17 December, 2005

غالب کے خطوط سے انتخاب

آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے
ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیلِ سحر ، سو خموش ہے
دیکھو مجھے، جو دیدہء عبرت نگاہ ہو
میری سنو، جو گوشِ نصیحت نیوش ہے

میں غریب شاعر دس برس سے تاریخ لکھنے اور شعر کی اصلاح دینے پر متعلق ہوا ہوں۔ خواہ اس کو نوکری سمجھو، خواہی مزدوری جانو، اس فتنہ و آشوب میں کسی مصلحت میں میں نے دخل نہیں دیا۔ صرف اشعار کی خدمت بجالاتا رہا اور نظر اپنی بے گناہی پر، شہر سے نکل نہیں گیا۔ میرا شہر میں ہونا حکام کو معلوم ہے۔ مگر چونکہ میری طرف بادشاہی دفتر میں سے یا مخبروں کے بیان سے کوئی بات نہیں پائی گئی، لہٰذا طلبی نہیں ہوئی، ورنہ جہاں بڑے بڑے جاگیر دار بلائے ہوئے یا پکڑے ہوئے آئے ہیں، میری کیا حقیقت تھی؟ غرض کہ اپنے مکان میں بیٹھا ہوں دروازہ سے باہر نہیں نکل سکتا۔ سوار ہونا اور کہیں جانا تو بہت بڑی بات ہے۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس آوے، شہر میں ہے کون جو آوے؟ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔ مجرم سیاست پاتے جاتے ہیں۔ جرنیلی بندوبست یازدہم مئی سے آج تک یعنی شنبہ پنجم دسمبر 1857ءتک بدستور ہے۔

غدر کے دنوں میں، میں نہ شہر سے نکلا، نہ پکڑ اگیا، نہ میری روبکاری ہوئی۔ جس مکان میں رہتا تھا وہیں بدستور بیٹھا رہا۔ بَلّی ماروں کے محلے میں میراگھر تھا۔ ناگا ہ ایک دن آٹھ سات گورے دیوار پر چڑھ کے اس خاص کوچے میں اُتر آئے، جہاں میں رہتا تھا۔ اس کوچے میں بہ ہمہ جہت پچاس یا ساٹھ آدمی کی بستی ہو گی۔ سب کو گھیر لیا اور ساتھ لے چلے۔ راہ میں سارجن (سارجنٹ) بھی آملا۔ اس نے مجھ سے صاحب سلامت کے بعد پوچھا کہ تم مسلمان ہو؟
میں نے کہا:”آدھامسلمان“
اس نے کہا:”ویل صاحب! آدھا مسلمان کیسا؟“
میں نے کہا:”شراب پیتا ہوں، ہیم (خوک)نہیں کھاتا۔ “

اہل اسلام میںصرف تین آدمی باقی ہیں: میرٹھ میں مصطفی خان، سلطان جی میں مولوی صدر الدین خاں، بَلّی ماروں میں سگِ دنیا موسوم بہ اسد، تینوں مردود و مطرود، محروم و مغموم:
توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو پھر ہم کو کیا
آسمان سے بادہء گلفام گو برسا کرے

میں دنیا داری کے لباس میں فقیری کر رہاہوں، لیکن فقیر آزاد ہوں، نہ شیّاد، نہ کیّاد۔ ستر برس کی عمر ہے، بے مبالغہ کہتا ہوں، ستر ہزار آدمی نظر سے گزرے ہوں گے زمرہء خاص میں سے، عوام کا شمار نہیں .... میں آدمی نہیں آدم شناس ہوں:
نگہم نقب ہمے زد بہ نہاں خانہء دل
مژدہء باد اہلِ ریا را کہ زمیداں رفتم

میں عربی کا عالم نہیں مگر نرا جاہل بھی نہیں، بس اتنی بات ہے کہ اس زبان کے لغات کا محقق نہیں ہوں، علما سے پوچھنے کا محتاج اور سند کا طلب گار رہتا ہوں۔ فارسی میں مبداء فیاض سے مجھے وہ دست گاہ ملی ہے اور اس زبان کے قواعد و ضوابط میرے ضمیر میں اس طرح جاگزیں ہیں، جیسے فولاد میں جوہر۔ اہل پارس میں اور مجھ میں دو طرح کے تفاوت ہیں: ایک تو یہ کہ ان کا مولد ایران اور میرا مولد ہندوستان، دوسرے یہ کہ وہ لوگ آگے پیچھے، سو دو سو، چار سو، آٹھ سو برس پہلے پیدا ہوئے۔

وہ روش ہندوستانی فارسی لکھنے والوں کی مجھ کو نہیں آتی کہ بالکل بھاٹوں کی طرح بکنا شروع کریں۔ میرے قصیدے دیکھو، تشبیب کے شعر بہت پاؤ گے اور مدح کے شعر کم تر۔ نوب مصطفی خاں کے تذکرے کی تقریظ کو ملاحظہ کرو کہ ان کی مدح کتنی ہے، مرزا رحیم الدین بہادر حیا تخلص کے دیوان کے دیباچہ کو دیکھو۔ وہ جو تقریظ دیوانِ حافظ، موجب فرمایش جان جا کوب بہادر کے لکھی ہے، اس کو دیکھو کہ فقط ایک بیت میں ان کا نام اور ان کی مدح آئی ہے .... اس سے زیادہ بھٹئی میری روش نہیں۔

پچاس برس سے دلّی میں رہتا ہوں۔ ہزارہا خط اطراف و جوانب سے آتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ محلہ ء سابق کا نام لکھ دیتے ہیں۔ حکام کے خطوط فارسی و انگریزی، یہاں تک کہ ولایت کے آئے ہوئے، صرف شہر کا نام اور میرا نام.... اگر میں تمہارے نزدیک امیر نہیں، نہ سہی، اہل حرفہ میں سے بھی نہیں ہوں کہ جب تک محلہ اور تھانہ نہ لکھا جائے، ہر کارہ میرا پتہ نہ پائے۔ آپ صرف دہلی لکھ کر میرا نام لکھ دیا کیجیے، خط پہنچنے کا میں ضامن۔

ایک لطیفہ نشاط انگیز سُنیے! ڈاک کا ہرکارہ جو بَلّی ماروں کے خطوط پہنچاتا ہے، ان دنوں میں ایک بنیا پڑھا لکھا، حرف شناس، کوئی فلاں ناتھ، ڈھمک داس ہے۔ میں بالا خانہ میں رہتا ہوں، حویلی میں آکر اس نے داروغہ کو خط دے کر مجھ سے کہا کہ ڈاک کا ہرکارہ بندگی عرض کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مبارک ہو، آپ کو جیسا کہ دلی کے بادشاہ نے ”نوابی“ کا خطاب دیا تھا، اب کالپی سے خطاب کپتانی کا ملا، حیران کہ یہ کیا کہتا ہے؟ سرنامہ غور سے دیکھا، کہیں قبل ازاسم” مخدوم نیاز کیشاں“لکھا تھا۔ اس قرمساق نے اور الفاظ سے قطع نظر کر کے ”کیشاں“ کو ”کپتان “پڑھا۔

سچ تو یہ ہے کہ .... مولانا غالب علیہ الرحمہ ان دنوں میں بہت خوش ہیں۔ پچاس ساتھ جزو کی کتاب امیر حمزہ کی داستان کی اور اسی قدر حجم کی ایک جلد بوستان خیال کی آ گئی۔ سترہ بوتلیں بادء ناب کی توشک خانہ میں موجوود ہیں، دن بھر کتاب دیکھا کرتے ہیں، رات بھر شراب پیا کرتے ہیں:
کسے کیں مرادش میسر بود
اگر جم نہ باشد سکندر بود

سنو صاحب! شعرا میں فردوسی اور فقرا میں حسن بصری اور عشاق میں مجنوں، یہ تین آدمی تین فن میں سرِ دفتر اور پیشوا ہیں۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ فردوسی ہو جائے، فقیر کی انتہا یہ ہے کہ حسن بصری سے ٹکر کھائے، عاشق کی نمود یہ ہے کہ مجنوں کی ہم طرحی نصیب ہو.... بھئی”مغل بچے“ بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں، اس کو مار رکھتے ہیں۔ میں بھی ”مغل بچہ“ ہوں۔ عمر بھر میں ایک بڑی ستم پیشہ ڈومنی کو میں نے بھی مار رکھا ہے.... پچاس برس عالم رنگ و بو کی سیر کی۔ ابتدائے شباب میں ایک مرشد کامل نے ہم کو یہ نصیحت کی کہ ہم کو زہد و ورع منظور نہیں، ہم مانع فسق و فجور نہیں، پیو، کھاؤ، مزے اُڑاؤ، مگر یاد رہے کہ مصری کی مکھی بنو، شہد کی مکھی نہ بنو، میرا اس نصیحت پر عمل رہا ہے۔ کسی کے مرنے کے وہ غم کرے جو آپ نہ مرے، کیسی اشک افشانی؟ کہاں کی مرثیہ خوانی؟.... میں جب بہشت کا تصور کرتا ہوں اورسوچتا ہوں کہ اگر مغفرت ہو گئی اور ایک قصر ملا اور ایک حور ملی۔ اقامت جاودانی ہے اور اسی ایک نیک بخت کے ساتھ زندگانی ہے۔ اس تصور سے جی گھبراتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہے ہے وہ حور اجیرن ہو جائے گی، طبیعت کیوں نہ گھبرائے گی؟ وہی زمردیں کاخ اور وہی طوبیٰ کی ایک شاخ! چشم بددور، وہی ایک حور۔

بائیس مہینے کے بعد پرسوں کوتوال کا حکم آیا ہے کہ اسد اللہ خاں پنسن دار کی کیفیت لکھو کہ وہ بے مقدور اور محتاج ہے یا نہیں۔ کوتوال نے موافق ضابطے کے مجھ سے چار گواہ مانگے.... سو .... خزانے سے روپیہ آگیا ہے۔ میں نے آنکھ سے دیکھا تو آنکھیں پھوٹیں۔ بات رہ گئی، پت رہ گئی۔ حاسدوں کو موت آ گئی، دوست شاد ہو گئے۔ میں جیسا ننگا بھوکا ہوں، جب تک جیوں گا، ایسا ہی رہوں گا، میرا دارو گیر سے بچنا کرامت اسد اللہی ہے، ان پیسوں کا ہاتھ آنا عطیہ ید اللہی ہے۔

میں موحدِ خالص اور مومنِ کامل ہوں۔ زبان سے لا الہ الا اللہ کہتا ہوں اور دل میں لا موجود الا اللہ، لا موثر فی الوجود الا اللہ سمجھے ہوا ہوں.... ہاں اتنی بات اور ہے کہ اباحت اور زندقہ کو مردود اور شراب کو حرام اور اپنے آپ کو عاصی سمجھتا ہوں۔ اگر مجھ کو دوزخ میں ڈالیں گے تو میرا جلانا مقصود نہ ہو گا، بلکہ دوزخ کا ایندھن ہوں گا اور دوزخ کی آنچ کو تیز کروں گا تاکہ مشرکین و منکرین نبوتِ مصطفوی و امامت مرتضوی اس میں جلیں۔
بادشاہ سے کیا عجب ہے کہ دو برس کی تنخواہ دے کر مجھ کو خانہ ء خدا کے طواف کی رخصت دیں کہ یہ گنہ گار وہاں جاوے اور اگر زیست ہے تو وہاں جا کر اور اپنے ستاون برس کے گناہ کہ جس میں سوائے شرک کے سب کچھ ہے، بخشوا کر پھر آوے۔

نہ ہٹ دھرم ہوں، نہ مجھے اپنی بات کی پچ ہے .... علم و ہنر سے عاری ہوں، لیکن پچپن برس سے محوِ سخن گزاری ہوں، مبداءفیاض کا مجھ پر احسانِ عظیم ہے، ماخذ میرا صحیح اور طبع میری سلیم ہے۔ فارسی کے ساتھ ایک مناسبتِ ازلی و سرمدی لایا ہوں، مطابق اہل پارس کے منطق کا۔ بھی مزا ابدی لایا ہوں۔ مناسبتِ خداداد، تربیت استاد سے حسن و قبح ترکیب پہچاننے لگا، فارسی کے غوامض جاننے لگا۔

وبا کو کیا پوچھتے ہو؟ قدر اندازِ قضا کے ترکش میں یہ بھی ایک تیر باقی تھا۔ قتل ایسا عام، لوٹ ایسی سخت، کال ایسا بڑا، وبا کیوں نہ ہو؟ ”لسان الغیب“ نے دس برس پہلے فرمایا تھا:
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگِ ناگہانی اور ہے

میاں1277ھ کی بات غلط نہ تھی۔ میں نے وبائے عام میں مرنا اپنے لائق نہ سمجھا، اقعی اس میں میری کسرِ شان تھی۔ بعد رفعِ فساد ہوا سمجھ لیا جائے گا۔

دو تین مہینے میں لوٹ پوٹ کر اچھا ہو گیا۔ نئے سرے سے روح قالب میں آئی۔ اجل نے میری سخت جانی کی قسم کھائی۔ اب اگرچہ تندرست ہوں لیکن ناتواں و سُست ہوں۔ حواس کھو بیٹھا، حافظے کو رو بیٹھا۔ اگر اُٹھتا ہوں تو اتنی دیر میں اُٹھتا ہوں کہ جتنی دیر میں قدِ آدم دیوار اُٹھے۔

ناتوانی زور پر ہے، بڑھاپے نے نکما کر دیا ہے، ضعف، سستی، کاہلی، گرانجانی، گرانی۔ رکاب میں پاؤں ہے، باگ پر ہاتھ ہے، بڑا سفر دور و دراز در پیش ہے، زادِ راہ موجود نہیں، خالی ہاتھ جاتا ہوں۔ اگر ناپرسیدہ بخش دیا تو خیر، اگر باز پر س ہوئی تو سقر مقر ہے اور ہاویہ زاویہ ہے، دوزخِ جاوید ہے اور ہم ہیں۔ ہائے کسی کا کیا اچھا شعرہے:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

میں زندہ ہوں لیکن نیم مردہ۔ آٹھ پہر پڑا رہتا ہوں۔ اصل صاحب فراش میں ہوں۔ بیس دن سے پانو پر ورم ہو گیا ہے۔ کفِ پاوپشت پاسے نوبت گزر کر پنڈلی تک آماس ہے، جوتے میں پاؤں سماتا نہیں۔ بول و بزار کے واسطے اُٹھنا دشوار۔ یہ سب باتیں ایک طرف، درد محللِ روح ہے۔ 1277ءمیں میرا نہ مرنا، صرف میری تکذیب کے واسطے تھا، مگر اس تین برس میں ہر روز مرگِ نو کامزا چکھتا رہا ہوں۔ حیران ہوں کہ کوئی صورت زیست کی نہیں، پھر میں کیوں جیتا ہوں؟ روح میری اب جسم میں اس طرح گھبراتی ہے، جس طرح طائر قفس میں۔ کوئی شغل، کوئی اختلاط، کوئی جلسہ، کوئی مجمع پسند نہیں۔ کتاب سے نفرت، شعر سے نفرت، جسم سے نفرت، روح سے نفرت۔

سچ تو یوں ہے کہ غالب کیا مرا، بڑا کافر مرا۔ ہم نے ازراہِ تعظیم، جیسا بادشاہوں کو مرنے کے بعد جنت آرام گاہ، عرش نشیمن خطاب دیتے ہیں، چونکہ یہ اپنے آپ کو شہنشاہِ قلمروِ سخن جانتا تھا، ”سقر مقر“ اور ”زاویہ ہاویہ“ خطاب تجویز کر رکھا ہے۔ ”آئیے نجم الدولہ بہادر“ ایک قرض دار کا گریبان میں ہاتھ، ایک قرض دار بھوگ سنا رہا ہے۔ میں ان سے پوچھ رہا ہوں:

”اجی حضرت نواب صاحب!
نواب صاحب کیسے اوغلان صاحب!
آپ سلجوقی وافراسیابی ہیں، یہ کیا بے حرمتی ہو رہی ہے؟ کچھ تو بولو، کچھ تو اُکسو۔ “
بولے کیا ؟ بے حیا، بے غیرت، کوٹھی سے شراب، گندھی سے گلاب، بزاز سے کپڑا، میوہ فروش سے آم، صراف سے دام قرض لیا جاتا تھا۔ یہ بھی تو سونچا ہوتا کہ کہاں سے دوں گا؟

بہت جلد غالب کی چند مشہور غزلیں سرائیکی ترجمے کے ساتھ پیش کی جائیں گی پڑھنا نہ بھولئے گا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب