اندھیرے نہ بڑھاؤ
اخبار میرے سامنے پڑا ہے جس میں لکھا ہے کہ لاہور میں ایک شخص نے غربت اور بیروزگاری سے تنگ آ کر خودکشی کر لی۔ ایسی خبریں تقریبا ہر روز اخبارات میں شائع ہوتی ہیں اور ہم پڑھ کر اخبار ایک طرف پھینک دیتے ہیں مگر جب صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے تو قلم اٹھا لیتے ہیں کہ یہی ہماری طاقت ہے۔
یہ شخص جس نے خود تو بھوک سے جان چھڑا لی لیکن اس کی بیوی بچے اب تاعمر غربت کی صلیب پر لٹکے رہیں گے، نہ مریں گے نہ جی سکیں گے۔ حیرانگی ہے اس طرز حکمرانی پر جس میں بھوک سے بلکتی رعایا کی چیخیں حکمرانوں کی راتوں کی نیندیں خراب نہیں کر سکتی کہ ان کے وسیع و عریض محلوں میں غریبوں کی آہ و بکا کی آواز ہی نہیں پہنچ سکتی۔
یہ گلا سڑا نظام کب تک چلے گا؟ بھوک سے مرنے والے کب تک خاموشی سے مرتے رہیں گے؟ یہ ظالم لوگ اس دن سے ڈریں جس دن بھوک سے مرنے والوں کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک پہنچیں گے کہ اللہ کی نگری میں دیر ضرور ہے مگر اندھیر نہیں ۔۔۔ لیکن دیر بھی کتنی؟ کیا پتہ کب مشیت اپنا فیصلہ صادر کر دے۔ اس زمیں پر بڑے بڑے طرم خان، قارون، فرعون، ہامان ہو گزرے ہیں جو سمجھتے تھے کہ ان کی خدائی کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا لیکن اللہ جب ان کو سزا دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو کسی موسٰی کو پیدا کر دیتا ہے اور پھر آنکھیں دیکھتی ہیں کہ ظالم اپنے ظلم و ستم کے گہرے سمندروں میں غرق ہو جاتا ہے۔
اے حکمرانو ! اللہ کے انتقام سے ڈرو اس کی مخلوق کو رزق سے محروم نہ کرو، یاد رکھو اللہ کی چکی دیر سے ضرور پیستی ہے لیکن بڑا باریک پیستی ہے۔
اے آج کے حکمرانو ! یاد کرو مدینے کے اس حکمران کو جس نے کہا تھا کہ “دریا دجلہ کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر گیا تو اس کا ذمہ دار میں ہوں گا“ آہ ! آج کوئی عمر نہیں جو غلے کی بوری پیٹھ پر اٹھائے اور نوکر سے کہے کہ“ نہیں! مجھے اٹھانے دو کیونکہ کل اللہ کو جواب بھی میں نے دینا ہے“۔
جمع تفریق کے ماہر ہمارے وزیراعظم آئے روز ٹی وی پر آکر قوم کو خوشخبری سناتے ہیں کہ ہم نے اپنا سارا قرضہ واپس کر دیا ہے اب ہم مزید قرض نہیں لیں گے ہمارے پاس اربوں ،کھربوں کے ذخائر جمع ہو چکے ہیں اب ہم قرضہ لینے کی بجائے دینے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں۔کوئی ان سے پوچھے کہ اللہ کے بندے اگر آپ کے پاس اربوں، کھربوں کے ذخائر ہیں تو کیا وجہ ہے کہ لوگ غربت اور بھوک سے خودکشی پر مجبور ہو رہے ہیں۔
آپ روزمرہ کی اشیا سستی کیوں نہیں کرتے؟
بیروزگاروں کو روزگار فراہم کیوں نہیں کرتے؟
غریبوں کو ان کا حق کیوں نہیں دیتے؟
بھوکوں کے منہ میں نوالہ کیوں نہیں دیتے؟
حساب کتاب کے کھاتوں کے علاوہ یہ ذخائر دکھائی کیوں نہیں دیتے؟
یہ کیسا انصاف ہے کہ کچھ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور کچھ کروڑوں میں کھیل رہے ہیں اگر یہی انصاف ہے تو بے انصافی کے الفاظ اپنی ڈکشنریوں سے کھرچ کر نکال دو کیونکہ ایک انسان بھوک سے نہیں مرا، ایک دیا اور بجھا ہے قوم کی امیدوں کا، ملت کی امنگوں کا، اس ملک کے روشن مستقبل کا۔
اے ناخداؤ ! خدارا اس دیئے کو بجھنے نہ دو، اسے جلائے رکھو، اسے جلتا ہی رہنے دو کیونکہ اندھیرے بڑھ جائیں تو وہ روشنی کو نگل لیتے ہیں۔ لیکن اندھیروں کی قسمت میں دوام نہیں ہوتا، پھر ایک وقت آتا ہے کہ اندھیرا اندھیرے کو کھا جاتا ہے اور پھر انقلاب کا گجر بج اٹھتا ہے اور تازہ دم روشنی کی کرنیں پھوٹ کر بام ودر کو منور کر دیتی ہیں۔
اے حکمرانو !، اے منصوبہ سازو !، اے جمع تفریق کرنے والے ذہنو !، اے منصنفو !، اے مفکرو !، اے دانشورو ! امید کا دیا چلتے رہنے دو، اندھیرے نہ بڑھاؤ ۔۔۔۔۔۔ ورنہ پھر انقلاب کے گجر کا انتظار کرو۔
یہ شخص جس نے خود تو بھوک سے جان چھڑا لی لیکن اس کی بیوی بچے اب تاعمر غربت کی صلیب پر لٹکے رہیں گے، نہ مریں گے نہ جی سکیں گے۔ حیرانگی ہے اس طرز حکمرانی پر جس میں بھوک سے بلکتی رعایا کی چیخیں حکمرانوں کی راتوں کی نیندیں خراب نہیں کر سکتی کہ ان کے وسیع و عریض محلوں میں غریبوں کی آہ و بکا کی آواز ہی نہیں پہنچ سکتی۔
یہ گلا سڑا نظام کب تک چلے گا؟ بھوک سے مرنے والے کب تک خاموشی سے مرتے رہیں گے؟ یہ ظالم لوگ اس دن سے ڈریں جس دن بھوک سے مرنے والوں کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک پہنچیں گے کہ اللہ کی نگری میں دیر ضرور ہے مگر اندھیر نہیں ۔۔۔ لیکن دیر بھی کتنی؟ کیا پتہ کب مشیت اپنا فیصلہ صادر کر دے۔ اس زمیں پر بڑے بڑے طرم خان، قارون، فرعون، ہامان ہو گزرے ہیں جو سمجھتے تھے کہ ان کی خدائی کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا لیکن اللہ جب ان کو سزا دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو کسی موسٰی کو پیدا کر دیتا ہے اور پھر آنکھیں دیکھتی ہیں کہ ظالم اپنے ظلم و ستم کے گہرے سمندروں میں غرق ہو جاتا ہے۔
اے حکمرانو ! اللہ کے انتقام سے ڈرو اس کی مخلوق کو رزق سے محروم نہ کرو، یاد رکھو اللہ کی چکی دیر سے ضرور پیستی ہے لیکن بڑا باریک پیستی ہے۔
اے آج کے حکمرانو ! یاد کرو مدینے کے اس حکمران کو جس نے کہا تھا کہ “دریا دجلہ کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر گیا تو اس کا ذمہ دار میں ہوں گا“ آہ ! آج کوئی عمر نہیں جو غلے کی بوری پیٹھ پر اٹھائے اور نوکر سے کہے کہ“ نہیں! مجھے اٹھانے دو کیونکہ کل اللہ کو جواب بھی میں نے دینا ہے“۔
جمع تفریق کے ماہر ہمارے وزیراعظم آئے روز ٹی وی پر آکر قوم کو خوشخبری سناتے ہیں کہ ہم نے اپنا سارا قرضہ واپس کر دیا ہے اب ہم مزید قرض نہیں لیں گے ہمارے پاس اربوں ،کھربوں کے ذخائر جمع ہو چکے ہیں اب ہم قرضہ لینے کی بجائے دینے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں۔کوئی ان سے پوچھے کہ اللہ کے بندے اگر آپ کے پاس اربوں، کھربوں کے ذخائر ہیں تو کیا وجہ ہے کہ لوگ غربت اور بھوک سے خودکشی پر مجبور ہو رہے ہیں۔
آپ روزمرہ کی اشیا سستی کیوں نہیں کرتے؟
بیروزگاروں کو روزگار فراہم کیوں نہیں کرتے؟
غریبوں کو ان کا حق کیوں نہیں دیتے؟
بھوکوں کے منہ میں نوالہ کیوں نہیں دیتے؟
حساب کتاب کے کھاتوں کے علاوہ یہ ذخائر دکھائی کیوں نہیں دیتے؟
یہ کیسا انصاف ہے کہ کچھ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور کچھ کروڑوں میں کھیل رہے ہیں اگر یہی انصاف ہے تو بے انصافی کے الفاظ اپنی ڈکشنریوں سے کھرچ کر نکال دو کیونکہ ایک انسان بھوک سے نہیں مرا، ایک دیا اور بجھا ہے قوم کی امیدوں کا، ملت کی امنگوں کا، اس ملک کے روشن مستقبل کا۔
اے ناخداؤ ! خدارا اس دیئے کو بجھنے نہ دو، اسے جلائے رکھو، اسے جلتا ہی رہنے دو کیونکہ اندھیرے بڑھ جائیں تو وہ روشنی کو نگل لیتے ہیں۔ لیکن اندھیروں کی قسمت میں دوام نہیں ہوتا، پھر ایک وقت آتا ہے کہ اندھیرا اندھیرے کو کھا جاتا ہے اور پھر انقلاب کا گجر بج اٹھتا ہے اور تازہ دم روشنی کی کرنیں پھوٹ کر بام ودر کو منور کر دیتی ہیں۔
اے حکمرانو !، اے منصوبہ سازو !، اے جمع تفریق کرنے والے ذہنو !، اے منصنفو !، اے مفکرو !، اے دانشورو ! امید کا دیا چلتے رہنے دو، اندھیرے نہ بڑھاؤ ۔۔۔۔۔۔ ورنہ پھر انقلاب کے گجر کا انتظار کرو۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔