07 January, 2006

شیطان کے شیرے سے بچیں

جن باتوں پر مجھے کامل یقین ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھاری اکثریت میں ہیں جو امن و چین سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں، جو جنگ سے نفرت کرتے ہیں اور ہوس ملک گیری کی لعنت سے پاک ہیں لیکن پھر میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ دنیا میں امن پسندوں کی اتنی بھاری اکثریت کے باوجود جنگ کیوں ہوتی ہے۔
دوسری بات جس پر مجھے پختہ یقین ہے وہ یہ کہ ایک ملک کی فوج دوسرے ملک کی فوج کو شکست دے سکتی ہے یا اس سے شکست کھا سکتی ہے لیکن کسی ملک کے عوام اگر اٹھ کھڑے ہوں تو دنیا کی طاقتور سے طاقتور فوج ان کو شکست نہیں دے سکتی۔ لیکن پھر میری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ مقتدر اور بااختیار لوگ عوام کی مرضی کے خلاف یا ان کی مرضی حاصل کیے بغیر اقدامات کیوں کرتے ہیں۔
کبھی بچپن میں میں نے یہ حکایت سنی تھی یا پڑھی تھی کہ شیطان نے کسی حلوائی کی دکان سے انگلی میں ذرا سا شیرہ اٹھا کر دیوار پر چپکا دیا ۔اس پر ایک مکھی بیٹھ گئی۔ وہیں کہیں کوئی بلی بیٹھی تھی اس نے مکھی پر ایک جھپٹا مارا، بلی کو جھپٹتے دیکھ کر قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک کتے نے بلی پر چھلانگ لگادی حلوائی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور کتے کی کمر پر ایک ڈنڈا جڑدیا، کتے کی’ کیں کیں‘ سن کر اس کا مالک آگیا اور حلوائی سے اس کی تو تو میں میں شروع ہوگئی اور بات یہاں تک بڑھی کہ دونوں طرف سے ڈنڈے اور بلم اور بھالے نکل آئے، دو چار لاشیں گرگئیں اور دیکھتے دیکھتے اس فساد نے پورے شہر کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔
شیطان کا کہنا تھا کہ اس نے تو صرف دیوار پر ایک ذرا سا شیرہ لگایا تھا۔
آپ دنیا کی بڑی سے بڑی جنگ یا سیاسی تنازعات کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس کا کوئی جواز نہیں تھا ماسوائے اس کے کہ شیطان نے کسی معمولی سے واقعہ کی یا ایک معمولی سے مطالبے کی شکل میں کہیں پر ایک ذرا سا شیرہ لگا دیا تھا۔
بھارت کو ہی لے لیجئے اگر اکثریتی برادری یا جماعت مسلمانوں کے خدشات کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتی تو عین ممکن ہے جناح صاحب ہندو مسلم اتحاد کے پیغمبر کے لقب سے ہی یاد کیے جاتے، پاکستان کا بانی بننے کی نوبت نہیں آتی۔
اسی طرح اگر پاکستان کے حکمراں بنگلہ زبان کو قومی زبان بنانے کے مطالبے کو پہلے ہی تسلیم کر لیتے یا اگر 1970کے عام انتخابات کے بعد عوامی لیگ کو حکومت بنانے کی دعوت دے دیتے تو شاید 1971 میں نہ اتنا خون خرابا ہوتا نہ بنگلہ دیش بنتا۔
اگر ایک یونٹ کی لعنت نہ مسلط کی جاتی اور قراردار پاکستان کے مطابق ملک کے تمام صوبوں کو داخلی خودمختاری دے دی جاتی تو آج جو کچھ بلوچستان میں ہورہا ہے وہ شاید نہیں ہوتا۔ یہی نہیں میں تو کہتا ہوں کہ اگر عراق پر وسیع تباہی والے ہتھیار رکھنے سے متعلق اطلاع کی صدر بش اور وزیراعظم ٹونی بلیئر صحیح طریقے سے جانچ پڑتال کرلیتے تو نہ اتنے بےگناہ امریکی مارے جاتے نہ اتنے بےگناہ عراقی ۔
اسی طرح اگر اسرائیلی اوران کے سرپرست اپنی ایک علیحٰدہ ریاست بنانے کے بجائے فلسطینیوں کے ساتھ ملکر رہتے تو زیادہ محفوظ اور کامیاب ریاست تشکیل دے سکتے تھے اور خودکش حملوں کا ڈر بھی نہیں رہتا۔
مجھے کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ دنیا میں جہاں جو بھی گڑ بڑ ہے اس کے پیچھے وہ شیطان کی ایک بڑی ہی معمولی اور بظاہر بہت ہی معصوم سی شرارت ہوتی ہے اگر اس کو فوری طور پر پکڑ لیا جائے یا تلاش کرلیا جائے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچے جہاں عام طور پر پہنچ جاتی ہے۔
اب کشمیر کو ہی لے لیجئے، بھارت اور پاکستان اورخود کشمیر کے عوام، دانشور، سیاستداں اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں اور اسطرح حل کرنا چاہتے ہیں کہ ہر فریق مطمئن ہوجائے لیکن کہیں کوئی شیطان بیٹھا کوئی ایسی حرکت کردیتا ہے جو بات بنتے بنتے بگڑ جاتی ہے۔
پاکستان کے صدر پرویز مشرف ٹھیک ٹھاک جارہے تھے انہوں نے اپنی مدد کے لیے ایک سیاسی جماعت بھی تشکیل دے لی تھی جو ان کی وردی اور صدارت دونوں کی محافظ تصور کی جارہی تھی کہ اچانک کسی نے کالا باغ کا شیرا کہیں کسی دیوار پر لگا دیا اور دیکھتے دیکھتے حکمراں اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا اوراگرچہ صدر پرویز اب بھی بہت مضبوط ہیں لیکن شاید اتنے نہیں کہ آرام سے کالا باغ ڈیم بنالیں۔
ادھر بلوچستان میں بھی یہی ہوا چودھری شجاعت اور مشاہد حسین سید کی کوششوں سے صورتحال میں بہتری آتی دکھائی دے رہی تھی کہ اچانک کسی کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ اس نے صدر صاحب کے ایک جلسے کے قریب راکٹ داغ دیے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس شرارت کے ذمہ دار افراد کو پکڑا جاتا، عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں انہیں قرارواقعی سزا دی جاتی۔ لیکن صدر صاحب کے حلقہ بگوشوں میں کوئی ایسا ہوگا جس نے اپنے آپ کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت کرنے کے چکر میں ملزمان کو پکڑنے کے بجائے پورے علاقے میں فوجی کارروائی کا مشورہ دیدیا یا ازخودشروع کردی، جو تادم تحریر جاری ہے۔
اخباری اطلاع سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس شرانگیزی کے ذمہ دار تو شاید اب تک نہیں پکڑے جاسکے لیکن بچوں اور عورتوں سمیت کچھ معصوم لوگ مارے گئے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو شاید اور مارے جائیں۔
مجھے یقین ہے کہ نہ صدر پرویز مشرف یہ چاہتے ہیں نہ بلوچ عوام لیکن کوئی شیطان کہیں دیوار پر شیرہ لگا کر بیٹھا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ ہم سب کو عراق میں ہو یا ایران میں، فلسطین میں ہو یا کشمیر میں، وانا میں ہو یا کوہلو میں اپنے درمیان بیٹھے ہوئے شیطانوں کو پکڑنا چاہیے تاکہ عام لوگ، معصوم لوگ ان کے لگائے ہوئے شیرے کے نتیجے میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہ ہوں۔
علی احمد خان۔بی بی سی اردو

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب