عورت - ایثار و محبت کا لازوال شاہکار
کہتے ہیں عورت ایک پہیلی ہے، ایسی پہیلی جسے بوجھنے والا اکثر حیران ہوتا ہے۔ عورت ماں بھی ہے، بیوی بھی، بہن اور بیٹی بھی ہے۔ اپنے ہر کردار میں اس کے جذبات و احساسات ایسے ایسے انوکھے رنگ دکھاتے ہیں کہ دیکھنے والے حیران رہ جائیں۔
کہتے ہیں عورت جفا پیشہ اور فتنہ گر ہوتی ہے، یہ سب الزام نسوانی احترام اور فطرت کے بنائے ہوئے قوانین کی نفی کرتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ عورت وفا پیشہ اور ایثار و محبت کا لازوال شاہکار ہے۔ ماں، بیوی، بہن، بیٹی چاہے وہ ان میں سے کسی بھی روپ میں ہو اس کا ہر رشتہ تقدس کا داعی ہے۔ وہ عہدوفا کی سچی اور کردار کی بےداغ ہوتی ہے۔ لیکن کیا آج معاشرے میں اس کو وہ اہمیت حاصل ہے جس کی وہ حقدار ہے۔
مرد عورت کو کمزور سمجھتا ہے اور پھر ہر دور میں ناپاک خواہشات کے حامل لوگ عورت سے زیادتی کرتے آئے ہیں۔ لیکن اسلام ایک ایسا واحد مذہب ہے جس نے عورت کو اس کا صیحیح مقام و مرتبہ دیا، اسے عزت و توقیر عطا کی۔ اسلام نے عورت کو ظلم کی کال کوٹھری سے نکال کر اسے اس مقام پر بٹھا دیا جس کی وہ حقدار تھی۔ اسلام نے عورت کا جو معتبر اور قابل قدر کردار متعین کیا تھا مسلمانوں نے اسے ملحوظ خاطر نہ رکھا، کہیں تو انہوں نے عورت کو گھر کی چاردیواری میں قید کر دیا اور پردے کو اس قدر سخت کر دیا کہ اس کے لئے سانس تک لینا مشکل ہو گیا اور کہیں اتنی چھوٹ دے دی کہ اس نے چادر اور چاردیواری کا تقدس کھو دیا اور گھر کی چاردیواری پھلانگ کر شرافت و عزت کی تمام سرحدیں پار کر گئی۔
اسلام نے عورت کو جو رتبہ دیا دوسری قوموں نے اس سے متاثر ہو کر اس کی تقلید میں آزادی نسواں کے نام پر اس قدر آگے بڑھیں کہ عورت ہر میدان میں مرد کی ہمسر بن گئی۔ دوسری طرف مغربی معاشرے کے رنگ ڈھنگ کو اکثر مسلمانوں نے ترقی کی علامت سمجھ لیا، جس سے مسلم معاشرہ دو حصوں میں بٹ گیا، ایک وہ جس میں عورت مجبوری و بے بسی کی تصویر ہے اور دوسرا حصہ وہ جس میں عورت مکمل خود مختیار ہے۔ یوں اسلام کا حقیقی نظریہ نظروں سے اوجھل ہو گیا جو متوازن اور قابل عمل ہے۔
کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے معاشرے کی عورت اتنی مجبور اور بے بس کیوں ہے۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ آج عورت کی عزت کیوں محفوظ نہیں رہی، علاج کے نام پر مسیحا، انصاف کے نام پر قانون کے محافظ، تعویز اور ٹونے ٹوٹکے کے نام پر جعلی پیر اور ملاں، حصول علم کی خواہش پر اساتذہ عورت کو بے آبرو کے دیتے ہیں۔ آج بازار سے لیکر ہسپتال تک اور کالج سے لیکر گھر کی چاردیواری تک عورت کی عزت کہیں بھی محفوظ نہیں رہی۔ خدا جانے مرد کی انفرادی غیرت سو گئی یا اجتماعی غیرت موت کے گھاٹ اتر گئی۔
آخر اس معاشرے کے مرد کا ذہن اتنا چھوٹا کیوں ہے کہ وہ عورت کو اتنا حقیر سمجھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے اعلٰی تعلیم یافتہ لوگ بھی بیٹوں کو بیٹیوں کی نسبت زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔ نچلے طبقے کا عورت سے رویہ دیکھ کر شرم سے نگاہیں جھک جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے آج بھی بہت سے خاندان بیٹیوں کو تعلیم نہیں دلواتے کہ اس نے پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے، سینا پرونا، کھانا پکانا اور جھاڑو دینا سیکھ جائے تاکہ دوسرے گھر میں جا کر کچھ فائدہ ہو۔ ان لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ سینا پرونا اور کھانا پکانا گو کہ زندگی کے لئے لازمی سہی مگر زندگی کو بنارتی سنوارتی تو تعلیم ہے۔ تعلیم ہی انسان کو انسان کے رتبے پر فائز کرتی ہے۔ تعلیم ہی انسان کو اچھے برے کی تمیز سکھاتی ہے۔ بیٹیاں اس لئے بھی ماں، باپ کو بوجھ لگتی ہیں کہ ان کو کچھ دینا پڑتا ہے، یہ والدین کا سہارا نہیں بن سکتی، اسی خوش فہمی میں والدین بیٹوں کو سر چڑھا لیتے ہیں کہ یہ ان کے بڑھاپے کا سہارہ بنیں گے لیکن اکثر لڑکے بعد میں والدین کو بوجھ سمجھتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم نے عورت کو اس کا صیحیح مقام دے دیا ہے لیکن یہ ہم سب کی بہت بڑی بھول ہے۔ عورت باپ کے گھر میں ہو تو شادی تک پابندیوں میں گھری رہتی ہے اور شادی کے بعد سسرال والوں کی پابندیاں جھیلنی پڑتی ہیں، جہیز کم ملنے یا نا ملنے پر ان کی جلی کٹی باتوں پر ساری زندگی گزار دیتی ہے اور کبھی سسرال والوں کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو اس کا شوہر طاقت استعمال کر کے اسے مارپیٹ سکتا ہے اور طلاق جیسا گھناؤنا لفظ سنا کر اسے ذلیل و رسوا کر سکتا ہے۔ عورت کیا کیا باتیں اور کون کون سے ظلم برداشت نہیں کرتی، اس کے باوجود وہ سارا دن کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی ہے گھر کو بناتی سنوارتی ہے، بچوں کی تربیت کرتی ہے لیکن بدلے میں اسے کیا ملتا ہے ذلت اور رسوائی کا تمغہ۔
عورت کے چار فورس ہیں۔ ماں، بیوی، بہن، بیٹی، ان چاروں رشتوں میں وہ پیار و محبت اور کی سچی تصویر ہے۔ عورت محبت کی دیوی ہے، کیونکہ اس کا ضمیر محبت سے اٹھا ہے۔ وہ جب محبت کرتی ہے تو ٹوٹ کر کرتی ہے اور اس میں کسی کو رتی برابر بھی شریک نہیں کر سکتی۔ اگر کسی کے سامنے تن جائے تو ٹوٹ سکتی ہے جھک نہیں سکتی۔ عورت زمین پر رینگنے والا کیڑا نہیں، عورت احساسات سے عاری نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی انسان ہے۔
اس بارے میں
عورت ۔ جفا پیشہ اور فتنہ گر
کہتے ہیں عورت جفا پیشہ اور فتنہ گر ہوتی ہے، یہ سب الزام نسوانی احترام اور فطرت کے بنائے ہوئے قوانین کی نفی کرتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ عورت وفا پیشہ اور ایثار و محبت کا لازوال شاہکار ہے۔ ماں، بیوی، بہن، بیٹی چاہے وہ ان میں سے کسی بھی روپ میں ہو اس کا ہر رشتہ تقدس کا داعی ہے۔ وہ عہدوفا کی سچی اور کردار کی بےداغ ہوتی ہے۔ لیکن کیا آج معاشرے میں اس کو وہ اہمیت حاصل ہے جس کی وہ حقدار ہے۔
مرد عورت کو کمزور سمجھتا ہے اور پھر ہر دور میں ناپاک خواہشات کے حامل لوگ عورت سے زیادتی کرتے آئے ہیں۔ لیکن اسلام ایک ایسا واحد مذہب ہے جس نے عورت کو اس کا صیحیح مقام و مرتبہ دیا، اسے عزت و توقیر عطا کی۔ اسلام نے عورت کو ظلم کی کال کوٹھری سے نکال کر اسے اس مقام پر بٹھا دیا جس کی وہ حقدار تھی۔ اسلام نے عورت کا جو معتبر اور قابل قدر کردار متعین کیا تھا مسلمانوں نے اسے ملحوظ خاطر نہ رکھا، کہیں تو انہوں نے عورت کو گھر کی چاردیواری میں قید کر دیا اور پردے کو اس قدر سخت کر دیا کہ اس کے لئے سانس تک لینا مشکل ہو گیا اور کہیں اتنی چھوٹ دے دی کہ اس نے چادر اور چاردیواری کا تقدس کھو دیا اور گھر کی چاردیواری پھلانگ کر شرافت و عزت کی تمام سرحدیں پار کر گئی۔
اسلام نے عورت کو جو رتبہ دیا دوسری قوموں نے اس سے متاثر ہو کر اس کی تقلید میں آزادی نسواں کے نام پر اس قدر آگے بڑھیں کہ عورت ہر میدان میں مرد کی ہمسر بن گئی۔ دوسری طرف مغربی معاشرے کے رنگ ڈھنگ کو اکثر مسلمانوں نے ترقی کی علامت سمجھ لیا، جس سے مسلم معاشرہ دو حصوں میں بٹ گیا، ایک وہ جس میں عورت مجبوری و بے بسی کی تصویر ہے اور دوسرا حصہ وہ جس میں عورت مکمل خود مختیار ہے۔ یوں اسلام کا حقیقی نظریہ نظروں سے اوجھل ہو گیا جو متوازن اور قابل عمل ہے۔
کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے معاشرے کی عورت اتنی مجبور اور بے بس کیوں ہے۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ آج عورت کی عزت کیوں محفوظ نہیں رہی، علاج کے نام پر مسیحا، انصاف کے نام پر قانون کے محافظ، تعویز اور ٹونے ٹوٹکے کے نام پر جعلی پیر اور ملاں، حصول علم کی خواہش پر اساتذہ عورت کو بے آبرو کے دیتے ہیں۔ آج بازار سے لیکر ہسپتال تک اور کالج سے لیکر گھر کی چاردیواری تک عورت کی عزت کہیں بھی محفوظ نہیں رہی۔ خدا جانے مرد کی انفرادی غیرت سو گئی یا اجتماعی غیرت موت کے گھاٹ اتر گئی۔
آخر اس معاشرے کے مرد کا ذہن اتنا چھوٹا کیوں ہے کہ وہ عورت کو اتنا حقیر سمجھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے اعلٰی تعلیم یافتہ لوگ بھی بیٹوں کو بیٹیوں کی نسبت زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔ نچلے طبقے کا عورت سے رویہ دیکھ کر شرم سے نگاہیں جھک جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے آج بھی بہت سے خاندان بیٹیوں کو تعلیم نہیں دلواتے کہ اس نے پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے، سینا پرونا، کھانا پکانا اور جھاڑو دینا سیکھ جائے تاکہ دوسرے گھر میں جا کر کچھ فائدہ ہو۔ ان لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ سینا پرونا اور کھانا پکانا گو کہ زندگی کے لئے لازمی سہی مگر زندگی کو بنارتی سنوارتی تو تعلیم ہے۔ تعلیم ہی انسان کو انسان کے رتبے پر فائز کرتی ہے۔ تعلیم ہی انسان کو اچھے برے کی تمیز سکھاتی ہے۔ بیٹیاں اس لئے بھی ماں، باپ کو بوجھ لگتی ہیں کہ ان کو کچھ دینا پڑتا ہے، یہ والدین کا سہارا نہیں بن سکتی، اسی خوش فہمی میں والدین بیٹوں کو سر چڑھا لیتے ہیں کہ یہ ان کے بڑھاپے کا سہارہ بنیں گے لیکن اکثر لڑکے بعد میں والدین کو بوجھ سمجھتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم نے عورت کو اس کا صیحیح مقام دے دیا ہے لیکن یہ ہم سب کی بہت بڑی بھول ہے۔ عورت باپ کے گھر میں ہو تو شادی تک پابندیوں میں گھری رہتی ہے اور شادی کے بعد سسرال والوں کی پابندیاں جھیلنی پڑتی ہیں، جہیز کم ملنے یا نا ملنے پر ان کی جلی کٹی باتوں پر ساری زندگی گزار دیتی ہے اور کبھی سسرال والوں کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو اس کا شوہر طاقت استعمال کر کے اسے مارپیٹ سکتا ہے اور طلاق جیسا گھناؤنا لفظ سنا کر اسے ذلیل و رسوا کر سکتا ہے۔ عورت کیا کیا باتیں اور کون کون سے ظلم برداشت نہیں کرتی، اس کے باوجود وہ سارا دن کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی ہے گھر کو بناتی سنوارتی ہے، بچوں کی تربیت کرتی ہے لیکن بدلے میں اسے کیا ملتا ہے ذلت اور رسوائی کا تمغہ۔
عورت کے چار فورس ہیں۔ ماں، بیوی، بہن، بیٹی، ان چاروں رشتوں میں وہ پیار و محبت اور کی سچی تصویر ہے۔ عورت محبت کی دیوی ہے، کیونکہ اس کا ضمیر محبت سے اٹھا ہے۔ وہ جب محبت کرتی ہے تو ٹوٹ کر کرتی ہے اور اس میں کسی کو رتی برابر بھی شریک نہیں کر سکتی۔ اگر کسی کے سامنے تن جائے تو ٹوٹ سکتی ہے جھک نہیں سکتی۔ عورت زمین پر رینگنے والا کیڑا نہیں، عورت احساسات سے عاری نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی انسان ہے۔
اس بارے میں
عورت ۔ جفا پیشہ اور فتنہ گر
1 comments:
زبردست ، مگر ہدایت نامہ خاوند لگتی ہے
8/29/2005 02:59:00 AMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔