16 September, 2005

واشنگٹن براستہ تل ابیب

اسرائیلی اور فلسطینی علاقوں کو تقسیم کرنے والی دیوار پر مصوری جنرل مشرف کو ہر دفعہ امریکہ آتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے لیےکوئی نہ کوئی تحفہ تو لانا ہی ہوتا ہے۔ اب یا تو باقی تحفے ختم ہو گئے ہیں اور یا پھر ان کو علم ہو گیا ہے کہ یہ تحفے تحائف کسی کام کے نہیں ہیں کیونکہ واشنگٹن کا راستہ تل ابیب سے ہو کر گزرتا ہے۔
امریکی میڈیا کے منفی رویّے اور امریکہ ہندوستان جوہری رشتے نے تل ابیب کا راستہ اور بھی اہم بنا دیا ہے۔ اب ایک اعتبار سے پاکستان اور اسرائیل کے امریکہ میں مفادات ایک ہو گئے ہیں کیونکہ ہندوستان کے علاوہ یہی دو جوہری طاقتیں ہیں جن کو جوہری کلب تسلیم نہیں کرتا۔ دونوں امریکہ سے وہی رعایت چاہتے ہیں جو ہندوستان کو مل رہی ہے۔
اگر یہ بات دور کی لائی ہوئی کوڑی معلوم پڑتی ہے تو آپ امریکہ کے ایک نائب وزیر خارجہ رابرٹ جی جوزف کا وہ بیان پڑھ لیجئے جو انہوں نے سینٹ کے سامنے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم ہندوستان کو ایک بے مثال کیس سمجھتے ہیں اور اس کے سول جوہری پروگرام کو آگے بڑھا کر ہندوستان کے عدم پھیلاؤ کے یقین کو پختہ کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اس طرح کا تعاون اسرائیل اور پاکستان کے ساتھ بھی کیا جائے کیونکہ ہندوستان کے علاوہ یہی دو ریاستیں ہیں جنہوں نے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔ ہمارے خیال میں ہندوستان، اسرائیل اور پاکستان علیحدہ علیحدہ اپنی طرح کی مثالیں ہیں اور تینوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ رویہ اپنانا پڑے گا۔ پاکستان اور اسرائیل کا سول جوہری توانائی کا پروگرام ہندوستان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ امریکہ کا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ پاکستان یا اسرائیل کے ساتھ سول جوہری میں پوری طرح تعاون کرے‘۔ اس بیان کا پس منظر یہ ہے کہ پاکستان اور اسرائیلی لابیاں یہ کوشش کر رہی ہیں کہ جب امریکی کانگریس ہندوستان کے ساتھ جوہری تعاون کا قانون منظور کرے تو وہ اس نوعیت کا ہو کہ پاکستان اور اسرائیل کو بھی فائدہ ہو۔ دونوں ریاستیں ابھی تک چوری چھپے جوہری ٹیکنالوجی خریدتی ہیں۔ اگر امریکہ پاکستان اور اسرائیل کو بھی ہندوستان جیسی سہولت فراہم کردے تو یہ ملک کھلے بندوں کسی بھی ملک سے جوہری ٹیکنالوجی لے سکتی ہیں۔ پھر چین بھی پاکستان کو کھلم کھلا جوہری ٹیکنالوجی فراہم کر سکتا ہے اور یورپ کے وہ ممالک بھی جو اس طرح کی ٹیکنالوجی کی تجارت کی لیے بیتاب ہیں۔ بے مثال ہندوستان پاکستان اور اسرائیل کا سول نیوکلیر توانائی کا پروگرام ہندوستان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ امریکہ کا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ پاکستان یا اسرائیل کے ساتھ سول نیوکلیر میں پوری طرح تعاون کرے امریکی نائب وزیر خارجہ رابرٹ جی جوزف پاکستان کو امریکہ میں اپنی اہمیت قائم رکھنے کے لیے اسرائیلی لابی کی اس لیے بھی ضرورت پیش آرہی ہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ امریکہ ہندوستان کو وہ ترجیحی مراعات دے رہا ہے جن سے پاکستان محروم رہ جائےگا۔ اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا نہیں ہے کیونکہ ہندوستان روس کا اتحادی مانا جاتا تھا اور پاکستان کی اہمیت کسی نہ کسی طرح سے ہمیشہ رہتی تھی۔ بلکہ بقول ذوالفقار علی بھٹو مرحوم امریکہ پاکستان سے اس لیے بھی قریبی تعلق رکھتا تھا تاکہ ہندوستان پر دباؤ قائم رکھ سکے اور وہ پوری طرح روس کی گود میں نہ چلا جائے۔ ظاہر بات ہے کہ پاکستان امریکہ کا ہندوستان کے ساتھ ترجیحی سلوک برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے ہندوستان کے ساتھ مسابقت اولین اہمیت کی حامل ہے۔دوسری طرف اسرائیل کے ساتھ اس کے تضادات نظریاتی تو ہو سکتے ہیں لیکن وہ اس کی لیے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار نہیں ہے۔ غالباً اسی بنیادی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے یا بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیل سے براہ راست فوجی ہتھیار اور دوسری ٹیکنالوجی خریدنا بھی پاکستانی ایجنڈے کا حصہ ہو گا کیونکہ ہندوستان اس میدان میں برتری حاصل کرتا جا رہا ہے اور پاکستان کسی بھی قیمت پر ہندوستان سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا ۔
مشرف کے پاس امکانات جنرل مشرف اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرکے ترپ کا پتہ کھیل رہے ہیں بعض حلقے پاکستان کو امریکہ میں اپنا امیج درست کرنے کے لیے بھی اسرائیلی لابی سے کافی مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان کے سفارتی حلقے یہ صاف کہتے ہیں کہ وہ جتنی بھی کوشش کریں امریکہ میں پاکستان کا امیج بحال نہیں کر پاتے۔ جب وہ کئی مہینوں کی محنت سے پاکستان کا امیج شفاف کر چکے ہوتے ہیں تو اچانک امریکی میڈیا میں کوئی ایسی کہانی چھپتی ہے کہ سب کیے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے ۔ان سفارت کاروں کو توقع ہے کہ پاک اسرائیل تعلقات معمول پر آنے کے بعد امریکی میڈیا پاکستان کا امیج بہتر بنانے میں مدد گار ہوگا۔
اگر پاکستان کو امریکہ میں اسرائیلی لابی کی ضرورت ہے تو حالات ایسے ہیں کہ امریکہ کی اسرائیلی لابی بھی دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہی ہے۔ صدر مشرف کو دعوت دینے سے پہلے امریکن جیوئش کانگرس کے تین رہنما پاکستان کی دعوت پر اسلام آباد کا دورہ کر چکے ہیں۔ وہ اسی ہفتے پاکستان پوسٹ کو ایک انٹرویو میں یہ بھی بتا چکے ہیں کہ پاکستان میں ایم ایم اے کا پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ رابطے قائم کرنے کے خلاف احتجاج کا ناکام ہونا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی عوام روشن خیال ہیں اور وہ مذہبی جنونیت کی حمایت نہیں کرتے۔ اب اگر ان یہودی رہنماؤں کا یہی بیان نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں چھپے تو پاکستان کا امیج خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔
ظاہر بات ہے کہ امریکہ کی اسرائیلی لابی کے اپنے مفادات ہیں۔ وہ پاکستان کو مسلمان دنیا کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے نقطہ آغاز بنا رہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اب جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے سے یہودی بستیاں ختم کردی ہیں تو اس کا سفارتی سطح پر کوئی نتیجہ نکلنا چاہئیے یعنی اس کے مسلمان دنیا کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے چاہئیں۔ اسی لیے اسرائیلی لابی نے پاکستانیوں کو قریب لانے کے لیے کافی محنت اور دوڑ دھوپ کی ہے۔ شاید یہ لابی یہ بھی سوچ رہی ہے کہ امریکہ میں دو اقلیتوں کا ایک دوسرے کا متحارب ہونا دونوں کے لیے خطرناک ہے۔ کیونکہ اگر مسجدوں پر حملے ہوتے ہیں تو یہودیوں کے کنیساؤں کو بھی کم ہی بخشا جاتا ہے: امریکہ میں اب بھی یہودیوں کے خلاف کافی تعصب پایا جاتا ہے۔ آج کل مسلمان زیر عتاب ہیں اور یہ تعصب دبا ہوا ہے لیکن یہودی اپنی تاریخ سے جانتے ہیں کہ ان کے خلاف تعصب کسی وقت بھی ابھر کر سامنے آسکتا ہے۔ لہذا ایسے برے وقت کے لیے مسلمانوں سمیت دوسری اقلیتوں کے ساتھ اتحاد اور تعاون ضروری ہے۔ پاکستان کا امیج پاکستان میں ایم ایم اے کا پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ رابطے قائم کرنے کے خلاف احتجاج کا ناکام ہونا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی عوام روشن خیال ہیں اور وہ مذہبی جنونیت کی حمایت نہیں کرتے امریکن جیوئش کانگریس نے سب وجوہات کے ساتھ ساتھ جنرل مشرف کے ذاتی مفادات بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ ہر دفعہ امریکہ آنے سے ایک دو دن پہلے القاعدہ کے کسی چھوٹے موٹے لیڈر کو پکڑوا دیتے تھے اور پھر جب تک وہ نیویارک یا واشنگٹن پہنچتے تھے ان کا نام امریکی میڈیا میں بڑی اپنائیت سے لیا جا رہا ہوتا تھا۔ پچھلی مرتبہ بھی جنرل مشرف کے پاس کوئی خاص تحفہ نہیں تھا لہذا انہوں نےامریکہ کا دورہ شروع کرنے سے پہلے اسرائیل کے ساتھ گفت و شنید کا پتہ پھینک کر امریکی میڈیا کی زمین ہموار کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کسی وجہ سے بات بہت آگے نہ بڑھ سکی۔ لگتا ہے کہ اس مرتبہ ان کو امریکہ یا امریکی میڈیا کو بہت بڑا تحفہ دینے کی ضرورت پیش آ گئی ہے جو انہوں نے ایریل شیرون سے ملنے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل مشرف اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرکے ترپ کا پتہ کھیل رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد جب ان کے پاس کھیلنے کو کچھ نہیں بچے گا تو بازی کہاں اور کس کے ہاتھ میں جائے گی۔ ہمارا خیال ہے کہ پاک اسرائیل پیش رفت میں دونوں ریاستوں کے باہمی مفادات کا زیادہ ہاتھ ہے اور حکمرانوں کی ذاتی پسند نا پسند کا کم ۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے پاکستان ہندوستان کے سامنے سرنگوں ہونے سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ یہ تو تاریخ ہی بتائے گی کہ یہ فیصلہ درست تھا یا غلط۔

ذریعہ - بی بی سی اردو

آجکل عمرہ سیزن کی وجہ سے مصروفیت بہت ہی زیادہ ہیں لکھنے کے لئے وقت ہی مل رہا، اس کے ساتھ بلاگ کی نشوونما کے لئے ضروری ہے کہ اس کی دیکھ بھال کی جائے اور وقت پر اس کے لئے خوراک کا بندوبست کیا جائے۔ اس لئے بی بی سی اردو کے ذریعہ سے ایک بہت ہی اہم پوسٹ حاضر ہے اس پر تبصرہ ضرور کیجیئے گا۔

1 comments:

میرا پاکستان نے لکھا ہے

ايک بات ياد رکھنے کي ہے کہ اسرائيل کبھي بھي نہيں چاہے گا کہ کہيں بھي کوئي مسلمان قوم يا ملک طاقتور ہو۔
يہ وہي بات سمجھيں کہ کتے کو ہڈي ڈال دينا کہ کہ وہ ہڈي چوستا رہے اور باقي دنيا سے بے خبر رہے۔ اسي پر عمل کرتے ہوۓ يہودي مسلمانوں کو اتنا کچھ دے رہے ہيں کہ يہ بس جيتے رہيں۔ انہيں پتہ ہے کہ جب مسلمانوں کو اتنا کچہ بہي دينا بند کرديا تو مسلمان پرنے مارے پر تيار ہو جاۓ گا اور وہ بغاوت پر اتر آۓ گا۔
ياد رکھۓ مسلمانوں کے پاس ايٹم بم يا مکمل اسلامي نظام يہودي کو کبھي گوارا نہيں ہو گا۔
آجکل کے مسلمانوں کا يہ حال ہے کہ خود کچھ کرنا نہيں اور دوسروں کي آس لگاۓ رکھنا۔ اس کي مثال اس طرح ہے کہ جيسے ايک احمق خود تو کچھ ن کرے اور پيروں فقيروں سے بےسود دعائيں کواتا رہے۔
يہودی اور مسلمان کا خيرخواہ يہ کبھي نہ ہؤا ہے اور نہ ہوگا۔ جب بھي حالت سدھرني ہے خود ہي اپنے آپ کو مضبوط کر کے سدھرني ہے۔ اس لۓ فائدہ اسي ميں ہے کہ مسلمان اکٹھے ہو جائيں اور ملکر اپنے لۓ کچھ کريں۔

9/17/2005 04:20:00 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب