خواجہ سلیمان تونسوی
برصضیر پاک و ہند میں بارہویں صدی کے آخر میں حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی کی صورت میں ایک عظیم مصلح اور روحانی پیشوا پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق سلسلہ عالیہ چشتیہ سے تھا۔ہندوستان، پاکستان اور افغانستان میں سینکڑوں مشائخ آپ کو اپنا روحانی مورث تسلیم کرتے ہیں۔ آپ کی رشدوہدایت سے برصضیر پاک و ہند کا کونہ کونہ منور ہوا، برصضیر سے باہر افغانستان، وسط ایشیا، ایران، عراق، شام اور حجازمقدس تک آپ کا فیض پہنچا۔ولادت و خاندان ۔
آپ کا نام محمد سلیمان ہے لوگ آپ کو "پیرپٹھان" کے نام سے پکارتے ہیں۔ آپ کے والد کا اسم مبارک زکریا بن عبدالواہاب اور والدہ کا نام بی بی ذلیخا ہے۔ آپ کے والد علم و فضل میں یکتا تھے۔ آپکی ولادت 1183ھ، 1769ء کو ضلع لورالائی کے گاؤں گڑگوجی میں ہوئی۔
تعلیم و تربیت ۔
آپ نے علم دینی کی تعلیم گڑگوجی، تونسہ شریف، کوٹ مٹھن اور مہار شریف میں حاصل کی اور علوم باطنی کے لئے خواجہ نور محمد مہاروی (چشتیاں) کے دست مبارک پر بعیت کی اور خلافت حاصل سے سرفراز ہوئے۔
قیام تونسہ ۔
مرشد کے انتقال کے بعد 1214ھ، 1799ء میں گڑگوجی سے ہجرت کر کے تونسہ شریف (ضلع ڈیرہ غازی خان) میں مقیم ہو گئے اور خلق خدا کی رہنمائی کرنے لگے۔ آپ کا فیض عام ہو گیا اور لوگ جوق در جوق بعیت کرنے لگے۔ آپ کے تشریف لانے سے قبل تونسہ شریف سنگھڑ ندی کے کنارے چند گھروں پر مشتمل ایک غیر معروف گاؤں تھا۔ جب آپ تونسہ میں آ کر مقیم ہوئے تو یہ غیر معروف گاؤں علم و عرفان کا مرکز بن گیا اور طاؤسہ سے تونسہ شریف کہلانے لگا۔
دینی خدمات ۔
تیرہویں صدی ہجری و اٹھارویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں مسلمانوں کا ہزار سالہ دور حکومت ختم ہونے کو تھا آخری مسلم حکومت یعنی مغلیہ سلطنت اپنی آخری سانس لے رہی تھی اس کی حدود صرف دہلی تک محدود ہو چکی تھی۔ مرہٹوں، جاٹوں اور سکھوں نے افراتفری مچا رکھی تھی۔ حکومت کابل کی شوکت روبہ زوال تھی۔ اس سے فائدہ اٹھا کر سکھوں نے پنجاب پر اپنا قبضہ جمانا شروع کر دیا۔ انگریز کی نظر تخت دہلی پر لگی ہوئی تھی۔ آپ نے تونسہ شریف میں عظیم علمی و دینی درسگاہ قائم کی جہاں پچاس سے زائد علماء و صوفیاء فارسی، عربی، حدیث، تفسیر، فقہ، تصوف، سائنس، طب و ہندسہ وغیرہ کی تعلیم دیتے تھے۔ طلبہ کی تعداد ان مدارس میں ڈیڈھ ہزار سے زائد تھی۔ طلبہ، علماء و فقراء کو لنگرخانہ سے کھانا، کپڑے، جوتے،کتابیں، ادویہ اور دیگر تمام ضروریات زندگی ملتی ہیں۔ آپ کو درس و تدریس کا بے حد شوق تھا۔ مریدیں و خلفاء کو کتب تصوف کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ کے خلفا نے برصضیر پاک وہند کے طول وعرض میں اور اس سے باہر اپنی خانقاہیں قائم کیں۔ دینی مدارس کا اجراء کیا لنگر خانے قائم کئے۔ پاکستان میں تونسہ شریف، مکھڈشریف، ترگھ شریف، میراں شریف، گڑھی افغانان، سیال شریف، جلال پورہ، گولڑہ شریف اور بھیرہ شریف وغیرہ کے مدارس قابل ذکر ہیں۔ ان مدارس میں نہ صرف اعلٰی درجہ کی تعلیم دی جاتی بلکہ اعلٰی درجہ کی تربیت بھی کی جاتی۔
تونسہ شریف کی خانقاہ برصضیر پاک و ہند میں صوفیاء کی خانقاہوں میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔آپ کی علمی، دینی، اصلاحی، اخلاقی و روحانی تعلیمات نے معاشرے کے ہر طبقہ فکر کو متاثر کیا ان میں عام مسلمانوں کے علاوہ علماء و صوفیاء اور روساء بھی شامل ہیں۔
علماء اور عوام کے بڑے بڑے والیاں ریاست اور جاگیردار آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اکثر والیاں ریاست گدی پر بیٹھتے وقت آپ کے دست مبارک سے پگڑی بندھوانے کی خواہش کرتے مگر آپ راضی نہ ہوتے۔ سنگھڑ، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان اور ریاست بہاولپور کے نواب، افغانستان سے والی ریاست شاہ شجاع محمدپوتے احمد شاہ ابدالی و میر دوست محمد والی افغانستان اور پنجاب، سرحدوافغانستان کی چھوٹی بڑی ریاستوں کے نواب کئی مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کی شان میں علماء، صوفیاء اور شعراء نے عربی، فارسی، اردو اور ہندی زبان میں بے شمار تذکرے، منقبتیں، قصائد اور سلام عقیدت لکھے۔
آپ نے ماہ صفرالمظفر کی 6 اور 7 تاریخ کی درمیانی رات 84 برس کی عمر میں انتقال فرمایا اور اپنے حجرہ عبادت میں دفن ہوئے۔ آپ کے مزار پر نواب بہاولپور ثالث (1825ء تا 1852ء) مرید خواجہ تونسوی نے 85 ہزار روپے کی لاگت سے ایک عالیشان مقبرہ 1270ء میں مکمل کرایا۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔