حیران ہوں دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو
پچھلے دنوں تقریبا تمام قومی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق نیب نے سابق وزیراعظم بے نظیربھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف الیکشن کمیشن میں اپنے اثاثوں کے بارے میں غلط گوشوارے داخل کرنے کے الزام میں استغاثہ دائر کیا تھا جس پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد نے سابق وزیراعظم اور ان کے شوہر کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے ہیں اور وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ انٹرپول کے ذریعے انہیں گرفتار کرکے تین جولائی تک عدالت میں پیش کیا جائے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو پہلے ہی درجنوں مقدموں میں ملوث کیا گیا ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح ان سب مقدمات کا سامنا بھی کر رہے ہیں، اب وہ اس نئے وارنٹ کا مقابلہ بھی کر لیں گے، مگر سوچنے والی بات یہ ہے کیا پوری کابینہ میں سے صرف یہ دو ہی گوشوارے غلط داخل کئے گئے تھے؟ اور اگر بہت سے دوسرے امیدوارں نے بھی غلط گوشوارے داخل کرائے تھے تو پھر ان کا کیا بنا؟
ان کے بارے میں عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیا گیا؟
ان کے وارنٹ جاری کیوں نہیں کئے گئے؟
کیا اس سے یہ نہیں لگتا کہ حکومت ‘میثاق جمہوریت‘ کے خوف میں مبتلا ہو کر یہ سب کر رہی ہے ورنہ سیکڑوں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے گوشواروں کی تفصیلات مختلف قومی اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں اور ان گوشواروں میں ایسے ایسے ہوشربا انکشافات کئے گئے ہیں کہ ‘خامہ انگشت بدندان‘ ہے کہ اسے کیا کہئے۔ ان گوشواروں سے ان بیچاروں پر ترس آنے لگتا ہے اور خود پر فخر کہ ہم اتنے امیر کبیر ہیں اور ان سے لاکھ درجے بہتر ہیں، یہ بیچارے غریب غرباء نہ جانے اتنی کم آمدنی میں کیسے گزارہ کرتے ہوں گے نہ تو ان بیچاروں کے پاس اپنا مکان ہے اور نہ اپنی گاڑی۔ سچی بات تو یہ کہ ان گوشواروں کر دیکھنے کے بعد تو انہیں زکوا ة دینے کو دل کرتا ہے۔
مگر حقیقت سب پر عیاں ہے، اصل میں یہاں کی گنگا ہی الٹی ہے، مجرم وہی جو پکڑا جائے۔ سوال وہی کہ کیا ان تمام گوشواروں کو نیب نے درست تسلیم کر لئے ہیں؟
اگر نہیں تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
اصل میں قانون کو ہمارے ہاں کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا۔ اسے مذاق بنا دیا گیا مگر مذاق کی بھی ایک حد ہونی چاہئے۔
بقول ارشاد احمد حقانی صاحب کہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایسی باتیں نہ کوئی سنتا ہے، نہ ان پر عمل کرتا ہے، نہ ان سے سبق سیکھتا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو پہلے ہی درجنوں مقدموں میں ملوث کیا گیا ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح ان سب مقدمات کا سامنا بھی کر رہے ہیں، اب وہ اس نئے وارنٹ کا مقابلہ بھی کر لیں گے، مگر سوچنے والی بات یہ ہے کیا پوری کابینہ میں سے صرف یہ دو ہی گوشوارے غلط داخل کئے گئے تھے؟ اور اگر بہت سے دوسرے امیدوارں نے بھی غلط گوشوارے داخل کرائے تھے تو پھر ان کا کیا بنا؟
ان کے بارے میں عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیا گیا؟
ان کے وارنٹ جاری کیوں نہیں کئے گئے؟
کیا اس سے یہ نہیں لگتا کہ حکومت ‘میثاق جمہوریت‘ کے خوف میں مبتلا ہو کر یہ سب کر رہی ہے ورنہ سیکڑوں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے گوشواروں کی تفصیلات مختلف قومی اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں اور ان گوشواروں میں ایسے ایسے ہوشربا انکشافات کئے گئے ہیں کہ ‘خامہ انگشت بدندان‘ ہے کہ اسے کیا کہئے۔ ان گوشواروں سے ان بیچاروں پر ترس آنے لگتا ہے اور خود پر فخر کہ ہم اتنے امیر کبیر ہیں اور ان سے لاکھ درجے بہتر ہیں، یہ بیچارے غریب غرباء نہ جانے اتنی کم آمدنی میں کیسے گزارہ کرتے ہوں گے نہ تو ان بیچاروں کے پاس اپنا مکان ہے اور نہ اپنی گاڑی۔ سچی بات تو یہ کہ ان گوشواروں کر دیکھنے کے بعد تو انہیں زکوا ة دینے کو دل کرتا ہے۔
مگر حقیقت سب پر عیاں ہے، اصل میں یہاں کی گنگا ہی الٹی ہے، مجرم وہی جو پکڑا جائے۔ سوال وہی کہ کیا ان تمام گوشواروں کو نیب نے درست تسلیم کر لئے ہیں؟
اگر نہیں تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
اصل میں قانون کو ہمارے ہاں کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا۔ اسے مذاق بنا دیا گیا مگر مذاق کی بھی ایک حد ہونی چاہئے۔
بقول ارشاد احمد حقانی صاحب کہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایسی باتیں نہ کوئی سنتا ہے، نہ ان پر عمل کرتا ہے، نہ ان سے سبق سیکھتا ہے۔
1 comments:
سائيں ۔ اسی کو کہتے ہيں آغازِ عشق ہے ڈرتا ہے کيا ۔ آگے آگے ديکھئے ہوتا ہے کيا
6/22/2006 09:32:00 AMمين نے آپ کے مشورہ پر مزيد زور آزمائی کی ۔ نتيجہ ميری آج کی تہرير پڑھ ليجئے
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔