ڈکٹیٹرشپ: فوجی اور روحانی
’ہوشیار! خبردار! گردنیں نیچی کرو پاک جا رہے ہیں‘
’وہ کہ جنکی جھولی میں قرآن ڈالے
تم نے کہا تھا
قرآن ہی اب تمھاراہے والی و وارث
لیکن قرآن نہ اندھیاری راتوں میں ھمدم بنے گا
اور نہ ھی وہ چوم سکتا ہے
اور ھم جو روٹھیں تو ہم کو نہ منوا سکے گا۔‘
کچھ اسطرح کی نظم برسوں پہلے سندھی شاعر امداد حسینی نے ’قرآن سے شادی‘ کروائی جانیوالی لڑکیوں پر لکھی تھی جو مجھے اب یاد آئی جب قرآن سے شادی پر سزا کا بل پاکستان کی اس اسمبلی میں پیش گیا گیا ہے جسکی نشستوں پر آج بھی ایسے معزز اراکین اور سیاسی و روحانی گدی نشین موجود ہیں جنہوں نے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی شادیاں قرآن سے کروائی ہوئی ہیں- قطع نظر اسکے کہ انیس سو بانوے میں ’قرآنی دلہنوں‘ پر بنائی جانیوالی ایک دستاویزی فلم میں ’قرآن سے شادی‘ کی رسم اسکی اصلی تقریب میں پہنچنے کی بجاۓ ڈرامہ کرکے ڈالی گئی تھی لیکن وہ بہت سے بچے اور بچیاں جو سندھ اور پنجاب کی درگاھوں اور حویلیوں کی دیواروں کی مٹی چاٹ چاٹ کر بڑے ھوئے ہیں انکے لیے ’حویلیوں کے راز‘ راز نہیں رہے- ان حویلیوں کے لیے لوگ کہتے ہیں کہ ان پر سے نر پرندہ اڑ کر گذر جانے سے پہلے ہی بھگا دیا جاتا-
ہم نے پاک۔بھارت جنگ کے دنوں میں گاڑیوں کے شیشوں پر ’ملتانی مٹی‘ ملی دیکھی تھی جو کہ ’دشمن ملک‘ کے بمبار طیاروں کے خوف سے بلیک آؤٹ کے طور پر ملی جاتی تھی ۔اسطرح ملتانی مٹی ملے شیشوں اور ڈبل چادروں سے ڈھکی ھوئی پچھلی نشست پر ’پاکوں‘ کو ( سیدوں اور پیروں کی عورتوں اور ’قرآنی دلہنوں‘ کیلیے لفظ ’پاک‘ استعمال کیا جاتا) سفر کرایا جاتا- گویا کہ یہ عورتیں ہر وقت جنگی حالات اور بلیک آؤٹ میں ہوں!
’ہوشیار! خبردار! گردنیں نیچی کرو پاک جا رہے ہیں‘، کچھ برس قبل سندھ کی ایک بہت بڑی صوفیانہ درگاہ کے آنگن میں بیٹھے ہوے ہم سب سے کہا گیا تھا-
فوجی ڈکٹیٹرشپ ہو کہ روحانی ڈکٹیٹرشپ اسکا سب سے بڑا نشانہ عورت ہی بنی ہے- ابھی بچی بلوغت کے سنہ یا شادی کی عمر کو نہیں پہنچ پاتی کہ ایک رسم میں انکی شادی قرآن سے کرائی جاتی- نئے کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور پھر لڑکی کا باپ یا خاندان کا بڑا (وہ بھائی بھی ھو سکتا ھے) لڑکی سے کہتا ہے ’بیٹی! آج سے آپ ستی ھیں‘۔ اسے حق بخشوانا بھی کہا جاتا ھے- کبھی کبھی کہیں پر خاندان کے قریبی افراد اور کبھی کبھار بہت ہی قریبی مریدنیوں اور انکے چھوٹے بچوں بچیوں کی موجودگی میں انکی جھولی میں قرآن ڈال دیا جاتا ھے- حق بخشی ہوئی عورت اپنے حصے میں آنیوالی والدین کی ملکیت سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہو جاتی ہے-
مسلم قانون وراثت میں اکثریتی فقہوں میں تو عورت کا حق موروثیت (جسے ’اٹھوگ‘ یعنی ’آٹھواں حصہ یا ہشت‘ بھی کہا جاتا ھے) تو ہے ہی بہت تھوڑا سا اور یہ ساری حق بخشوائی ہے ہی اسکے حصے کی ملکیت گھر سے باھر چلے جانے سے روکنے کے لیے- مجھے میرے ایک ایسے دوست جسکے رشتہ داروں میں لڑکیوں کی شادیاں قرآن سے ھوئی تھیں بتایا کہ اصل مسئلہ ملکیت میں حصے کا ھوتا ھے۔ جنوبی پنجاب میں ملتان سے لیکر سندھ میں ہالہ اور مٹیاری تک یہ جو بڑی بڑي جاگییریں اور چھوٹی بڑی درگاہیں اور حویلیاں ہیں انکے مالک اور گدی نشیں خاندانوں میں سے بہت سوں نے اپنی عورتوں اور لڑکیوں کا ’حق بخشوا‘ کر رکھا ھوا ھے۔
حق بخشوائی ھوئی بہت سی عورتیں ایسے ہوجاتی ھیں جیسے کیتھولک عیسائیت میں راہبائيں۔ وہ گنڈے تعویذ کرتی ھیں اور ان کے ارد گرد دم پھونکنے اور دعائیں کروانے والیوں کا تانتا بندھا رہتا ہے- لیکن میں نے سنا ہے کئی گھروں میں ’قرآنی دلھنوں‘ کو گھر والوں نے ڈش کیبل چینلز، وی سی آر، گیت مالا اور جھنکار کی کسیٹیں بھی دلا رکھی ہیں۔
لیکن اکثر جسے قرآن سے شادی کہا جاتا ہے وہ کوئی باقاعدہ شادی کی تقریب جیسی کوئی رسم کر کے نہیں کی جاتی۔ یہ تو بس ایک سادہ سی رسم ہوتی ھے۔ ملکیتوں کی تقسیم کے خوف سے لڑکیوں کی شادیاں نہ کرنا تو سندھ اور پنجاب کے بہت سے علاقوں اور گھرانوں میں موجود ہے لیکن قرآن سے شادی ’سید اور پیر‘ خاندانوں میں ہوتی ہیں۔ اگرچہ بڑے بڑے پیر اور سید شخصیات اسکی تردید کرتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے- ’قرانی دلہنیں‘ جیسی ڈرامائی دستاویزی فلم میں بھی جب سندھ کا ایک بڑا لیکن خود کو ’ترقی پسند‘ کہلوانے والا سیاستدان اسکی تردید کر رہا تھا تو اسے ڈش پر دیکھ کر ایک مقامی گاؤں والے نے سرگوشی میں کہا: ’انکی اپنی پھوپیوں کی شادیاں قرآن سے ہوئی ہیں‘۔
ایئر ہوسٹسوں، فنکاراؤں اور ایکٹریسوں سے شادیوں کے شوقین ان سیاستدان پیروں اور جاگیرداروں نے اپنی عورتوں کی ’شادیاں قرآن کیساتھ‘ کروائی ہوئی ہیں- اور ان سیاستدان جاگيرداروں میں پاکستان کی حزبِ اقتدار اور حزب اختلاف کے بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ اب ان کے ساتھ شادی کرنے والی عورتوں یا انکو اپنی لڑکیاں دینے والوں نے یہ شرائط بھی رکھی ہیں کہ وہ اپنی پیدا ہونیوالی لڑکیوں کی شادیاں قرآن سے نہیں کروائيں گے یا انکا حق نہيں بخشوا دیں گے۔ اب وہاں فوجی ڈکٹیٹرشپ کا تسلسل رکھنے والے جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں ’قرآنی شادیوں‘ کیخلاف بل اور اسکی منظوری کے بعد ایسی روحانی ڈکٹیٹرشپ سے پاکستانی لوگوں اور خاص طور پر عورتوں کو نجات دلوانے کی توقع ایسے فوجی صدر سے باندھنا عبث ہے جسکے اپنے ملک کی عورتوں کے متعلق خیالات سندھ اور پنجاب کے کسی تھانیدار سے قدرے مختلف نہیں۔ (ملاحظہ فرمائیے اس روشن خیال کمانڈو حکمران کا امریکہ میں اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو دیا ہوا انٹرویو جس میں انہوں نے کہا ’اگر آپ لکھ پتی بننا چاھتے ھیں یا آپکو کینیڈا کا ویزا اور شہریت چاہیے تو آپ ریپ کروایے‘۔ یہ بلکل ایسا انداز بیان ہے جو فیصل آباد کے ڈی پی او پولیس نے اپنے ہاتھوں مبینہ طور پر سونیا ناز کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام کے بعد دیا تھا کہ ’وہ فیصل آباد کی مختار مائی بننا چاھتی ھے‘۔ اور پھر فوجی ڈکٹیٹرشپ اور روحانی ڈکٹیٹر شپ والوں کی تو اپنی ایک شادی بنی رچی ہوئی ہے۔ جنوبی پنجاب اور جنوبی سندھ کی جاگیروں اور درگاہوں کے میدانوں میں آپ نے جنرل پرویز مشرف کو کلف لگے کاٹن کی شلوار قمیض میں جلسوں سے خطاب کرتے دیکھا ھوگا۔ یہیں وہ گدیاں ہیں جنکی حویلیوں میں لڑکیاں برھا برس سے قرآن سے بیاھی جاتی رہی ہیں-
ذریعہ - بی بی سی اردو
مصروفیت ختم ہونے تک انہی پوسٹوں پر گزارہ کیجیئے۔
تم نے کہا تھا
قرآن ہی اب تمھاراہے والی و وارث
لیکن قرآن نہ اندھیاری راتوں میں ھمدم بنے گا
اور نہ ھی وہ چوم سکتا ہے
اور ھم جو روٹھیں تو ہم کو نہ منوا سکے گا۔‘
کچھ اسطرح کی نظم برسوں پہلے سندھی شاعر امداد حسینی نے ’قرآن سے شادی‘ کروائی جانیوالی لڑکیوں پر لکھی تھی جو مجھے اب یاد آئی جب قرآن سے شادی پر سزا کا بل پاکستان کی اس اسمبلی میں پیش گیا گیا ہے جسکی نشستوں پر آج بھی ایسے معزز اراکین اور سیاسی و روحانی گدی نشین موجود ہیں جنہوں نے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی شادیاں قرآن سے کروائی ہوئی ہیں- قطع نظر اسکے کہ انیس سو بانوے میں ’قرآنی دلہنوں‘ پر بنائی جانیوالی ایک دستاویزی فلم میں ’قرآن سے شادی‘ کی رسم اسکی اصلی تقریب میں پہنچنے کی بجاۓ ڈرامہ کرکے ڈالی گئی تھی لیکن وہ بہت سے بچے اور بچیاں جو سندھ اور پنجاب کی درگاھوں اور حویلیوں کی دیواروں کی مٹی چاٹ چاٹ کر بڑے ھوئے ہیں انکے لیے ’حویلیوں کے راز‘ راز نہیں رہے- ان حویلیوں کے لیے لوگ کہتے ہیں کہ ان پر سے نر پرندہ اڑ کر گذر جانے سے پہلے ہی بھگا دیا جاتا-
ہم نے پاک۔بھارت جنگ کے دنوں میں گاڑیوں کے شیشوں پر ’ملتانی مٹی‘ ملی دیکھی تھی جو کہ ’دشمن ملک‘ کے بمبار طیاروں کے خوف سے بلیک آؤٹ کے طور پر ملی جاتی تھی ۔اسطرح ملتانی مٹی ملے شیشوں اور ڈبل چادروں سے ڈھکی ھوئی پچھلی نشست پر ’پاکوں‘ کو ( سیدوں اور پیروں کی عورتوں اور ’قرآنی دلہنوں‘ کیلیے لفظ ’پاک‘ استعمال کیا جاتا) سفر کرایا جاتا- گویا کہ یہ عورتیں ہر وقت جنگی حالات اور بلیک آؤٹ میں ہوں!
’ہوشیار! خبردار! گردنیں نیچی کرو پاک جا رہے ہیں‘، کچھ برس قبل سندھ کی ایک بہت بڑی صوفیانہ درگاہ کے آنگن میں بیٹھے ہوے ہم سب سے کہا گیا تھا-
فوجی ڈکٹیٹرشپ ہو کہ روحانی ڈکٹیٹرشپ اسکا سب سے بڑا نشانہ عورت ہی بنی ہے- ابھی بچی بلوغت کے سنہ یا شادی کی عمر کو نہیں پہنچ پاتی کہ ایک رسم میں انکی شادی قرآن سے کرائی جاتی- نئے کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور پھر لڑکی کا باپ یا خاندان کا بڑا (وہ بھائی بھی ھو سکتا ھے) لڑکی سے کہتا ہے ’بیٹی! آج سے آپ ستی ھیں‘۔ اسے حق بخشوانا بھی کہا جاتا ھے- کبھی کبھی کہیں پر خاندان کے قریبی افراد اور کبھی کبھار بہت ہی قریبی مریدنیوں اور انکے چھوٹے بچوں بچیوں کی موجودگی میں انکی جھولی میں قرآن ڈال دیا جاتا ھے- حق بخشی ہوئی عورت اپنے حصے میں آنیوالی والدین کی ملکیت سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہو جاتی ہے-
مسلم قانون وراثت میں اکثریتی فقہوں میں تو عورت کا حق موروثیت (جسے ’اٹھوگ‘ یعنی ’آٹھواں حصہ یا ہشت‘ بھی کہا جاتا ھے) تو ہے ہی بہت تھوڑا سا اور یہ ساری حق بخشوائی ہے ہی اسکے حصے کی ملکیت گھر سے باھر چلے جانے سے روکنے کے لیے- مجھے میرے ایک ایسے دوست جسکے رشتہ داروں میں لڑکیوں کی شادیاں قرآن سے ھوئی تھیں بتایا کہ اصل مسئلہ ملکیت میں حصے کا ھوتا ھے۔ جنوبی پنجاب میں ملتان سے لیکر سندھ میں ہالہ اور مٹیاری تک یہ جو بڑی بڑي جاگییریں اور چھوٹی بڑی درگاہیں اور حویلیاں ہیں انکے مالک اور گدی نشیں خاندانوں میں سے بہت سوں نے اپنی عورتوں اور لڑکیوں کا ’حق بخشوا‘ کر رکھا ھوا ھے۔
حق بخشوائی ھوئی بہت سی عورتیں ایسے ہوجاتی ھیں جیسے کیتھولک عیسائیت میں راہبائيں۔ وہ گنڈے تعویذ کرتی ھیں اور ان کے ارد گرد دم پھونکنے اور دعائیں کروانے والیوں کا تانتا بندھا رہتا ہے- لیکن میں نے سنا ہے کئی گھروں میں ’قرآنی دلھنوں‘ کو گھر والوں نے ڈش کیبل چینلز، وی سی آر، گیت مالا اور جھنکار کی کسیٹیں بھی دلا رکھی ہیں۔
لیکن اکثر جسے قرآن سے شادی کہا جاتا ہے وہ کوئی باقاعدہ شادی کی تقریب جیسی کوئی رسم کر کے نہیں کی جاتی۔ یہ تو بس ایک سادہ سی رسم ہوتی ھے۔ ملکیتوں کی تقسیم کے خوف سے لڑکیوں کی شادیاں نہ کرنا تو سندھ اور پنجاب کے بہت سے علاقوں اور گھرانوں میں موجود ہے لیکن قرآن سے شادی ’سید اور پیر‘ خاندانوں میں ہوتی ہیں۔ اگرچہ بڑے بڑے پیر اور سید شخصیات اسکی تردید کرتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے- ’قرانی دلہنیں‘ جیسی ڈرامائی دستاویزی فلم میں بھی جب سندھ کا ایک بڑا لیکن خود کو ’ترقی پسند‘ کہلوانے والا سیاستدان اسکی تردید کر رہا تھا تو اسے ڈش پر دیکھ کر ایک مقامی گاؤں والے نے سرگوشی میں کہا: ’انکی اپنی پھوپیوں کی شادیاں قرآن سے ہوئی ہیں‘۔
ایئر ہوسٹسوں، فنکاراؤں اور ایکٹریسوں سے شادیوں کے شوقین ان سیاستدان پیروں اور جاگیرداروں نے اپنی عورتوں کی ’شادیاں قرآن کیساتھ‘ کروائی ہوئی ہیں- اور ان سیاستدان جاگيرداروں میں پاکستان کی حزبِ اقتدار اور حزب اختلاف کے بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ اب ان کے ساتھ شادی کرنے والی عورتوں یا انکو اپنی لڑکیاں دینے والوں نے یہ شرائط بھی رکھی ہیں کہ وہ اپنی پیدا ہونیوالی لڑکیوں کی شادیاں قرآن سے نہیں کروائيں گے یا انکا حق نہيں بخشوا دیں گے۔ اب وہاں فوجی ڈکٹیٹرشپ کا تسلسل رکھنے والے جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں ’قرآنی شادیوں‘ کیخلاف بل اور اسکی منظوری کے بعد ایسی روحانی ڈکٹیٹرشپ سے پاکستانی لوگوں اور خاص طور پر عورتوں کو نجات دلوانے کی توقع ایسے فوجی صدر سے باندھنا عبث ہے جسکے اپنے ملک کی عورتوں کے متعلق خیالات سندھ اور پنجاب کے کسی تھانیدار سے قدرے مختلف نہیں۔ (ملاحظہ فرمائیے اس روشن خیال کمانڈو حکمران کا امریکہ میں اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو دیا ہوا انٹرویو جس میں انہوں نے کہا ’اگر آپ لکھ پتی بننا چاھتے ھیں یا آپکو کینیڈا کا ویزا اور شہریت چاہیے تو آپ ریپ کروایے‘۔ یہ بلکل ایسا انداز بیان ہے جو فیصل آباد کے ڈی پی او پولیس نے اپنے ہاتھوں مبینہ طور پر سونیا ناز کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام کے بعد دیا تھا کہ ’وہ فیصل آباد کی مختار مائی بننا چاھتی ھے‘۔ اور پھر فوجی ڈکٹیٹرشپ اور روحانی ڈکٹیٹر شپ والوں کی تو اپنی ایک شادی بنی رچی ہوئی ہے۔ جنوبی پنجاب اور جنوبی سندھ کی جاگیروں اور درگاہوں کے میدانوں میں آپ نے جنرل پرویز مشرف کو کلف لگے کاٹن کی شلوار قمیض میں جلسوں سے خطاب کرتے دیکھا ھوگا۔ یہیں وہ گدیاں ہیں جنکی حویلیوں میں لڑکیاں برھا برس سے قرآن سے بیاھی جاتی رہی ہیں-
ذریعہ - بی بی سی اردو
مصروفیت ختم ہونے تک انہی پوسٹوں پر گزارہ کیجیئے۔
1 comments:
واقعی یہ ایک نہایت ہی مکروہ رسم قرآن کے نام پہ جاری ہے۔ خدا سب کا حامی و ناصر ہو! پڑھ کے دکھ ہوتا ہے تو جن پر بیتتی ہے ۔۔۔
9/22/2005 04:35:00 PMوالسلام
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔