ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
بزرگوں نے غلامی کی فضا تبدیل فرمائی
اساس حریت پر ملک کی تشکیل فرمائی
ہمیں اب کام کرنا اور بلا تاخیر کرنا ہے
ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
ہمیں اس خاک کو ہر حسن، ہر زیبائی دینی ہے
اسے چہرہ، اسے بازو، اسے گیرائی دینی ہے
ہزاروں خواب ایسے ہیں، جنہیں تعمیر کرنا ہے
ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
جبین شب پہ صبحِ نور کا جھومر سجانا ہے
سیہ رُو ظلمتوں کے بطن سے سورج اگانا ہے
سبھی تاریکیوں کو صاحب تنویر کرنا ہے
ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
شجر پر برگ، شاخوں پر گُل شاداب رکھنے ہیں
کفِ کشت و چمن پر کوکب و مہتاب رکھنے ہیں
زمیں پر اک منور آسماں تحریر کرنا ہے
ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
ہمیں تیشہ چلانا، اپنی ہمت آزمانی ہے
ہر اک کہسار کے باطن سے جُوئے شِیر لانی ہے
ہر اک تقدیر کو وابستہ تدبیر کرنا ہے
ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
یہاں ہم خیر کا چہرہ سنواریں گے نکھاریں گے
یہاں نیکی کا ہم ایک ایک خدوخال ابھاریں گے
بدی کے ایک اک کردار کو زنجیر کرنا ہے
ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
وطن کو ہر شرف، ہر آبرو، ہر ناز بخشیں گے
غرض حسنِ عمل سے سینکڑوں اعزاز بخشیں گے
صنفِ عالم میں اس کو صاحب توقیر کرنا ہے
ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
ہزاروں رفعتیں قدموں میں اس کے ڈھیر کر دیں گے
مسخر کر کے مہر و ماہ دامن اس کا بھر دیں گے
مگر پہلے تو اپنے آپ کو تسخیر کرنا ہے
ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
اساس حریت پر ملک کی تشکیل فرمائی
ہمیں اب کام کرنا اور بلا تاخیر کرنا ہے
ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
ہمیں اس خاک کو ہر حسن، ہر زیبائی دینی ہے
اسے چہرہ، اسے بازو، اسے گیرائی دینی ہے
ہزاروں خواب ایسے ہیں، جنہیں تعمیر کرنا ہے
ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
جبین شب پہ صبحِ نور کا جھومر سجانا ہے
سیہ رُو ظلمتوں کے بطن سے سورج اگانا ہے
سبھی تاریکیوں کو صاحب تنویر کرنا ہے
ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
شجر پر برگ، شاخوں پر گُل شاداب رکھنے ہیں
کفِ کشت و چمن پر کوکب و مہتاب رکھنے ہیں
زمیں پر اک منور آسماں تحریر کرنا ہے
ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
ہمیں تیشہ چلانا، اپنی ہمت آزمانی ہے
ہر اک کہسار کے باطن سے جُوئے شِیر لانی ہے
ہر اک تقدیر کو وابستہ تدبیر کرنا ہے
ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
یہاں ہم خیر کا چہرہ سنواریں گے نکھاریں گے
یہاں نیکی کا ہم ایک ایک خدوخال ابھاریں گے
بدی کے ایک اک کردار کو زنجیر کرنا ہے
ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
وطن کو ہر شرف، ہر آبرو، ہر ناز بخشیں گے
غرض حسنِ عمل سے سینکڑوں اعزاز بخشیں گے
صنفِ عالم میں اس کو صاحب توقیر کرنا ہے
ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
ہزاروں رفعتیں قدموں میں اس کے ڈھیر کر دیں گے
مسخر کر کے مہر و ماہ دامن اس کا بھر دیں گے
مگر پہلے تو اپنے آپ کو تسخیر کرنا ہے
ہمیں تکمیل کی حد تک اسے تعمیر کرنا ہے
ڈاکٹر عاصی کرنالی
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔