03 November, 2006

اُس آنکھ تک دھوئیں کا اثر جانا چاہیے

اس عہد کے مزاج سے ڈر جانا چاہیے
کہنا ہو سچ تو کہہ کے مکر جانا چاہیے
جلتی ہیں روز جس کے اشارے پہ بستیاں
اُس آنکھ تک دھوئیں کا اثر جانا چاہیے
ہم وہ سفر نصیب ہیں جن کو خبر نہیں
کس سمت جا رہے ہیں کدھر جانا چاہیے
ہارا ہے جسم، حوصلہ ہارا نہیں ابھی
سو اسطرح نہیں ہے کہ مر جانا چاہیے
کہتے ہیں بے حسی یہاں پھرتی ہے رات بھر
دن دن میں اس جگہ سے گزر جانا چاہیے
صحرا کی چاندنی کے بلاوے پر اس طرح
اچھا نہیں ہے جانا مگر جانا چاہیے
اظہر مسافروں کو ضرورت ہے سائے کی
صحرائے بے شجر میں ٹھہر جانا چاہیے


اظہر ادیب

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب