16 August, 2010

بیٹیاں

تپتی زمیں پر آنسوؤں کے پیار کی صورت ہوتی ہیں

چاہتوں کی صورت ہوتی ہیں

بیٹیاں خوبصورت ہوتی ہیں

دل کے زخم مٹانے کو

آنگن میں اتری بوندوں کی طرح ہوتی ہیں

بیٹیاں پھولوں کی طرح ہوتی ہیں

نامہرباں دھوپ میں سایہ دیتی

نرم ہتھیلیوں کی طرح ہوتی ہیں

بیٹیاں تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں

چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں

تنہا اداس سفر میں رنگ بھرتی

رداؤں جیسی ہوتی ہیں

بیٹیاں چھاؤں جیسی ہوتی ہیں

کبھی بلا سکیں، کبھی چھپا سکیں

بیٹیاں اَن کہی صداؤں جیسی ہوتی ہیں

کبھی جھکا سکیں، کبھی مٹا سکیں

بیٹیاں اناؤں جیسی ہوتی ہیں

کبھی ہنسا سکیں، کبھی رلا سکیں

کبھی سنوار سکیں، کبھی اجاڑ سکیں

بیٹیاں تو تعبیر مانگتی دعاؤں جیسی ہوتی ہیں

حد سے مہرباں، بیان سے اچھی

بیٹیاں وفاؤں جیسی ہوتی ہیں


.........


پھول جب شاخ سے کٹتا ہے بکھر جاتا ہے
پتّیاں سوکھتی ہیں ٹوٹ کے اُڑ جاتی ہیں
بیٹیاں پھول ہیں
ماں باپ کی شاخوں پہ جنم لیتی ہیں
ماں کی آنکھوں کی چمک بنتی ہیں
باپ کے دل کا سکوں ہوتی ہیں
گھر کو جنت بنا دیتی ہیں
ہر قدم پیار بچھا دیتی ہیں
جب بچھڑنے کی گھڑی آتی ہے
غم کے رنگوں میں خوشی آتی ہے
ایک گھر میں تو اُترتی ہے اداسی لیکن
دوسرے گھر کے سنورنے کا یقیں ہوتا ہے
بیٹیاں پھول ہیں
ایک شاخ سے کٹتی ہیں مگر
سوکھتی ہیں نہ کبھی ٹوٹتی ہیں
ایک نئی شاخ پہ کچھ اور نئے پھول کھِلا دیتی ہیں۔۔۔۔

محمود شام

بلاگر حلقہ احباب