16 November, 2005

اس عید پر

رمضان المبارک میں جب شیطان قید میں تھا تو مقامی کیبل نیٹ ورک پر بھی مجرے اور فحش گانے بند تھے لیکن عید کے دن شیطان کو آزادی ملتے ہی اس نے اپنی مصروفیت کا آغاز مقامی کیبل نیٹ ورک سے کیا اور فحش گانے اور مجرے پھر سے شروع ہوگئے۔
عید کے دنوں میں ہر چیز پر عید ٹیکس نافذ تھا، ہر چیز عام دنوں کی نسبت تین چار روپے زیادہ میں فروخت ہوئی، خاص طور پر بچے عید ٹیکس کی زد میں تھے ان ننھوں سے تو ہر چیز کی قیمت کئی گناہ زیادہ وصول کی گئی، یہی عالم کھولوں کی دکانوں پر تھا عام دنوں میں ایک روپے میں ملنے والا کھلونا دو روپے میں دستیاب تھا۔ اس طرح بچوں کی اکثر تعداد دن چڑھتے ہی سب کچھ لٹا کر باقی وقت گھر میں دبکے رہے۔
اس عید پر ایک نیا ٹرینڈ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ جب ہزاروں بچوں نے جھولوں اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء پر پیسے خرچ کرنے کی بجائے نقلی پستول اور کلاشنکوفیں خریدیں، یہ بچے سارا دن گلی محلوں میں انفرادی اور ٹولیوں کی شکل میں چور سپائی، فلمی ہیرو اور ولن کا رول ادا کرتے رہے۔
معصوم بچوں میں یہ رجحان خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں، ہم سب کو اس پر غور کرنا چاہیےکہ آکر بچوں میں اتنی بڑی تبدیلی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ حکومت کو خاص طور پر اس جانب توجہ دینی چاہیے اور ان خطرناک ہتھیاروں کی جگہ سائنسی اور تعلیمی مواد پر مبنی کھلونوں کی تیاری پر توجہ دینی چاہیے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب