22 September, 2005

کیا ریپ بطور کاروبار ہو سکتا ہے؟

“آپ کو یہ بات پاکستان میں موجودہ رحجانات کے تناظر میں سمجھنی ہوگی۔ یہ ایک کاروبار بن گیا ہے۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ باہر جانا چاہتے ہیں یا آپ کو کیینڈا کا ویزا اور شہریت چاہیے اور آپ کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں تو خود کو ریپ کروالیں‘۔
صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف نے یہ بات امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو صدر مشرف نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں خواتین پر ہونے والی زیادتیوں کے موضوع پر علاقائی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ریپ کی شکار خواتین کا نام لیے بغیر انکی مدد کرنے والی بعض این جی اوز سے یہ شکوہ کیا کہ وہ اس طرح کے معاملات بیرونِ ملک اچھال کر پاکستان کا نام بدنام کررہی ہیں لیکن خود صدر نے خواتین کے بارے میں مذکورہ ریمارکس کسی پاکستانی ٹی وی چینل یا اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے نہیں بلکہ ایک معروف غیرملکی اخبار کو انٹرویو کے دوران دیے۔
اگر ریپ واقعی پاکستان میں پیسہ یا غیرملکی ویزا حاصل کرنے کا کاروبار بن گیا ہے تو اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ مختاراں مائی نے اپنے گاؤں کے کچھ لوگوں کو اکسایا کہ وہ اسکے بھائی کی پٹائی کریں اور جب وہ اسے بچانے جائے تو ایک پنچائت اسے ریپ کرنے کا حکم سنائے ۔ تاکہ اسے نہ صرف امریکی اور کینیڈین شہریت کی پیشکش ہو بلکہ وہ ایک مظلوم کا روپ دھاری ہوئی عالمی ہیروئن بن جائے اور ہر طرف سے اس پر ڈالر برسنے شروع ہوجائیں۔ یا ڈاکٹر شازیہ خالد نے سوئی کے اسپتال میں اپنا ریپ خود پلان کیا تاکہ وہ اس کی آڑ میں برطانیہ جاسکے۔یا سونیا ناز نے فیصل آباد کے ایک تھانے والوں کو پیسے دے کر اپنے کپڑے تار تار کروائے تاکہ عالمی میڈیا اسے بھی ہیروئن بنادے یا شائستہ عالمانی نے جرگے والوں سے التجا کی کہ وہ اسے پسند کی شادی کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں تاکہ سویڈن کی حکومت اسے رحم کھا کر بلوالے۔ کراچی میں گزشتہ ہفتے ایک چار برس کی بچی کو کسی جنونی نے ریپ کیا اور ہاتھ پاؤں بھی توڑ دئے۔اس بچی کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اسکے ساتھ ہوا کیا۔
گزشتہ فروری میں جب پاکستان میں بی بی سی سنگت کا قافلہ چل رہا تھا تو بہاولپور میں ایک شخص اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑے اسٹیج کے سامنے آ گیا۔اس کا کہنا تھا کہ یہ بہری اور گونگی ہے اور تین آدمی اسے اغوا کر کے نہر پر لے گئے اور ریپ کیا۔ مگر پولیس نے ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود ایف آئی آر درج نہیں کی۔ اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ اسلام آباد جا کر صدر سے ملنے کی کوشش کرے۔ آپ کسی بھی دن کا کوئی بھی پاکستانی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں۔اس نوعیت کی اوسطاً چار پانچ خبریں آپ کو پڑھنے کے لیے مل جائیں گی۔
صدر مشرف کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مسئلہ ہر ملک میں موجود ہے لیکن اس حوالے سے صرف پاکستان کو ہی ٹارگٹ بنایا جارھا ہے۔ یقیناً یہ مسئلہ ہر ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک میں ہے لیکن کیا صدر مشرف کی نظر سے ایسی خبریں بھی گزریں کہ کوئی سعودی عورت ریپ کا الزام لے کر حکام کے پاس گئی اور حکام نے اسے بھگا دیا یا برطانوی شہر بریڈفورڈ میں کوئی عورت تھانے میں ریپ ہوگئی یا امریکی ریاست پنسلوانیا کے ایک گاؤں میں ایک پنچائت نے عورت کو ریپ کرنے کا فیصلہ کیا۔یا قاہرہ میں کسی عورت نے عدالت کے سامنے یہ بیان دیا کہ چونکہ اسے آنکھوں پر پٹی باندھ کر ریپ کیا گیا اس لیے وہ ملزموں کو نہیں پہچان سکتی اور عدالت نے اسے زنا آرڑیننس کے تحت جیل بھیج دیا۔ پاکستان میں ایک مثال ایسی بھی ہے کہ ایک نابینا عورت کو زنا آرڈیننس کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا۔
مشرف حکومت نے کئی بار کہا کہ وہ حدود آرڈیننس کے ناجائز استعمال کو روکنے کے لیے اس میں ترامیم کا جائزہ لے رہی ہے لیکن جائزہ ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ جب غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے لیے سخت قوانین پر مبنی بل پارلیمنٹ میں متعارف کرانے کی کوشش کی گئی تو مذہبی جماعتوں کے علاوہ سب سے زیادہ مخالفت حکمران جماعت کے ارکان کی طرف سے ہوئی۔ سن دو ہزار میں اس بات کی خاصی تشہیر کی گئی کہ پولیس کے فرسودہ ڈھانچے کو یکسر بدلا جا رہا ہے تاکہ لوگ اس سے ڈرنے کے بجائے اسے اپنا دوست سمجھیں۔لیکن پانچ برس کے بعد بھی اس طرح کی خبریں چھپ رہی ہیں کہ لوگوں نے جنازہ تھانے کے سامنے رکھ کے دھرنا دے دیا مگر ایف آئی آر درج نہ ہو سکی۔ فیصل آباد کی سونیا ناز کے ساتھ ریپ ہوا یا نہیں یہ فیصلہ تو عدالت کرے گی لیکن پولیس نے اسکی ایف آئی آر وزیرِاعظم شوکت عزیز کی ذاتی مداخلت کے باوجود درج کرنے میں مسلسل لیت و لعل سے کام لیا۔
سوئی ریپ کیس میں جن ملزموں پر شبہ ظاہر کیا گیا ان میں ایک فوجی افسر کیپٹن حماد کا نام بھی شامل تھا۔اس سے پہلے کہ کوئی عدالت اس الزام کے جھوٹے سچے ہونے کا فیصلہ کرتی۔ صدرِ مملکت نے فیصلہ دے دیا کہ کیپٹن حماد کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں اور جس وقت شازیہ اور اسکا شوہر اسلام آباد سے جہاز میں سوار ہو رہے تھے کسی حکومتی ایجنسی کو احساس نہ ہوا کہ یہ جوڑا بیرونِ ملک پاکستان کو بدنام کرسکتا ہے۔
عجیب بات ہے کہ صدر مشرف نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی اور بلدیاتی سطح پر خواتین کی نمائندگی میں اضافے کے اقدامات کیے۔اور وہ متعدد مرتبہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ جب تک عورتیں سماجی مساوات حاصل نہیں کرتیں ملک ترقی نہیں کرسکتا لیکن انہی اعتدال پسند اور روشن خیال صدر کی جانب سے ریپ بطور کاروبار جیسے ریمارکس کا چاہے ان کے نزدیک جو بھی مطلب ہو مگر پنچائتی نظام کے حامی، خود کو قانون سے بالا سمجھنے والے پولیس افسر، غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل کو جائز قرار دینے والے اور عورتوں کو کمزور سمجھ کر جنسی طور پر ہراساں کرنے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب تک تو ہم ہی کہتے آئے تھے کہ ریپ ریپ کا شور مچانے والی عورتیں چالباز ہوتی ہیں لیکن اب تو خود صدرِ مملکت نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے۔
اس تناظر میں صدر کی جانب سے ریپ بطور بزنس کا تبصرہ پاکستانی عورتوں کی حالت سدھارنے میں کس قدر مددگار ہوسکے گا یہ جاننے کے لیے آئن سٹائن یا ڈارون ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

ذریعہ - بی بی سی اردو

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب