29 November, 2007

سویلین صدراور فوجی سربراہ

پاکستان میں برسراقتدار رہنے والے ماضی کے سویلین چیف ایگزیکٹوز کے ساتھ مختلف وجوہ کے باعث اکثر فوجی سربراہوں کے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے خیال میں بھی شاید یہی حقیقت تھی کہ انہوں نے 15نومبر کو پاکستان میں آرمی چیف کا انتہائی طاقتور عہدہ چھوڑنے کے حوالے سے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو وائس چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے کے لئے نامزد کیا۔ چونکہ وہ صدارتی انتخاب اور وردی اتارنے کے بعد پاکستان کے سویلین سربراہ بن جائیں گے اور انہیں نئے آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کے ساتھ کام کرنا پڑے گا۔ ماضی میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب نے جنرل موسیٰ خان کو آرمی چیف بنایا تھا اور انہوں نے بھی پیشہ ور فوجی کی طرح خدمات انجام دیں اور نارمل انداز میں ریٹائر ہوئے ، پاکستان کے ٹوٹنے کا عمل آرمی چیف جنرل یحیٰی خان کے دور میں ہوا اور وہ اپنے دورانیہ مکمل نہ کر سکے۔مجموعی طور پر جب ملک کے وزراء اعظم کئی سینئر جرنیلوں کو سپرسیڈ کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ آرمی چیفس کو نامزد کیا۔ جنہوں نے انہیں ہی برطرف کردیا۔ وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے جب جنرل مجید ملک (جو اب مسلم لیگ کے اہم رہنما ہیں) سمیت سینئر جرنیلوں کو نظرانداز کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف کے عہدے پر نامزد کیا تو ان کے ذہن میں ضیاء کی انکساری تھی۔ ذوالفقارعلی بھٹو کا یہ خیال تھاکہ ضیاء الحق میں نہ اتنی جرآت اور صلاحیت ہے کہ انہیں اقتدار سے ہٹاسکیں۔ تاہم اپنی تعیناتی کے کم و بیش ایک سال بعد 5جولائی 1977ء کوجنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو معزول کرکے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ یہ ہی نہیں بلکہ بعد میں زیڈ اے بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ صدر جنرل ضیاء الحق کے 17اگست 1988ء کو فضائی حادثے میں مارے جانے کے بعد اس وقت کے قائم مقام صدر غلام اسحق خان نے سب سے سینئر اور وائس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ کو آرمی چیف مقرر کیا۔ اس سے قبل کہ جنرل مرزا اسلم بیگ 1991ء میں وزیراعظم نواز شریف کے اقتدار کا خاتمہ کرتے ان کی مداخلت روکنے کے لئے جنرل آصف نواز کو آرمی چیف نامزد کر دیا گیا۔ اس طرح مرزا اسلم بیگ کو ”لیم ڈیک“ بنانے کے لئے جنرل آصف نواز کو کچھ ماہ قبل ہی آرمی چیف مقرر کر دیا گیا۔ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے بھی غلام اسحق خان پر نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے لئے دباؤ ڈالا تھا۔ جنرل آصف نواز نے بھی نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی تاہم جنوری 1993ء میں ان کے اچانک انتقال کے بعد وہ اپنی مہم میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس واقعہ کے تین ماہ بعد صدر غلام اسحق خان نے نواز شریف حکومت ختم اور قومی اسمبلی برخواست کر دی جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے بحال کر دیا۔ جنرل آصف نواز کے بعد غلام اسحق خان نے جنرل عبدالوحید کاکڑ کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کر دیا۔ حالانکہ اس وقت سب سے زیادہ سینئر جنرل فرخ کو نظرانداز کر دیا گیا۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ نے اگرچہ حکومت کے خاتمہ کی کوئی کوشش تو نہیں کی لیکن جب غلام اسحق خان اور نواز شریف میں مخاصمت پیدا ہوئی تو اس نے دونوں میں ڈیل کرائی جو ناکام ہوگئی۔ اس طرح صدر اور وزیراعظم کو اپنے اپنے عہدوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ اس واقعہ نے بے نظیر بھٹو کے لئے دوبارہ وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کی۔ 1993ء کے انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو کو فوجی ہیلی کاپٹر میں ”جنرل ہیڈ کوارٹرز“ لایا گیا جہاں ان سے ”ڈیل“ ہوئی۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ کے بعد سینئر موسٹ جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف کے عہدے پر تعینات ہوئے۔ تاہم اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے انہیں نیشنل سیکیورٹی کونسل قائم کرنے کے حوالے سے ایک بیان پر استعفیٰ دینے کو کہا۔ بعد ازاں 6 اکتوبر1998ء میں نواز شریف نے سپرسیڈ کرتے ہوئے پرویز مشرف کو آرمی چیف مقرر کیا۔ اس تقری کے بعد نواز شریف کا یہ خیال تھا کہ وہ اب امن و سکون سے حکومت کریں گے تاہم ان کا خیال غلط ثابت ہوا اور جنرل پرویز مشرف نے ایک سال بعد قومی اسمبلی برخواست اور نواز شریف کی حکومت ختم کردی۔ بعد میں نواز شریف اپنے ہی چنے ہوئے آرمی چیف کی طرف سے سزا سے بچنے کے لئے سعودی عرب جلا وطن ہوگئے۔ 70ء کی دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹو نے مشکوک انداز میں جنرل گل حسن کو ہٹاکر جنرل ٹکا خان کو آرمی چیف تعینات کر دیا۔


بشکریہ روزنامہ جنگ

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب