06 November, 2006

خواب

فقیرانہ روش رکھتے تھے
لیکن اس قدر نادار بھی کب تھے
کہ اپنے خواب بیچیں
تم اپنے کاغذی انبار لائے ہو
ہوس کی منڈیوں سے درہم و دینار لائے ہو
تم ایسے دام تو ہر بار لائے ہو
مگر تم پر ہم اپنے حرف کے طاؤس
اپنے خون کے سرخاب کیوں بیچیں
ہمارے خواب بے‌وقعت سہی
تعبیر سے عاری سہی
پر دل‌زدوں کے خواب ہی تو ہیں
نہ یہ خوابِ زلیخا ہیں
کہ اپنی خواہشوں کے یوسفوں پر تہمتیں دھرتے
نہ یہ خوابِ عزیزِ مصر ہیں
تعبیر جن کی اس کے زندانی بیان کرتے
نہ یہ ان آمروں کے خواب
جو بے‌آسرا خلقِ خدا کو دار پر لائیں
نہ یہ غارت‌گروں کے خواب
جو اوروں کے خوابوں کو تہہِ شمشیر کر جائیں
ہمارے خواب تو اہلِ صفا کے خواب ہیں
حرف و نوا کے خواب ہیں
مہجور دروازوں کے خواب
محصور آوازوں کے خواب
اور ہم یہ دولتِ نایاب کیوں بیچیں
ہم اپنے خواب کیوں بیچیں؟

احمد فراز

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب