اندھا اعتماد
سب سے مشکل کام اعتبار کرنا ہے اور سب سے آسان کام بھی اعتبار کرنا ہی ہے۔ اعتبار جیتنے کے لئے ہم اندھے اعتبار کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اندھا اعتبار الفاظ نہیں مانگتا بلکہ کچھ نہیں مانگتا۔ اندھا اعتبار اندھا قانون نہیں ہوتا، اندھا اعتبار دِل کی آنکھ سے ہوتا ہے۔ اعتماد احترام قائم رکھتا ہے یہی سے اعتبار کا آغاز ہوتا ہے۔ قابلِ بھروسہ کامل اعتبار سے ہوتا ہے۔رشتہ اعتماد سے ہوتا ہے، اعتماد رشتہ سے نہیں۔ اعتماد کے لئے رشتے بنائے جاتے ہیں، ادھور ے رشتے مکمل رشتوں پر ہم اعتماد رکھتے ہی نہیں۔ ادھوری بات کے ادھیڑے رشتے، اُدھڑی سوچ کا ادھورا اعتماد ہی ہوتا ہے۔ بےاعتمادی کی فضا سے اعتماد کیا ہوتا ہے؟ بس یہ بے اعتنائی سے شروع کیا گیا بےاعتباری سے بےاعتمادی تک کا سفر ادھورا اعتماد ہوتا ہے۔ جو انسان کو اُدھیڑ کر اَدھورا بناتا ہے۔ دھیرے دھیرے اَڈیٹھ کے یہ اَدِھشٹَان انسان کو اَدویگ کر چھوڑتے ہیں۔ دُھت انسان دَھت ہو جاتا ہے۔ بس یہ ڈھیر انسان کو دھر لیتے ہیں۔ یہ سلسلے دھرائے جا رہے ہیں۔ ان سلسلوں کا شکار اَدھاری (ادھرو) لوگ دُھر، دُھر ہی ہوا کرتے ہیں۔ ہم سے اعتماد کے نام پر اعتماد چھین لیا گیا ہے۔ دِھیر سے اَدِھیر ہوگئے۔
جن رشتوں پر بھروسا ہی نہ ہو، وُہ رشتے رشتے نہیں رہا کرتے۔ شوہر اور بیوی کا ایک رشتہ ہے، اعتماد کا اگر اعتبار ہے تو رشتہ کا حسن قائم ہے۔ اعتماد نہ ہو تو وُہ شکستہ رشتہ دِقت زندگی کی علامت ہے۔ اَدبُھت یہ ہے کہ دوست دوست پہ اعتماد نہیں کرتا، بھائی بھائی سےنفرت کر رہا ہے۔
اعتماد کا رشتہ ہم مزاجوں میں قائم ہوا کرتا ہے۔ غیر مزاج غیر ہی ہوا کرتے ہیں۔ گھروں میں جب مزاج یکساں نہ رہے تو فاصلے اندر ہی اندر پیدا ہو جایا کرتے ہیں۔ بھائی بھائی کو اس لیئے تسلیم نہیں کرتا کہ وُہ غیر مزاج ہوگئے ہیں۔
افسوس صد ہا افسوس زمانے کی رفتار کےنام پر مادیت نے ہمیں کس قدر تنہا چھوڑ ڈالا ہے کہ ہمارے وجود کا رشتہ جو اعتماد سے موجود تھا وُہ بھی باقی نہیں رہا۔ شک انسان کی صلاحیتوں کو ناسور کی طرح کھا جاتا ہے۔ شکی مزاج انسان متلون مزاجی کے ساتھ ساتھ ایک ذہنی مریض کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔
ہم ہر روز اپنی الجھنوں میں رہتے ہوئے کسی نہ کسی پر اعتماد کرتے ہیں، آدھا اعتماد ...........۔ ہم مجبور ہوتے ہیں؛ ہم سائل بنتے ہیں۔ ہم سخی کے بھیس میں چھپے بخیل، سائل، کاذب لوگوں کے پاس سوال لےکر جاتے ہیں۔ تو کوئی اپنا عذر بیان کر کے، تو کوئی ٹال کر انکار کرتا ہے، چند تو ٹامک ٹوئیاں دِکھا کر ہمارے دِل توڑتے ہیں۔ جو خود مزاجاً سوال کرنے والا ہو، اُس سے کیا سوال کیا جائے۔ جسکے پاس خود کوئی حل نہیں وُہ دوسروں کا کیا حال احوال جانے۔ بات تو اقرار سے قرار تک کی ہوتی ہے۔ یہاں سے ہی ہم انسان کی فطرت اور مزاج کو جانتے ہیں۔ ہم ظاہری بھیس پر نظر تو رکھتے ہیں۔ انسان میں چھپی خصوصیات پر نظر نہیں رکھتے۔ ہم لوگوں کے اندر جھانکنا شروع کر دیں تو ہم لوگوں پر اعتمار کرنا سیکھ جائےگے۔ مگر پہلے خود ہمیں اپنےاندر جھانک لینے کی ضرورت ہے۔ پھر دوسروں میں جھانکیئے۔ میری نیت صاف ہے تو دوسرے کی نیت بھی صاف ہو جائےگی۔ اپنی صفائی کیجیئے دوسرے کے دِل کی صفائی، آپکے دِل کی صفائی سے ہو جائےگی۔ یہ سب خلوص سے ہوتا ہے۔ خلوص اعتماد سے ہوتا ہے۔ اور اعتماد قائم بھی رکھتا ہے۔
کچھ لوگ سانگ لگاتے ہیں تو کچھ سانگوں میں رہتے ہوئے ہمیشہ کے لیئے سنگ کا رنگ بنتے ہیں۔ بڑے ہی نصیب کی بات ہے۔
کچھ لوگ اکثر ہمارے ساتھ جھوٹ بول جاتے ہیں۔ مگر ہم اُنکے جھوٹ کو جھوٹ جانتے ہوئے بھی اعتماد کرتے ہیں۔ ہمارے لیئے اُنکا جھوٹ بھی سچ ہے اور سچ بھی سچ ہے۔ جھوٹ اُن سے بولا جاتا ہے، جن پہ اعتماد نہ ہو۔ جو تعلق ہمیشہ کے لیئے قائم کیا جا رہا ہو۔ اُس میں کوئی جھوٹ بول لے، فریب کر لے، آخر جب اُس کو اِک دِن آخری اُمید کی کرن کے واسطے واپس لوٹنا ہے تو وُہ واپسی دِل کےدُکھ کے ساتھ، سچائی سے بھرپور ہوگی۔ نہ صرف سچائی کی حقیقت، خلوص کی تاثیر بھی موجود ہوگی۔ اُس روز اعتماد ہوگا اندھا اعتماد، آدھا اعتماد نہیں۔ تمام سابقہ جھوٹ ایک بڑے سچ کے سامنے بےمعنی ہو جائیں گے۔ لوگ فریب دے لیں تو بھی غرض نہیں۔ آخر اِک دن جب اعتبار کی ضرورت ہوگی۔ تو وُہ اعتماد کا درجہ اُنھی کو حاصل ہوگا جو اُنکےساتھ مخلص ہوں گے جبکہ اُن مخلصین کےساتھ بیشمار جھوٹ بولے گئے ہونگے۔ پھر بھی وُہ نہ صرف آپکو معاف کریں گے، بلکہ آپ کےساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ بھی کریں گے اور آپ پر ہمیشہ کی طرح کوئی نہ کوئی احسان بھی کر ڈالیں گے۔
کچھ لوگ ہم پہ اتنا اعتماد کرتے ہیں۔ کہ وُہ ہم پہ اپنی جان نچھاور کرتے ہیں، چند ساتھی تو ایسے ہوتے ہیں۔ جن کی بات ہم پہ اثر رکھتی ہے۔ کہنے والا اظہار کرتا ہے اور ہم سےانکار نہیں ہو پاتا۔ بلکہ ہم میں تو بات ٹال دینے کی سکت ہی نہیں ہوتی۔ ہم یہی جانتے ہیں کہ کہنے والا ہر حال ہمارا بھلا ہی چاہتا ہے۔ یہی سلسلہ چلتے چلتے اندھا اعتماد بنتا ہے۔ دُنیا کے نزدیک یہ اندھا اعتماد ہوتا ہے، دِل کا یہ رشتہ حقیقی اعتبار بنتا ہے۔
دراصل اندھا اعتماد ادھورا بنا دیتا ہے۔ جب ایسے قابل اعتماد لوگ دُنیا سے رُخصت ہو جاتے ہیں تو ہم خود کو تنہائی میں ادھورا محسوس کرتے ہیں۔ مشکلات در مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اسی دور میں ہمارے اس ہم نواء کی گفتگو ہماری رہنما بنےگی۔ یہ محبت کی اِک نئی حسین داستان بن جائےگی۔ جو ہو سکتا ہے کہ کیفیت تک محدود رہے۔ یہی کیفیات ہماری زندگی کی مشکلات میں حل کشا ہوں گی۔ ہمیں صبر عطاء کریں گی۔ بلکہ ان کی وفات اور ہماری وفات کےدرمیان صبرو برداشت کا اِک کٹھن مرحلہ ہوگا۔ ہمیں برداشت کا درس دینے والے بعد میں ہمیں برداشت کا پریکٹیکل کروا جاتے ہیں۔ برداشت کے اس سارے سلسلے کا نام اندھا اعتماد ہے۔
جو خود کسی پر اعتماد نہیں کرتا اُسکا بھی کوئی اعتبار نہیں کرتا ۔ہمیں اعتماد کے لیئے کسی کی تلاش کی ضرورت نہیں ۔اللہ پر بھروسہ کیجئیے، آپکو اعتماد کرنے والے ملنے لگیں گے۔ بھانڈوں پہ اعتماد کرنے والوں کے بھانڈے ہی پھوٹا کرتے ہیں۔ جس میں جذب کی کیفیت نہیں وُہ راز کا راز داں نہیں ہو سکتا۔ دوست ہمیں عمر بھر برداشت کرتا ہے۔ وُہ اسی باعث عمر بھر ہمارا رازداں بھی رہتا ہے۔
اعتماد صرف برداشت کرلینا نہیں، قول و اقرار کا ہر حال تکمیل کی منزل تک پہنچنا بھی ہے۔ قابل اعتماد شخص commited بھی ہوتا ہے۔ وُہ ہر حال اپنے قول کو نبھاتا ہے۔ محبت دِل سے، اعتماد دِل سے اور اللہ پر یقین بھی دِل سے ہوتا ہے۔
کچھ لوگ ہر اِک پر اعتماد کرتے ہیں مگر لوگ ٹھیس پہنچا دیتے ہیں۔ چند افراد ایسے بھی ہیں جو بہت سوں پہ اپنا اعتماد قائم رکھتے ہیں۔ دوسروں پر سے بھروسہ اُٹھ جانے پر بھی اُنکی ذات پر اعتماد کا بھرم قائم رکھتے ہیں۔ وُہ دوسروں پر اپنی ذات کا اعتماد ہر حال قائم رکھتے ہیں۔ وُہ رشتوں کو اعتماد کی ڈوری سے پروتے ہیں۔
کفار مکہ اپنے وعدوں سے پھر جاتے تھے۔ مگر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر وُہ ہمیشہ اعتماد قائم رکھتے تھے۔ بطور مسلمان قوم ہمیں یہ دیکھنا چاہیے۔ ہم رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل پر کتنا پورا اُترتے ہیں۔ ہم دوسروں پر اعتماد کریں یا نہ کریں۔ کم از کم ہمارے اقرباء ہماری ذات پر اعتماد رکھتے ہوں۔ یہی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ایک عملی عمل کا معمولی سا قدم ہے۔
ہم بازاروں میں، دفاتر میں، مذہب کے نام پر اعتماد کروا کر اپنا اعتماد رکھتے ہیں۔ حدیث شریف دُکانوں پر آویزاں کر کے ”ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں“ پھر ملاوٹ کرتے ہیں۔ اپنا اعتماد ہم کس طرح کھوتے ہیں۔ قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی گواہی دے دینا ہمارے معمول کے عمل بن چکے ہیں۔ قوم کا مزاج بنتے جا رہے ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں۔ اُسکے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں۔ تو کیا یہ عمل ہمارے ایمان کے عمل کے شایان شان ہے۔ ذرا سوچئیے، غور کیجیئے یہ ہم روزمرہ میں کیا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ رسی کی ڈھیل تو ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم پہ اللہ کی لعنت پڑ جائے۔
جب اعتماد نہ ہو تو پھر بےسمتوں میں بےسمتی سے بے بسی کے سفر ہوا کرتے ہیں۔ زندگی اجیرن ہو جایا کرتی ہے۔ زندگی کا حسن اعتماد سے ہے۔
(فرخ نور)
معنی الفاظ:
اجیرن: وُہ کام جس سےطبیعت اُکتا جائے
ادھیر: بے ہمت
دَھت: خراب حالت، عیب، لت
اَدبُھت:: تعجب، حیرت
اڈیٹھ: (انفی) جو نظر نہ آئے
دُھت: مخمور، نشےمیں چور
اَدویگ: پریشانی،گھبراہٹ
دھیر: مستقل مزاج
ادھاری: (اَنفی) وُہ شخص جسکی زندگی صرف دودھ پر ہو
بےاعتنائی: پرواہ نہ کرنا، ہمدردی نہ کرنا
سانگ: بھیس یا روپ بدل کر تماشا کرنا، رسوا کرنا
اَدِھشٹَان: اعتبار، بھروسا، تکیہ
بھانڈ: Joker، دوسروں کی برائی بیان کرنے والا، جھوٹی تعریف کرنے والا۔
کاذب: جھوٹا
ادھرو: ڈاواں ڈول، Un-stable
ٹامک ٹوئیاں: اندازے سےکام کرنا
متلون مزاجی: Confuse decision personality
5 comments:
یہ اتنی محنت آپ نے خود کی ہے؟
7/03/2008 08:26:00 PMتزک نگار's last blog post..Download Agatha Christie Books
سلام ، مجھے آپکی یہ تحریر بہت اچھی لگی ہے اندھا اعتماد :neutral:
7/04/2008 11:20:00 AMبلکل ایسے ہی ہوتا ہے ، میں اتفاق کرتی ہوں ایسا ہی ہے سب ،
آپ نے اچھا لکھا ، تو آج پہلی بار اس تحریر کو پڑھکر تبصرہ کرنے کو دل چاہا ہے ۔
جی ہاں میں نے ہی اتنی کوشش کی۔
7/05/2008 09:29:00 PMشکریہ باجو ۔۔۔ یہ میری اور فرخ کی خوش قسمتی ہے کہ آپ یہاں تشریف لائیں۔ آپ کے الفاظ ہمارے لئے کسی سرمایے سے کم نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار پھر بیحد شکریہ
7/06/2008 01:53:00 AMبوچھی باجی ؔپکا بہت شکریہ اچھے الفاظ سے میری حوصلہ افزائی کرنے کا۔ بلکہ مجھے گزشتہ برس کے کچھ افراد یاد ؔن پڑے جب اُنھوں نے ؔپ والے الفاظ استعمال کیئے۔ یہ ایسے الفاظ ہے جو کسی بھی انسان کو بہتر سے بہتر کی طرھ لیجاتے ہیں۔ یوں صلاحیت مثبت سمت میں جاتے ہوئے نکھار حاصل کرتی ہے۔ ہاں قدرتی کے لفظ جو ؔپ نے کہاں اصل میں ساری کشش میرے ؔرٹیکلز کی یہی ہوتی ہے۔ کہ قدرتی رنگ میں جیو اور قدرتی انداز کو اپناءو تو سب اچھا رہے گا۔ اُلجھنے کم سے کم تر رہے گی۔ ؔپکا بہت بہت شکریہ۔
7/07/2008 10:09:00 PMمیں نہیں جانتا ؔپ کون ہو۔ منیر صاحب کے الفاظ سے لگتا ہے ؔپ کوئی قابل احترام شخصیت ہو۔ تو ؔپ کا رائے دینا ہی میرے لیئے باعث افتخار ہے۔
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔