19 October, 2006

مختار مائی پر مبنی فلم کی نمائش

پاکستانی پنجاب کے ایک گاؤں میر والہ میں مبینہ اجتماعی جنسی زیادتی کا شکار ہونے کے بعد حصول انصاف کے لیئے دنیا بھر میں جدوجہد کی علامت کے طور پر مشہور مختار مائی کی زند گی پرمبنی فلم ’شیم‘ کی نمائش ٹورانٹو میں اکتیسویں انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں کی گئی۔
اس فلمی میلے میں دکھائی جانے والی یہ واحد پاکستانی فلم تھی۔انگریزی اور سرائیکی زبان میں بنائی گئی اس فلم کے ڈائریکٹر کینیڈین نژاد پاکستانی فلم ڈائریکٹر محمد نقوی ہیں جبکہ پروڈیوسر نیویارک ٹائمزٹیلی ویژن کی سابق پروڈیوسرجل شنیڈر ہیں۔ اس فلم کو کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں واقع مشہور رائل انٹاریو میوزیم کے سنیما ہال میں پیش کیا گیا۔
اس فلم کی تیاری میں تین سال کا عرصہ لگا ہے۔نمائش کے وقت ہال فلم بینوں سےبھراتھا جس میں پاکستان اور کینیڈا کے علاوہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کے شائقین بھی شامل تھے۔
خودمائی بھی فلم کے اس پریمیر شو میں موجود تھیں- مختار مائی نے ہلکے گلاًبی رنگ کا شلوار قمیض پہن رکھا تھا۔ فلم میں پاکستان کے عدالتی نظام پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے اور عدالتوں کے علاوہ پولیس سٹیشنوں کے باہر دھکے کھانے والے غریب عوام کو تفصیل کے ساتھ فلمبند کیا گیا ہے۔
مشہور امریکی فلم کمپنی شوٹائم کے تعاون سے بننے والی یہ فلم پاکستان کی سادہ دیہاتی زندگی ،غربت ، اور بھوک سے بلکتے ننگے بچوں کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ مختار مائی کیس کے گواہوں اور ملزمان کے خاندانوں کے انٹرویو بھی فلم میں دکھائےگۓ ہیں۔
ملزمان کے کچھ رشتہ داروں نےاس واقعہ کوپاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا میڈیا فراڈ قرار دیاہے۔
فلم میں مختار مائی کی ابتدائی زندگی سے لیکر آج تک ہونے والی تمام تبدیلیوں کو دکھایا گیا ہے۔ مختار مائی کی روز مرہ مصروفیات اور ’مختار مائی گرلز سکول‘ اس فلم کے اہم حصے ہیں۔
اتہائی خستہ حال سکول میں غریب بچوں کے مناظر نے حاضرین کو اشک بار کردیا۔فلم کی ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ اس میں مستوئی قبیلے کے بچوں کو خصوصی طور پر دکھایاگیا ہے۔ میروالا کے کچے مکان اور گاؤں کا ماحول حاصرین کے لیۓ نیا نہ تھا مگر مختار مائی کے کچے مکان کے اوپر لگی بہت بڑی ٹی وی سیٹلایٹ ڈش قابل توجہ تھی۔
مائی کےمخالفین نے الزام لگایا ہے کہ وہ تو اب ملکہ بن کر بیٹھی ہیں اورپرویز مشرف کے ساتھ گھومتی ہیں۔
فلم میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح میڈیا نےاس واقعہ کو عالمی سطح پر اجاگر کیا ۔پولیس کے مظالم اور بغیر ٹیچروں کے سکولوں کاذکر بھی فلم کا حصہ ہیں۔اس کیس کو عالمی سطح پراجاگر کرنے والے نیویارک ٹائمز کے صحافی نکولس کرسٹوف اور وزیر اعظم شوکت عزیز کےانٹرویوبھی اس فلم میں شامل کیۓ گۓ ہیں۔
پاکستان میں جیلوں کی حالت، مائی کے لیۓ دیگر ممالک میں چلائی گئی تحریک اور پرویز مشرف کے خلاف مظاہروں کو بھی فلم میں دکھایا گیا ہے۔
فلم میں مختار مائی کی زندگی میں آئی تبدیلی کو لوگوں نے کافی غور سے دیکھا۔ جب پاکستانی صدر مشرف کے ایک انٹرویو کا منظرآیا جس میں انہوں نےکہا کہ ’ریپ تو ہر جگہ ہوتے ہیں‘ تو ہال میں ایک زبردست طنزیہ قہقہہ گونجا۔
میروالاً کے دیہاتی مقررین اور علاقے کےاماموں کی پرجوش تقاریر بھی فلمبند کی گئیں۔
فلم کے آخر میں مختارمائی کے بارے میں بتایا گیا ک وہ خود بھی اپنےسکول میں پانچویں جماعت کی طالبہ ہیں۔اس فلم کے خاتمے پرمائی نےحاضرین کے سوالوں کے جواب دیۓ اور کئی گوری خواتین مائی کےگلے ملتی رہیں۔کئی خواتین مائی سے ملتے ہوۓ اشکبار ہوگئیں۔ کئی لوگوں نے مائی کے سکول کے لیۓ امداد دینے کی پیشکش بھی کی۔
فلم کے ڈائریکٹرنے بتایا کہ ان کو نفرت آمیز ای میلز اکثر موصول ہوتے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ ان کو کوئی جانی خطرہ نہیں ہے۔

محسن عباس ٹورانٹو، کینیڈا
بی بی سی اردو

2 comments:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

ميں سمجھا کہ آپ ٹورانٹو چلے گئے ہيں ۔

عزت اور ذلت تو اللہ کے ہاتھ ميں ہے جسے چاہے دے اور جيسی چاہے دے

10/20/2006 03:44:00 PM
Unknown نے لکھا ہے

ارے کہاں جناب غریب تو صرف خواب دیکھ سکتا ہے ٹورانٹو کے۔

10/29/2006 09:57:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب