15 August, 2008

١٤ اگست ۔ غلام قوم کا آزاد دن

سال کے ٣٦٥ دنوں میں سے ہمیں آج ہی کے دن یعنی ١٤ اگست کو ہی اپنی آزادی کا احساس ہوتا ہے ورنہ تو باقی ٣٦٤ دنوں میں ہم غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ آج کا پاکستان ایک آزاد ملک ہے۔ جس کا اپنا جھنڈا، اپنا سکہ، اپنا دستور اور اپنا آئین ہے۔ کسی قوم پر اس سے بڑھ کر اللہ کا انعام اور کیا ہو سکتا ہے مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اپنا ملک ہونے کے باوجود بھی ہم غلاموں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بیشک ہمارا ایک مضبوط آئین ہے، مضبوط قانون ہے مگر یہ صرف لفظوں اور موٹی موٹی کتابوں تک محدود ہے نہ تو آئین پر عمل کیا جاتا ہے اور نہ ہی قانون کی پروا کی جاتی ہے۔
پاکستان میں نظام بدلنے کی بات تو ہمیشہ کی جاتی ہے مگر چہروں کے علاوہ بدلتا کچھ نہیں۔ بڑا آدمی ہمیشہ فرشتہ اور غریب یہاں مجرم کی سی حیثیت رکھتا ہے، شریفوں کی ایک لمبی لائن کے باجود آجکل میں شرف وہی جس کا بس نہیں چلتا۔
ملک میں انصاف نام کی کوئی شئے موجود نہیں، نوکری چاہیے تو ایم این اے کے پاس جاؤ، سکول میں داخلے کے لئے ایم پی اے کام آئے گا، سرکاری ملازمتیں بند مگر وزیراعظم اور وزیراعلٰی سیکرٹریٹ دھڑا دھڑ نئی تقریاں کر رہے ہیں۔ بے روزگاری، غربت، مہنگائی، فیکڑیاں بند، صنعتیں تباہ، سٹاک ایکسچینج کا لیول مسلسل نیچے کی طرف، پیسہ غیر ملک منتقل، سوات و بلوچستان آپریشن، خود کش حملے، افغانستان جیسے ملک کی طرف سے دھمکی آمیز بیانات جبکہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہمارے لیڈر آپش میں گتھم گتھا ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لئے سیاسی قلابازیاں کھائی جا رہی ہیں، نئے رہمنائے اصول مرتب کئے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں کبھی ذہن بدلنے کی بات نہیں سوچی گئی یہاں اگر کچھ بدلتا ہے تو وہ ہیں صرف حکمرانوں کے چہرے جو ہر چند سال بعد تبدیل ہو جاتے ہیں، نہ ہوں تو کرا دیئے جاتے ہیں۔ کچھ دن یونہی چلتا ہے پھر حوالے بدلتے ہیں کل کے محب وطن غدار اور غدار حب الوطنی کے علمبردار بن کر سامنے آتے ہیں۔
اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو یوں لگتا ہے کہ وہ تبدیلی، وہ انقلاب، وہ انصاف شاید کبھی نہیں آئے گا جس کی آرزو میں ہم سالہا سال سے ہر نئی پارٹی، ہر نئے لیڈر، ہر نئے نعرے اور ہر نئے نظریے کی طرف دیکھتے ہیں، خوش ہوتے ہیں کہ شاید اب شام غم ڈھلنے کو ہے نئی صبح طلوع ہونے کو ہے مگر تسلیوں، دلاسوں، امیدوں اور آسروں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ وہی برطانوں جمہوریت، الیکشن، سیاسی انارکی، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ، ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں، ایل ایف او، پی سی او، ایمرجنسی، کسی کا سوشلزم، کسی کا اسلام، کسی کے وعدے، کسی کے دلاسے، معاشی خوشحالی کے دعوے، کشکول توڑنے کی باتیں، لوٹ مار کے قصے، کھوکھلے نعرے ۔۔۔ کون سی تبدیلی اور کون سا انقلاب۔ جب سے ہوش سنبھالا یہی سنا کہ ہر رات کی ایک سویر ہے، اندھیرے کے بعد اجالا ضرور آتا ہے مگر سمجھ نہیں آتی یہ کیسی رات ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔
اگر اس کالی رات کی آخیر کرنی ہے، اسے ختم کرنا ہے، روشنی کی طرف سفر کرنا ہے، اس ملک کو خوشحال بنانا ہے تو ہمیں اس نظام کو بدلنا ہو گا۔ آئین اور قانون کی پاسداری کرنا ہو گی یہ تب ہی ممکن ہے جب قانون کی نظر میں امیر غریب کا فرق ختم ہو گا۔ قانون سب کے لئے برابر ہو پھر دیکھئے ملک میں خوشحالی کا آغاز کیسے نہیں ہوتا۔
کچھ کالی بھیڑیں ہیں جو صرف اپنے مفاد کی خاطر اس ملک کو کھوکھلا کر رہی ہیں ہمیں ان کو بے نقاب کرنا ہو گا۔ چپ رہنے سے خوموشیاں ختم نہیں ہوں گی، یہ بے حسی کی زنجیریں نہیں ٹوٹیں گی اور اس نظام کو بدلنے کے لئے آسمان سے فرشتے نہیں آئیں گے ہمیں خود ہی ہاتھ پاؤں مارنا ہوں گے۔
کاش! ہر فرد کے دل میں اپنے وطن کے لئے محبت پیدا ہو جائے اور بیرون ملک رہنے والے پاکستانی یہ کہہ اٹھیں کہ


پہلے میری سوہنی دھرتی کا افسانہ سنا
پھر ستاروں، آسمانوں، جنتوں کی بات کر

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ وطن عزیز کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دے اور یہ ہمیشہ قائم و دائم رہے اور اس ملک میں رہنے والے ہر فرد کے دل میں اس کی محبت پیدا ہو جائے اور ہمارے حکمرانوں کی ہمت  اور طاقت دے کہ وہ ہمیں غلامی کے اس گھٹاٹوپ اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئیں اور ہمیں صرف ایک دن نہین سال کے ٣٦٥ دنوں میں اپنی آزادی کا احساس ہو اور پھر ہر پاکستانی پکار اٹھے


 


جشن آزادی مبارک

 


 


 


نوٹ۔ قارئین سے انتہائی معذرت کہ وقت کی کمی کے باعث اسے مختصر کر کے جلدی ختم کرنا پڑا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب