وہاج دا انت
سرائیکی وسیب میں موجود ہندوؤں کو ‘کراڑ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ عموما نجی ساہو کاری سے وابستہ رہے ہیں اور اس حوالے سے کئی لوک کہانیاں وجود میں آئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ہندوؤں نے پنچائت بلائی اور آپس میں مشورہ کیا کہ مسلمان مسجدیں بنا رہے ہیں اس لئے ہمیں بھی پوجا کے لئے ایک مندر تعمیر کرنا چاہیے۔ پس انہوں نے مندر بنایا اور اکھٹے ہو کر پوجا کرنے اور بھجن گانے لگے؛
“دیوا تارن آیا، سنو میڈے سادھو!
دیوا تارن آیا او بھائی راما!
دیوا تارن آئے“
( مولا ہمیں ترقی اور خوشحالی دینے آیا ہے بھائیو! سن لو ہمیں ترقی دینے آیا ہے۔ بھائی رام! مولا ہمیں ترقی دینے آیا ہے)
ایک دن مندر میں وہ یہی بھجن گا رہے تھے کہ انہیں خبر ہوئی کہ دور دراز سے کوئی بڑا بیوپاری آیا ہے۔ وہ اپنی پوجا چھوڑ کر فورا باہر آئے اور بیوپاری سے دھڑادھڑ بھاری بھر قیمت والی اشیاء خریدنے لگے۔ جب انہوں نے خریداری مکمل کر لی تو اچانک انہیں اطلاع ملی کہ ان کی خرید کردہ اشیاء کی قیمت گر گئی ہے۔ اس پر سب لوگ اپنا سر پیٹ کر رہے گئے۔ دوبارہ مندر میں گئے اور اپنے گلے میں اجتجاجا پٹہ ڈال کر دیوتا کے آگے یہ بھجن گانے لگے؛
“دیوا گالن آئے، او بھائی سادھو!
دیوا گالن آئے“
( مولا ہمیں برباد کرنے آیا ہے، بھائیو! مولا ہمیں برباد کرنے آیا ہے)
اس بیوپار سے نقصان اٹھانے کے فورا بعد انہیں کسانوں کا لین دین یاد آ گیا۔ اپنا نقصان پورا کرنے کے لئے انہوں نے ایک کسان کو پکڑ لیا اور اسے کہنے لگے؛
“ سن بیلی! ٹکا تیل والا تے ٹکے دا تیل، آناں دال والا تے آنے دی دال“
( سنو بھائی! ایک ٹکا تیل والا اور ایک ٹکے کا تیل، ایک ٹکا دال کا اور ایک ٹکے کی دال)
اس طرح انہوں نے حساب دوگنا کر دیا اور دیگر اشیاء جو کسان نے ان سے خریدی تھیں کی قیمت بتانے لگے کہ دو آنے کا صابن اور دو آنے صابن کے، ٹکے کا مشک اور ٹکا مشک والا، ایک پیسے کی ملتانی مٹی اور ایک پیسہ ملتانی مٹی والا، بارہ آنے کا دوپٹہ اور بارہ آنے دوپٹے کے، آٹھ آنے کی قمیص اور آٹھ آنے قمیص کے، ڈیڑھ روپے کی پگڑی اور ڈیڑھ روپے پگڑی والے، روپے کا کرتا اور روپیہ کرتے کا وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح وہ اس کسان کو سارا ادھار بتلا کر کہنے لگے کہ تمھارے ذمے ٢٩ روپے رقم اور ساڑھے تین من غلہ ہے، سو اب سود سمیت تم ٧٠ روپے رقم اور پانچ من غلہ دو گے۔ اس کے بعد انہوں نے کسان اس ادھار کا اسٹامپ بھی لکھوا لیا۔ جب فصل اٹھانے کا وقت آیا تو کسان کی ساری فصل وہ اپنے گدھوں پر لاد کر گھر لے گئے اور جاتے ہوئے اس کہہ گئے ؛
“ آویں تے حساب سمجھ ونجیں“
( گھر آ جانا اور حساب سمجھ لینا)
جب کسان ادھار سے متعلق ان کو دی ہوئی اپنی فصل کی پیداوار کا حساب سمجھنے کے لئے ان کے گھر گیا تو انہوں نے گزشتہ اور موجودہ دو فصلوں کا حساب ملا کر ٥٠ روپے رقم اور بارہ من غلہ مزید کسان کے کھاتے میں لکھ کر اسے خالی ہاتھ واپس بھیج دیا۔
ایف ڈبلیو سکیمپ کی لاطینی رسم الخط میں لکھی گئی سرائیکی کتاب ‘ ملتانی سٹوریز‘ سے انتخاب
“دیوا تارن آیا، سنو میڈے سادھو!
دیوا تارن آیا او بھائی راما!
دیوا تارن آئے“
( مولا ہمیں ترقی اور خوشحالی دینے آیا ہے بھائیو! سن لو ہمیں ترقی دینے آیا ہے۔ بھائی رام! مولا ہمیں ترقی دینے آیا ہے)
ایک دن مندر میں وہ یہی بھجن گا رہے تھے کہ انہیں خبر ہوئی کہ دور دراز سے کوئی بڑا بیوپاری آیا ہے۔ وہ اپنی پوجا چھوڑ کر فورا باہر آئے اور بیوپاری سے دھڑادھڑ بھاری بھر قیمت والی اشیاء خریدنے لگے۔ جب انہوں نے خریداری مکمل کر لی تو اچانک انہیں اطلاع ملی کہ ان کی خرید کردہ اشیاء کی قیمت گر گئی ہے۔ اس پر سب لوگ اپنا سر پیٹ کر رہے گئے۔ دوبارہ مندر میں گئے اور اپنے گلے میں اجتجاجا پٹہ ڈال کر دیوتا کے آگے یہ بھجن گانے لگے؛
“دیوا گالن آئے، او بھائی سادھو!
دیوا گالن آئے“
( مولا ہمیں برباد کرنے آیا ہے، بھائیو! مولا ہمیں برباد کرنے آیا ہے)
اس بیوپار سے نقصان اٹھانے کے فورا بعد انہیں کسانوں کا لین دین یاد آ گیا۔ اپنا نقصان پورا کرنے کے لئے انہوں نے ایک کسان کو پکڑ لیا اور اسے کہنے لگے؛
“ سن بیلی! ٹکا تیل والا تے ٹکے دا تیل، آناں دال والا تے آنے دی دال“
( سنو بھائی! ایک ٹکا تیل والا اور ایک ٹکے کا تیل، ایک ٹکا دال کا اور ایک ٹکے کی دال)
اس طرح انہوں نے حساب دوگنا کر دیا اور دیگر اشیاء جو کسان نے ان سے خریدی تھیں کی قیمت بتانے لگے کہ دو آنے کا صابن اور دو آنے صابن کے، ٹکے کا مشک اور ٹکا مشک والا، ایک پیسے کی ملتانی مٹی اور ایک پیسہ ملتانی مٹی والا، بارہ آنے کا دوپٹہ اور بارہ آنے دوپٹے کے، آٹھ آنے کی قمیص اور آٹھ آنے قمیص کے، ڈیڑھ روپے کی پگڑی اور ڈیڑھ روپے پگڑی والے، روپے کا کرتا اور روپیہ کرتے کا وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح وہ اس کسان کو سارا ادھار بتلا کر کہنے لگے کہ تمھارے ذمے ٢٩ روپے رقم اور ساڑھے تین من غلہ ہے، سو اب سود سمیت تم ٧٠ روپے رقم اور پانچ من غلہ دو گے۔ اس کے بعد انہوں نے کسان اس ادھار کا اسٹامپ بھی لکھوا لیا۔ جب فصل اٹھانے کا وقت آیا تو کسان کی ساری فصل وہ اپنے گدھوں پر لاد کر گھر لے گئے اور جاتے ہوئے اس کہہ گئے ؛
“ آویں تے حساب سمجھ ونجیں“
( گھر آ جانا اور حساب سمجھ لینا)
جب کسان ادھار سے متعلق ان کو دی ہوئی اپنی فصل کی پیداوار کا حساب سمجھنے کے لئے ان کے گھر گیا تو انہوں نے گزشتہ اور موجودہ دو فصلوں کا حساب ملا کر ٥٠ روپے رقم اور بارہ من غلہ مزید کسان کے کھاتے میں لکھ کر اسے خالی ہاتھ واپس بھیج دیا۔
ایف ڈبلیو سکیمپ کی لاطینی رسم الخط میں لکھی گئی سرائیکی کتاب ‘ ملتانی سٹوریز‘ سے انتخاب
2 comments:
سلام منیر صاحب
5/21/2006 01:38:00 AMآپ کی یہ تازہ تحریر بہت ہی اچھی لگی۔ کیاخوب لکھتے ہیں آپ، اور وہ آپ نے ”ایک آنہ تیل کا اور ایک آنے کا تیل” والی قدیم اور مشہور گردان کا خوب استعمال کیا ہے۔ یہ قصہ ہمارے ایک بابا جی سنایا کرتے تھے مگر انکی گردان کچھ طویل ہواکرتی تھی ” ایک آنہ تیل کا، ایک آنہ تیل والے کا اور ایک آنے کا تیل اور پھر تین آنے پر بیاج”۔
آپ کا لکھا اللہ کرے وہ بھی پڑھيں جو کہتے ہيں ہندو اُن کے بھائی ہيں
5/21/2006 02:39:00 PMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔