28 January, 2006

سیکورٹی کیمرے اور قانون

پاکستان سے خبر آئی ہے کہ ملتان میں سیکورٹی کیمرے لگائے جا رہے ہیں جو ایک کنٹرول روم سے منسلک ہوں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس نظام سے ٹریفک منیجمنٹ بہتر ہو گی اور جرائم پر بھی قابو پایا جائے گا۔ یہ سب بجا مگر میرا نہیں خیال کہ صرف سیکورٹی کیمرے ٹریفک میں ترتیب پیدا کر سکتے ہیں یا مجرموں کا ہاتھ روک سکتے ہیں کیونکہ دنیا میں جرم، غلطی اور زیادتی کو صرف اور صرف قانون کا مضبوط نظام ہی روک سکتا ہے۔ یہ قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوتے ہیں جو پچھلی رات کے سناٹے میں چور، ڈاکو اور کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکٹے ہیں۔ دسمبر٢٠٠١ء میں الحمداللہ مجھے زیارت نبوی صلی علیہ وسلم کا شرف حاصل ہوا، جدہ میں قیام کے دوران ایک رات میں دو بجے کے قریب سفر کر رہا تھا میرے دوست نے اچانک ایک سنسان سڑک پر گاڑی روک لی، میں نے وجہ پوچھی تو اس نے سامنے انگلی لہرا کا جواب دیا ‘سگنل سرخ ہے‘ میں نے کہا ‘مگر سڑک تو سنسان ہے اس وقت تو کوئی بھی گاڑی آ جا نہیں رہی‘ اس نے قہقہہ لگایا اور کہا یہ پاکستان نہیں ہے میرے دوست! اگر کسی نے مجھے اشارہ توڑتے ہوئے دیکھ لیا تو پھر مجھے کوئی طاقت نہیں بچا سکے گی‘۔ یہ ہے قانون اور قانون کا خوف۔ اس وقت میں دبئی میں ہوں یہاں مجھے کسی سڑک پر پولیس نظر آئی اور نہ ہی کیمرہ لیکن پورے شہر میں امن ہے، ٹریفک ایک نظام کے تحت رواں دواں ہے، ساری دکانیں اور شاپنگ سنٹر کھلے ہوئے ہیں مگر کسی دکان یا شاپنگ سنٹر کے باہر مجھے کوئی گارڈ وغیرہ نظر نہیں آیا، میں نے اپنے کزن سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ ‘پوری ریاست میں قانون کی حکمرانی ہے، تمام لوگ جانتے ہیں کہ ذرا بھی گڑبڑ ہوئی تو چند لمحوں میں پولیس پہنچ جائے گی، مجرم فوراّ پکڑا جائے گا، پورے دوبئی میں کوئی شخص مجرم کو نہیں بچا سکتا رہی بات ٹریفک کی تو یہاں ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کا تصور تک محال ہے۔ اول تو کوئی رولز کی خلاف ورزی کرتا نہیں اگر کوئی کر بیٹھے تو تو بچ نہیں سکتا‘۔ یہ ہے قانون اور قانون کا خوف۔ اس کے مقابلے میں اگر ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو پاکستان میں قانون نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر کہیں قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے نظر بھی آتے ہیں تو ان کا صرف ایک ہی مقصد نظر آتا ہے اس ملک کے حکمران طبقے کی جان، مال اور انا کی حفاظت۔ ذرا سوچئے جس ملک کی قانونی مشینری دن رات حکمرانوں کے جائز کاموں کو جائز بنانے میں لگی ہو اس مشینری کے پاس عام آدمی کے لئے کہاں وقت ہو گا۔ جس ملک کی عدالتوں میں دادے کے مقدمے کی پیروی پوتا کر رہا ہو، جس کے ہر جج کے پاس ڈیڑھ سو مقدمے ہوں اور وہ ان میں سے صرف پانچ مقدمے سنے اور باقی ایک سو پنتالیس کو اگلی تاریخ دے دے۔ جس ملک میں قاتل، پولیس اور ڈاکو عدالتی نظام میں سرمایہ کاری کرتے ہوں۔ جس ملک میں ہر غریب، ہر مظلوم پولیس سٹیشن جانے کی بجائے ظالم کے پاس چلا جاتا ہوں اور اس سے اپنی زندگی کی بھیک مانگتا ہو ۔ جس ملک کے سیانے مظلوم کو عدالت جانے کی بجائے آپس میں مک مکا کا مشورہ دیتے ہوں آپ اس ملک میں کیمروں کے ذریعے جرم روکنا چاہتے ہیں۔ کیمرے کیا کریں گے؟ زیادی سے زیادہ مجرم کی تصویر بنائیں گے اور عدالت میں ثبوت پیش کر دیئے جائیں گے مگر پھر کیا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں وہ تمام مجرم کیفرکردار تک پہنچ جاتے ہیں جن کے خلاف ثبوت اور گوائیاں موجود ہوتی ہیں۔ اس ملک میں ثبوت اور گوائیاں کافی نہیں سمجھی جاتی۔ صرف صدر پرویز مشرف پر حملہ کرنے والے کو سزائے موت دینا قانون کی حکمرانی یا انصاف نہیں۔ انصاف وہ ہوتا جس کا حصول عام آدمی کے لئے بہت آسان ہو، معاشرے میں کیمروں کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی درکار ہوتی ہے، لیکن ہم قانون کی حکمرانی پر توجہ دینے کی بجائے صرف کیمرے لگا رہے ہیں، کمال ہے ہم کاغذ کی کشتی کو ٹائیٹینک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں یا شاید ہم پیچھے کی طرف دوڑ کر ترقی کرنا چاہتے ہیں۔

1 comments:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

آپ نے بیس جنوری کو دبئی جانا تھا تو گویا اب آپ دبئی میں ہیں ۔ وہاں کا نظام آپ نے دیکھ لیا ہو گا ۔ میں نے جرمنی ۔ بیلجیئم ۔ ہالینڈ ۔ ترکی ۔ برطانیہ ۔ امریکہ ۔ لبیا۔ یو اے ای اور سعودی عرب میں ٹریفک کا نظام دیکھا ہے ۔ سب جگہ نہ صرف قانون بلکہ انسان کا بھی احترام کیا جاتا ہے ۔ ہمارے ملک میں دونوں کا بُرا حال ہے ۔ جس ملک میں ملک کے آئین کا کوئی احترام نہیں وہاں اور کس چیز کا احترام ہو گا ؟

2/04/2006 07:20:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب