ہے

ايک بات جو سب سے اہم ہے اس کي طرف ہم دھيان نہيں دے رہے۔ وہ ہے ہر مسلے کا حل گفت و شنيد سے نہ کہ گولي کي زبان سے۔ جو لاوا بلوچستان ميں پک رہا تھا اس کي طرف ارشاد حقاني صاحب سميت بہت سارے کالم نگاروں نے حکومت کو بہت پہلے آگاہ کر ديا تھا مگر حکومت چونکہ فوجي ہے اسلۓ سمجھتي ہے کہ ہر کام ڈنڈے کے زور پر کر لے گي۔ مگر حکومت نے سابقہ تجربون سے لگتا ہے سبق نہیں سيکھا۔ ہم نے بنگلہ ديش بھي فوجي حکومت کے دور ميں ڈنڈے کي زبان استعمال کرنے کے چکر ميں گنوايا ہے اور اب پھر وہي غلطي دہرا رہے ہيں۔ يہ بات ہر کوئي جانتا ہے کہ آپس ميں مزاکرات سے تمام تضادات دور کۓ جاسکتے ہيں۔ مگر چونکہ بلوچستان کے موجودہ بحران کے پيچھے بھي غداروں کا ہاتھ ہے جو ملک کے ٹکڑے کرکے بيرورني مفادات کي تکميل چاہتے ہيں تو پھر وہ يہي کريں گے جو کر رہے ہيں۔ ہماري تجويز يہي ہے کہ دھمکيوں اور گولہ باري کي بجاۓ درميان کي راہ نکالي جاۓ اور مل بيٹھ کر اس مسلے کا حل ڈھونڈا جاۓ۔ حکومت اور بلوچوں کي نيت اگر ٹھيک ہو تو يہ بحران کوئي بڑا نہيں ہے ليکن اگر دونوں فريق کسي اور ايجينڈے پر کام کررہے ہيں تو پھر اس ايجينڈے کے مکمل ہونے تک يہ لڑائي جاري رہے گي۔

6/06/2006 04:57:00 AM
افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

میں نے بہت دنوں بعد بلاگ پڑھنے شروع کئے ہيں تو يہاں اپنے نام ايک سوال پايا ۔

ہمارے ملک ميں حکومت بھی وڈيروں [لُٹيروں] کی ہے اور بلوچستان ميں جنگ بھی وڈيروں کی ہو رہی ہے ۔ عوام چاہے بلوچی ہوں يا پنجابی وہ پِس رہے ہيں مگر قصور عوام کا ہے کہ وہ جائز و ناجائز روٹی کے ايک ٹکڑے کی خاطر اپنے لئے اس دنيا کو بھی جہنم بنا ليتے ہيں ۔ وہ اپنے قومی فلاسفر شاعر علامہ اقبال کو بھول چکے ہيں جس نے کہا تھا

اے طائرِ لاہوتی اُس رِزق سے موت اچھی
جس رِزق سے آتی ہو پرواز ميں کوتاہی

6/09/2006 07:36:00 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب