26 July, 2007

اِک بات محبت کی ۔ 1

اِک بات محبت کی 1


محمد ممتاز راشد پچھلے اکتیس برس سے بسلسلہ روزگار قطر میں مقیم ہیں. 1986 میں موصوف کی غزلوں کا پہلا مجموعہ "کاوش" منظرِ عام پر آیا. نظمیں ، قطعات اور افسانے بھی لکھتے ہیں اور مزاحیہ شاعری بھی کر چکے ہیں. فی الوقت اُن کے تازہ مجموعہ کلام  "اک بات محبت کی" سے منتخب شدہ غزلیں پڑھئیے اور اپنے وقت کو پُر لطف بنائیے.


 (حصہ اول)


-----------------------------------


ملے جو غم ، تو اُس غم کو ، غمِ پیہم نہیں کرتے


کسی کی بے وفائی کا سدا ماتم نہیں کرتے


 


اندھیرے نا اُمیدی کے ، ڈراتے ہیں ، ڈرانے دو


چراغِ آرزو اپنا ،  کبھی مدھم نہیں کرتے


 


علامت رزم گاہوں میں ، یہی ہے سر بلندی کی


کسی حالت میں اپنے سرنگوں پرچم نہیں کرتے


 


عداوت کے زمانے میں ہر اک حد سے گزر جانا


ہزار ایسا کرے کوئی ، مگر یہ ہم نہیں کرتے


 


ضدیں جب حد سے بڑھ جائیں تو اکثر دِل جلاتی ہیں


ضدیں اتنی محبت میں مِرے ہمدم نہیں کرتے


 


کسی کی گرم جوشی کے قدم ہر چند رُک جائیں


مگر اپنی طرف سے پیش قدمی کم نہیں کرتے


 


نہ راس آتا ہو جب راشد کسی کا آتشیں لہجہ


تو ایسے شخص کو پیارے ، کبھی برہم نہیں کرتے


--------------------


 


بہت دھوکے دئیے ہیں تم نے مجھ کو


خود اپنے آپ سے دھوکہ نہ کرنا


 


بہت اُجلا ہے آنگن قربتوں کا


جُدائی سے اسے میلا نہ کرنا


 


بڑی خوش فہمیوں میں مبتلا ہوں


مِرے خدشات کو سچا نہ کرنا


 


تِرا بیمار ہو کر جی رہا ہوں


مجھے اب عمر بھر اچھا نہ کرنا


 


مِرا ہونا ، نہ ہونا اِک سا ہے


میں سایہ ہُوں مِرا پیچھا نہ کرنا


 


مُرادوں کی سحر آ کر رہے گی


کڑی راتیں ہیں دِل چھوٹا نہ کرنا


 


اگر دستار کی عظمت ہے پیاری


تو اپنے قد سے سر اونچا نہ کرنا


 


رواداری کی باتیں خُوب ، لیکن


کبھی غیرت پہ سمجھوتہ نہ کرنا


 


دلیری کا یہ بنیادی سبق ہے


کسی کمزور پر حملہ نہ کرنا


 


بھلا ہوتا ہو جس میں بے بسوں کا


کبھی اُس "جُرم" سے توبہ نہ کرنا


 


بلندی کا تصور مِٹ نہ جائے


کسی ظرف کو اونچا نہ کرنا


--------------------


 


آپ نے جو بھی چاہا ، جو بھی سوچا ، ہو گیا


مسئلہ تو اُن کا ہے جِن کا مقدر سو گیا


 


لُٹ گئی اِک بہارِ جاں تو کوئی غم نہیں


سوچنا یہ ہے کہاں گُلزارِ منزل کھو گیا


 


میں کسی سے مانگتا کیا اک لمحے کی ہنسی


مجھ سے جو بھی ملنے آیا ، اپنا رونا رو گیا


 


ڈس لیا ہے  دفعتاَ سائے  کی ناگن  نے اسے 


دھوپ سے گھبرا کے رستے میں جو راہی سو گیا 


 


جس کی آنکھوں نے کیا اشکِ ندامت سے وضو


در حقیقت دامنِ دِل کے وہ دھبے دھو گیا


 


بھول جاتے ہیں یہاں کا راستہ شاید سبھی


لوٹ کر واپس نہ آیا اِس جہاں سے جو گیا


 


پُوچھتے ہو مجھ سے کیا رُودادِ مرگِ آرزو


اک تماشہ تھا کہ جو ہونا تھا ، راشد ہو گیا


--------------------


 


اشک برسے تو کچھ قرار آیا


کُھل کے روئے تو کچھ قرار آیا


 


خامشی بن رہی تھی بے چینی


اُن سے اُلجھے تو کچھ قرار آیا


 


جاں بہ لب تھے اَنا کی چوٹی پر


نیچے اُترے تو کچھ قرار آیا


 


اُن کے انکار سے تھے ہم بے دم


جب وہ مانے تو کچھ قرار آیا


 


ضبط کرنے میں تھی کچھ اذیت سی


راز  اُگلے تو  کچھ  قرار  آیا


 


در بہ در تھے تو بوجھ تھا دل پر


گھر کو لوٹے تو کچھ قرار آیا


 


ہم قدم رہ کے خوش نہ تھے دونوں


رستے بدلے تو کچھ قرار آیا


 


خواب تھے یا عذاب تھے راشد


جب وہ ٹُوٹے تو کچھ قرار آیا


--------------------

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب