المیہ مشرقی پاکستان اور زبان کا مسئلہ ۔ ایک جائزہ
١٩٥٢ء میں جب مرکزی حکومت نے بنگلہ زبان کے لئے عربی رسم الخط اختیار کرنے کی کوشش کی تو لسانی مسئلہ پھر سے کھڑا ہو گیا پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین خود بنگالی تھے انہوں نے اردو کو قومی زبان بنانے کی تصدیق کی۔ خواجہ ناظم الدین کے اس اعلان سے حالات مزید بگڑ گئے اور مشرقی پاکستان میں ہنگامے شروع ہو گئے۔ لسانی تحریک اس قدر پرتشدد تھی کہ مرکز اور صوبے میں تصادم کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ اگر اس وقت ملک میں کوئی صیحح عوامی نمائندہ حکومت ہوتی تو حالات بہتر ہو سکتے تھے۔ دوسری طرف مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی نے متفقہ طور پر بنگلہ کو قومی زبان تسلیم کرنے کی قرارداد منظور کی لیکن مرکزی حکومت نے معاملے کو سلجھانے کی بجائے طول دینے کی پالیسی اختیار کی۔ بنگالیوں نے اسے مغربی پاکستان کی طرف سے اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش قرار دیا اور اپنے مطالبے کے لئے فروری ١٩٥٢ء میں مشرقی پاکستان میں ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ٢١ فروری کو پولیس کے ہاتھوں دو طالب علم ہلاک ہو گئے امن و امان کی نازک صورتحال کے باعث فوج طلب کرنا پڑی۔ اس تحریک نے گہرے اثرات چھوڑے اور اس میں ہلاک ہونے والوں کو بنگالی تحریک کے اولین شہداء کا خطاب دیا گیا۔ فسادات کو روکنے کے لئے جلسہ، جلوسوں اور پانچ سے زائد افراد کے اکٹھا ہونے پر پابندی لگا دی گئی۔مئی ١٩٥٩ء کے انتخابات میں جو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوئے یونائٹیڈ فرنٹ نے ٢٣٧ میں سے ٢٢٣ نشتیں جیت کر مسلم لیگ کو زبردست شکست دی۔ مسلم لیگ کو صرف دس نشتوں سے کامیابی حاصل ہو سکی۔ یونائٹیڈ فرنٹ علاقائی اور صوبائی سیاسی قوتوں کا اتحاد تھا جس میں عوامی لیگ، کرسک سرامک پارٹی، نظام اسلام پارٹی، گاناتانتری عادل شامل تھیں۔ فرنٹ سے ٢١ نکات پر مبنی ‘منشور آزادی‘ کی بنیاد پر انتخاب میں حصہ لیا۔ منشور کی بنیاد ہی صوبائی عصیبت اور مرکز خلاف سرگرمیوں کو فروغ دے کر خود مختاری حاصل کرنا تھی۔ اس اتحاد کے رہنما حسین شہید سہروردی اور اے کے فضل الحق تھے۔ سہروردی تقسیم ہند سے قبل مسلم لیگ بنگال کے صدر رہ چکے تھے۔ اور ان سے دس سال قبل اے کے فضل الحق مسلم لیگ کے صدر تھے۔ فرنٹ نے اپنے منشور میں کہا تھا ‘درس و تدریس کے لئے مشرقی زبان بنگالی کو نصاب کا لازمی جزو بنا جائے‘ انتخاب کے بعد صوبے میں صنعتی بدامنی بلوؤں مظاہروں اور قتل و غارت کا آغاز ہو گیا صوبے میں کئی مقامات پر بنگالیوں کے درمیان خوفناک تصادم ہوئے جن میں متعدد افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔
١٩٥٦ء کے آئین نے بھی دونوں حصوں کو قریب لانے کی بجائے ان میں دوریاں پیدا کیں۔ مشرقی پاکستان کی پارٹیاں مخلوط طریقہ انتخاب کے حق میں اور ون یونٹ کی تشکیل کے خلاف تھیں۔
جنرل محمد ایوب خان کے دور مین بنگالیوں کے احساس محرومی اضافہ ہوا، فوج میں ان کی تعداد پہلے ہی بہت کم تھی۔ فوج کے لئے ان کے جذبات مغربی پاکستان کے عوام سے مختلف تھے۔
١٩٦٢ء کا آئین بھی بنگالیوں کو مطمئین نہیں کر سکا۔ لسانی بنیادوں پر پیدا ہونے والے اختلافات بڑھتے چلے گئے اور ان اختلاف کا دائرہ زندگی کے تمام شعبوں میں پھیل گیا۔ ایوب خان کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مشرقی پاکستان میں نوجوان طبقہ تحریک میں آگے آگے تھا۔ پرتشدد مظاہروں اور جھڑپوں میں کئی نوجوان ہلاک اور زخمی ہوئے اور سینکڑوں گرفتار ہوئے۔ ایوب خان کے آخری دنوں میں اور یحییٰ خان کے دور میں مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا وہ ہماری تاریخ کا تلخ باب ہے جس کا انجام مشرقی پاکستان کی علحیدگی کی صورت میں ہوا۔ مشرقی پاکستان میں زبان کے مسئلے پر اختلافات آزادی کے فوراََ بعد شروع ہوئے تھے اگر اس مسئلے کو طاقت اور محلاتی سازشوں کے ذریعے حل کرنے کی بجائے سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی تو شاید پاکستان آج آدھا نہ ہوتا، ہم مکمل قوم ہوتے۔
حصہ اول کے لئے یہاں کلک کریں۔
۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔
1 comments:
ہر ناکامی اوت تباہی کا ذمہ دار ایک ہی نام
12/18/2008 03:02:00 AMجنرل ، جنرل ، جنرل
آج بھی نام لے کر طلب کریں
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔