21 December, 2006

ذرا سی غفلت

وسیع سمندر میں لاکھوں سپیاں منہ کھولے آسمان کی جانب تکتی رہتی ہیں۔ کبھی کسی جانب سے کالی گھٹائیں آتی ہیں۔ چھاجوں مینہ برستا ہے۔ میلوں تک پھیلا ہوا سمندر اس ابر رحمت پر اتنی ہی ناشکری کا مظاہرہ کرتا ہے جتنا کوئی دہکتا ہوا ریگزار جون جولائی کی دوپہروں میں سورج کی دھوپ دیکھ کر کرتا ہے۔ سطح سمندر پر تیرتی یہ سپیاں بارش کا قطرہ پڑتے ہی بند ہو جاتی ہیں۔ اور سطح سمندر سے نیچے چلی جاتی ہیں۔ پھر پانی کے یہ قطرے مخصوص درجہ حرارت، مقررہ دباؤ اور خاص تعامل کے نتیجے میں موتی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جس طرح شراب جتنی پرانی ہوتی جاتی ہے اتنی ہی زیادہ خمار انگیز اور قیمتی ہوتی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ سپیاں جتنی زیادہ مدت تک سمندر میں رہتی ہیں ان کے موتی اتنے ہی چمکدار اور قیمتی ہوتے چلے جاتے ہیں حتٰی کہ سینکڑوں موتیوں میں سے اک سچا موتی پیدا ہوتا ہے۔ موتی کے تیار ہوتے ہی سیپی کی کثافت میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور یہ برف کی طرح دوبارہ سطح آب پر تیرنے لگتی ہے۔ کوئی موج بلاخیز ان سیپیوں کو ایک ایک کر کے ساحل سمندر پر پھنکنا شروع کر دیتی ہے۔ جہاں سے مچھیرے یہ سیپیاں اکھٹی کر کے جوہریوں کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں۔ اب ایک جوہری کو ہی اصل سچے موتی کی پہچان ہوتی ہے وہ اسے خوب نکھار کر اور پالش کر کے بازار میں موتیوں کے قدرشناس کو بیچنے کے لئے رکھ دیتا ہے۔ اب جو خریدار موتی کی خاصیت جانتا ہے، اس کی اہمیت سمجھتا ہے اور اس کی قدرومنزلت کو پہنچانتا ہے وہ انہوں لاکھوں روپے دے کر بھی خرید لیتا ہے۔ وہ انہیں سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے، وہ انہیں ضائع نہیں کرتا، انہیں کھونے نہیں دیتا اور انہیں پوری احتیاط اور محبت سے رکھتا ہے۔ لیکن جو شخص اس کی قدر سے ناآشنا ہو اس کے لئے لنڈے کے کوٹ پر لگے پتھر کے بٹنوں اور سیپی کی کوکھ میں کندن بننے والے موتیوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اس کی نظر میں بجری کی کنکریوں اور موتیوں کی یکساں اہمیت ہوتی ہے۔ اس کے لئے ان موتیوں کی قیمت اتنی ہی ہوتی ہے جتنی بازاروں میں ریڑھیوں پر کلو کے حساب سے بکنے والی مصنوئی جیولری کی ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے کا المیہ بھی یہی ہے کہ اس میں جوہر شناس افراد موجود نہیں ہیں۔ ہم سچے موتیوں کی قدروقیمت نہیں جانتے۔ ہم اصلی ہیروں کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں۔ ہم بجری کوٹنے والے وہ مزدور بن چکے ہیں جو ہر پتھر کو بلا امتیاز اپنے ہتھوڑے کی چوٹ سے ریزہ ریزہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اسے بلکل بھی خبر نہیں ہوتی، اسے علم ہی نہیں ہوتا کہ اس کی کون سی ضرب کے نیچے عام پتھر ہے اور کون سی ضرب تلے ہیرا پڑا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا ہم اہنے موتی اس طرح سڑکوں پر رولتے پھرتے؟ ہماری ‘گودڑیوں‘ سے برآمد ہونے والے لعل کیا اس طرح وقت کی بے رحم نکاس نالیوں میں پڑے رہتے؟
ایک پائلٹ کس طرح بنتا ہے؟
معاشرے سے ذہین ترین نوجوان بے شمار ضمنی امتحانوں سے گزر کر ایک بڑے امتحان کا سامنا کرتا ہے۔ ابتدائی ٹیسٹ ہوتا ہے، ابتدائی میڈیکل ٹیسٹ ہوتا ہے، آئی ایس ایس بی سے گزرتا ہے، فائینل میڈیکل ٹیسٹ کرواتا ہے، نفسیاتی ٹیسٹ پاس کرتا ہے، انٹرویو میں تندوتیز اور چومکھے سوالات کا سامنا کرتا ہے اور پھر آخر میں میرٹ کے پل صراط سے گزر تربیت کے لئے منتخب ہوتا ہے، دوران تربیت وہ ذہنی پریشانیوں سے گزرتا ہے، جسمانی تکالیف برداشت کرتا ہے، دماغی مشقت کرتا ہے، ایک موسم میں دوسرے موسم کے مصائب کا سامنا کرتا ہے، کٹھن اور تھکا دینے والے سفر کے بعد کہیں جا کر اسے منزل کے آثار دکھائی دینے لگتے ہیں۔
اسی طرح آرمی کا سیکنڈ لیفٹنینٹ، نیوی کا افسر، ایک سی ایس پی افسر اور ایک سی ایس ایس بیوروکریٹ دشوارگزار راستوں سے گزر کر ‘نروان‘ حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک نوجوان سرد راتوں کو جاگ کر اور گرم دوپہریں لائبریری میں صرف کرتا ہے، اپنا من مار کر محنت کرتا ہے۔ اپنی خواہشات کو طاقِ نسیاں پر رکھ کر نئی منزلوں کے کھوج میں جتا رہتا ہے، تب کہیں جا کر ایک شخص اپنے نام کے ساتھ ایم بی بی ایس لکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ بلکل اسی طرح جب انجینئرنگ کا ایک طالب علم راتوں کو جاگ جاگ کر لہو کے دیپ جلاتا ہے، وقت کی گرد سے بچ کر اور خارزار جوانی میں اپنا دامن آلائشوں سے پاک رکھ کر بھاری محنت تلے طویل فاصلہ طے کرتا ہے تو تب کہیں جا کر اسے سفر کا آخری سنگ میل دکھائی دیتا ہے۔ یہی حال ہر دوسرے شعبے کا ہے۔ آپ کھلاڑی کو لے لیجیئے۔ جو کھلاڑی پرچی لیکر آتا ہے، وہ چند روز چلتا ہے، پھر نقاد اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں، لیکن جو کھلاڑی دن دیکھتا ہے نہ رات، دوپہر کی پرواہ کرتا ہے نہ ڈھلتی ہوئی شام کا خیال رکھتا ہے، آندھی کی پرواہ کرتا ہے نہ کسی طوفان سے ڈرتا ہے، مسلسل میدان میں مشق کرتا رہتا ہے اور اپنے جسم کو سکت محنت کا عادی بنا لیتا ہے وہی کھلاڑی جہانگیر خان، عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم، محمد یوسف اور شہباز سینئیر بنتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔ ہم نے آج تک نہیں سوچا کہ ایک عالم، ایک لیڈر، ایک ادیب، ایک شاعر اور ایک فنکار ہمیشہ پیدائشی ہوتا ہے۔ دس عمران خانوں جیسی محنت کر کے بھی کوئی ‘اقبال‘ نہیں بن سکتا۔ درجنوں ائیرمارشل اور جنرلوں جتنی مشقت سے گزر کر بھی کوئی شخص ‘جناح‘ نہیں بن سکتا۔ بیسیوں ڈاکٹر اور انجینیئر ملکر بھی ڈاکٹر حمیداللہ نہیں بن سکتے۔ آج کے سینکڑوں ‘بینڈز‘ اکٹھے ہو کر بھی رفیع جیسا ایک گانا نہیں گا سکتے۔
کیا وجہ ہے کہ ہزار سال گزر گئے امت میں کوئی دوسرا امام احمد بن حنبل، امام شافعی، امام مالک یا امام ابوحنیفہ پیدا نہیں ہو سکا۔ ہزاروں مدرسوں سے سالانہ لاکھوں طلبا فارغ ہوتے ہیں، ان بارہ سو سالوں میں ان مدارس سے کروڑوں طالبان حق فارغ التحصیل ہوئے لیکن دنیا پھر بھی کوئی دوسرا امام نہیں دیکھ سکی اور جو بھی اس راہ پر چلتا ہے ہم راہزنوں کی طرح اسے کسی اندھیری گلی میں گھیر کر گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔ قدرت ہمیں جو بھی موتی عطا کرتی ہے ہم اسے صرف رولتے ہی نہیں بلکہ سیدھا ‘روڑی‘ کوٹنے والے کی ہتھوڑی کے آگے رکھ دیتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم امت کے زوال کا رونا روتے ہیں۔ ہم اپنی درماندگی کی اتنی سی وجہ نہیں سمجھ سکے کہ جو قومیں اور معاشرے قدرت کے عنایت کردہ موتیوں کی قدر نہیں کرتے موت ہمیشہ ان کی گھات میں رہتی ہے کسی بیرئیر کے پیچھے چھپی، کسی خودکش دھماکے کی اوٹ میں بیٹھی اور کسی کلاشنکوف کے ٹریگر پر تیار موت معاشروں کی ذرا سی غفلت کی منتظر رہتی ہیں۔


پاکستان میں بلاگسپاٹ پر پابندی کی وجہ سے اپنا ڈیرہ اردو بلاگ ذیل میں کسی ایک لنک پر کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے۔

بذریعہ پراکسی ١ ۔ بذریعہ پراکسی ٢
http://apnadera.ueuo.com/blog
http://www.inblogs.net/apnadera
http://pkblogs.com/apnadera

1 comments:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

پہلی بات
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن مين ديدہ ور پيدا

دوسری بات
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہيں بدلی
نہ ہو جس کو خيال خود اپنی حالت بدلنے کا

علمِ نافع سے دُوری نے ہماری قوم کو تباہی کے دہانے پر پہنچا ديا ہے ۔ اپنے آپ کو دانشور اور صحافی سمجھنے والے اپنے آپ کو روشن خيال اور ترقی يافہ بتانے کيلئے کھُلے عام اللہ کے احکام کی نہ صرف نفی کر رہے ہيں بلکہ ۔ نعوذباللہ من ذالک ۔ ان احکام کا مذاق اُڑا رہے ہيں اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہيں ۔

ميرے دل سے کچھ دن قبل يہ دعا نکلی ۔ يا اللہ اپنا قہر ميری قوم پر نازل کرنے سے پہلے مجھے موت دے دينا

12/14/2006 01:04:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب