11 January, 2009

ممبئی حملے، ثبوت اور پاکستانی شہری


کچھ دن پہلے ممبئی حملوں کے ثبوت جو بھارت نے امریکہ کے ذریعے پاکستان کو فراہم کئے ہیں کے بارے میں بھارت کا کہنا ہے کہ یہ ناقابلِ تردید ثبوت ہیں اور پاکستان ان ثبوتوں کو جھٹلا نہیں سکتا۔ ان ثبوتوں کے بارے میں اگر بات کی جائے تو دفترِ خارجہ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ان میں ممبئی حملوں کے دوران بنائی گئی وڈیو ریکارڈنگز، دہشت گردوں کی میڈیا کیمروں سے لی گئی تصاویر اور وہ نیٹ کالز کے نمبرز شامل ہیں۔ معلومات کے مطابق ان میں سے ایک نمبر امریکہ کا ہے اور دوسرا نمبر آسٹریا کا (واقعی ناقابل تردید ثبوت ہیں، تردید کی ضرورت ہی نہیں)۔ ممبئی حملوں حملے میں استعمال کیا گیا اسلحہ جس کا تعلق ایک ایسی پاکستانی آرڈیننس فیکٹری سے جوڑا جا رہا ہے جو پاکستان ہے ہی نہیں (ہے نا مزے کی بات)  سب کو معلوم ہے کہ پاکستان چھوٹے ہتھیاروں کا ایکسپورٹر ہے جسے وہ بہت سے ممالک کو فراہم کرتا ہے اور ویسے بھی کیا بھارت کے پاس پاکستانی اسلحہ نہیں ہو سکتا؟ اس طرح کا اسلحہ جس پر میڈ ان انڈیا لکھا ہوا ہے ہمارے پاس بھی بہت ہے ہم چاہیں تو ان کے سیریل نمبر بھارت تو دے سکتے ہیں تو کیا اس بنا پر بھارت کو دہشت گرد ملک تسلیم کر لیا جائے گا (کیا بچگانہ ثبوت ہیں، بھارت میں ذہن سے نہیں سوچا جاتا شاید اس لئے ان احمقانہ ثبوتوں کو ناقابل تردید کہا جا رہا ہے)۔ اس کے علاوہ جن چھے لوگوں کا تعلق پاکستان سے جوڑا گیا ہے ان  بے چاروں کے چہرے  یا پھر ان کی تصاویر اس قدر مسخ کر کے بنائی گئی ہیں جنہیں کوئی پہچان ہی نہیں سکتا کہ دراصل یہ ہیں کون۔ اس کے علاوہ  آٹا، میڈی کیم ٹوتھ پیسٹ، ٹچ می کریم اور اسی طرح کی دوسری چیزیں جنہیں بطور ثبوت پیش کیا گیا ہے (اب بندہ پوچھے کہ یہ وہاں دہشت گردی کرنے گئے تھے یا پکنک منانے اور ساتھ میں رنگ گورا کرنے والی ٹچ می کریم ۔۔۔ سبحان اللہ) باقی تو خیر مگر ان دہشت گردوں کو اپنے ساتھ کراچی آٹا لیکر جانے کی کیا ضرورت تھی۔ شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ بیچارے بھارت کے پاس پہلے سے یہ سب چیزیں موجود ہیں یا پھر وہ بھارت کے آٹا خوار نہیں بننا چاہتے تھے یا پھر بھارت میں پاکستانی اشیاء کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ بھارت اس لئے بھی پاکستان کے ساتھ تجارت کے ڈھونگ رچاتا رہتا ہے کہ تجارت کے تحت آئی ہوئی ان اشیاء کو ہر دہشت گردی کے بعد بطور ثبوت پیش کر سکے۔
اس سارے واقعہ میں واحد زندہ مبینہ پاکستانی دہشت گرد اجمل قصاب کا ہندی میں لکھا ہوا خط (یہ ہندی اُس نے کہاں سے سکیھی، میرے خیال میں تو اسے ٹھیک طرح سے اردو نہیں آتی ہو گی)  کا اعترافی بیان جس کی قانونی حیثیت ہی مشکوک ہے۔ اس کے علاوہ ڈی این اے رپورٹ جو پکار پکار کے بھارت والوں کو کہہ رہی ہے کہ یہ پاکستانی خون ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اجمل قصاب پاکستانی ہے مگر بھارت یہ کیوں چھپا رہا ہے کہ اجمل قصاب کو کب، کیسے اور کہاں سے اغوا کر کے اس بھونڈے ڈرامے کا اہم کردار بنایا گیا ہے۔ بھارت اصل صورتحال سب کچھ واضح کرے پھر ہی بات آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔ پاکستانی حکومت بھی اب آئیں بائیں شائیں بہت کر چکی، اب بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کو دو ٹوک جواب دے اور دنیا پر واضح کرے کہ اجمل قصاب کو کب اور کہاں سے اغوا کیا گیا ہے جس کا ریکارڈ وہاں کی عدلیہ میں موجود ہے۔
دنیا کا کوئی بھی ملک ہو وہ اپنی شہری کو پہنچنے والی گزند پر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے، پاکستان پر یہ سارا نزلہ صرف اس لئے گرا ہے کہ کوئی بھی پاکستانی حکومت اپنے شہریوں کا تحفظ نہیں کرتی۔ اگر اجمل قصاب کے اغوا کے وقت ہی شور مچایا جاتا تو یہ سب بکھیڑا کھڑا ہی نہ ہوتا۔ حکومتیں ہی اپنے شہریوں کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہیں جب شہریوں کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اللہ حافظ ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب