04 October, 2006

مشرف کا مضحکہ خیز دعویٰ


پاکستان کے اسیر سائنسداں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی بیٹی نے صدر مشرف کی خود نوشت میں کیئے جانے والے دعوں پر تنقید کی ہے۔
یہ پہلا بیان ہے جو انہوں نے 2004 میں اپنے والد کی گرفتاری کے بعد جاری کیا ہے اور دینا خان کا کہنا ہے کہ وہ یہ بیان ریکارڈ کی درستی کے لیئے جاری کر رہی ہیں۔
اس بیان پر حکومتی رد عمل معلوم کرنے کے لیئے اسلام آباد میں وزیر مملکت برائے اطلاعات سینیٹر طارق عظیم سے جب رابط کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس پر صدر مشرف ہی بہتر انداز میں بیان دے سکتے ہیں۔
دینا کا کہنا ہے کہ یہ کہا جانا کے ان کے والد نے انہیں پاکستان کے ایٹمی راز افشا کرنے کے لیئے کہا تھا ایک ’لغو و مضحکہ‘ خیز بات ہے۔
ڈاکٹر خان کو ان کے اس اعتراف کے بعد ان کے گھر میں بند کر دیا تھا کہ انہوں نے ایران، شمالی کوریا اور لیبیا کو ایٹمی راز فراہم کیئے تھے۔
ڈاکٹر قدیر کے اس اعتراف کے بعد امریکہ نے پاکستان پر شدید دباؤ ڈالا کہ ڈاکٹر قدیر کے خلاف کارروائی کی جائے۔
لیکن ڈاکٹر قدیر خان کے خلاف کسی طرح کی کوئی کارروائی کرنا ایک حساس معاملہ تھا کیونکہ ڈاکٹر قدیر خان پاکستان کے کئی حصوں میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی وجہ انتہائی مقبول ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی تھا کہ وہ پاکستان کے بہت سارے رازوں کے واقف تھے جن میں شاید یہ بات بھی شامل تھی کہ پاکستان کے سرکردہ لوگوں میں کچھ ایسے بھی تھے جنہیں یہ پتہ تھا کہ وہ ایٹمی راز منتقل کر رہے ہیں۔
غالباً یہی وجہ تھی کہ کہ ان کے خلاف نہ تو کوئی مقدمہ چلایا گیا اور نہ ہی سی آئی اے کو ان سے پوچھ گچھ کی اجازت دی گئی کے نہ جانے وہ کس کو ملوث قرار دے دیں۔
جنرل مشرف نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر قدیر نے اپنی بیٹی (دینا) کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایک برطانوی صحافی کے ذریعے ’پاکستان کے ایٹمی راز افشا کردو‘۔
ڈاکٹر قدیر کی بیٹی نے اس انکشاف کو لغوقرار دیا ہے۔ دریں اثنا ڈاکٹر قدیر کے ایک ساتھی بریگیڈئر سجاول خان کے بیٹے ڈاکٹر شفیق نے مذکورہ خط میں ایٹمی رازوں کے حوالے سے کہا ہے کہ ’دینا خط کے بارے میں جو کچھ کہہ رہی ہیں وہ درست ہے، خط میں ایٹمی راز نہیں تھے‘۔
دینا نے بی بی سی کے فراہم کیئے جانے والے ایک بیان میں جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ خط ان کے لیئے نہیں ان کی والدہ کے لیئے تھا اور اس میں وہ بتایا گیا تھا جو دراصل ہوا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ان تفصیلات کو بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر ان کے والد ڈاکٹر قدیر کو کچھ ہو جائے تو یہ تفصیلات عام کر دی جائیں۔
خود ان کے الفاظ میں ’اس خط سے یہ پتہ چلا کہ ان کے مطابق اصل میں تمام واقعات کس طرح رونما ہوئے تھے۔ اور اس میں کہا گیا تھا کہا کہ اگر میرے والد مار دیئے جائیں یا غائب کردیئے جائیں تو یہ تفصیلات عام کر دی جائیں‘۔
ان کا کہنا ہے کہ اس خط میں لوگوں اور مقامات کا ذکر ہے نہ کہ ایٹمی یا جوہری رازوں کا ۔
دینا خان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں ان سے برطانوی خفیہ ادارے ایم آئی فائیو نے بھی تفتیش کی تھی لیکن وہ مطمئن تھے کہ انہوں نے نہ تو کوئی جرم کیا ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی اہم دستاویز ہے۔
دینا کہتی ہیں کہ ان کے والد کا جرم محض یہ ہے کہ وہ برسرِ اقتدار لوگوں کے بارے میں بے لاگ رائے کا اظہار کرتے تھے اور وہ اسی جرم کی سزا بھی بھگت رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی بہن کو کئی ماہ تک والدین سے ملنے نہیں دیا گیا اور ایک سال تک تو انہیں پاکستان جانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ ’ہماری ڈاک کھولی جاتی تھی، ہمارے فون سنے جاتے تھے اور ہمارے گھر کی جاسوسی کی جاتی تھی‘۔ ڈاکٹر خان کو جب نظر بند کیا گیا تو ان پر کئی مہینوں سے دباؤ بڑھ رہا تھا۔
جوہری توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں نے جب ایران کے یورینیم افزودہ کرنے کے پلانٹ کا فروری دو ہزار تین میں دورہ کیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ اس میں جو مشینیں استعمال کی گئی تھیں ان کا ڈیزائن وہی ہے جن پر ڈاکٹر خان نے اپنی جوانی کے دور میں یورپ میں کام کیا تھا اور جن کو پاکستان کے جوہری پروگرام کے لیئے بھی تیار کرایا گیا تھا۔
اسی دوران لیبیا کے صدر معمر قدافی نے ایم آئی فائیو کے ساتھ اپنا جوہری پروگرام ختم کرنے کے لیئے روابط استوار کیئے۔ لیبیا کا تمام کا تمام جوہری پروگرام ڈاکٹر خان کے گروپ کی طرف سے مہیا کیا گیا تھا۔
اسی کے ساتھ واشنگٹن نے جنرل مشرف پر ڈاکٹر خان کے دھندے کو بند کرانے کے لیئے دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔ ستمبر دوہزار تین میں نیویارک کے ایک ہوٹل میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر جارج ٹینٹ نے جنرل مشرف کو ڈاکٹر خان کی سرگرمیوں کے بارے میں شواہد مہیا کئیے۔ لیکن اس کے باوجود جنرل مشرف نے ڈاکٹر خان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جس سے واشنگٹن میں اس بارے میں تشویش میں اضافہ ہوتا رہا۔
آخر کار امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کی ایک فون کال نے ڈاکٹر خان کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا۔
کولن پاول نے صدر مشرف کو خبردار کیا کہ صدر جارج بش ایک تقریر کرنے والے ہیں جس میں ڈاکٹر خان کی سرگرمیوں کو دنیا پر آشکار کردیا جائے گا۔
اس کے نتیجے میں ڈاکٹر خان کو صدر مشرف سے ملوایا گیا اور ان کو ان سرگرمیوں کا برسرے عام اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا۔
سی آئی اے کو آج تک ڈاکٹر خان سے براہ راست تفتیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جس کا امریکہ آج تک خواہاں ہے کیونکہ یہ ابھی تک نہیں معلوم ہو سکا کہ ڈاکٹر خان نے کس قدر ایٹمی ٹیکنالوجی ایران کو فراہم کی۔
لیبیا کے معاملے میں ڈاکٹر خان نے جوہری ہتھیار کا ڈیزائن تک خود فراہم کیا۔
واشنگٹن میں عام خیال یہی ہے کہ ڈاکٹر خان نے ایران کو بھی اس قدر معلومات فراہم کی ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایران جوہری بم بنانا چاہا رہا ہے اور اس کا جوہری پروگرام صرف پر امن مقاصد کے لیئے نہیں ہے جیسا کہ وہ دعویٰ کرتا ہے۔
ڈاکٹر خان سے تمام سوال اور جواب پاکستان کے خفیہ اداروں کے توسط سے کیئے جاتے ہیں اور یقینی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سچ جوابات دیئے جارہے ہیں۔
ڈاکٹر خان کو امریکہ کی تحویل میں دینا یا ان تک رسائی دینا ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر خان کے بہت سے مداح ہیں اور یہ جنرل مشرف کے لیئے سیاسی طور پر انتہائی مشکل سوال ہوگا اور وہ اس مسئلہ کو چھوڑ کر آگے بڑھ جانا چاہتے ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے امریکی حکومت کی طرف سے پرامن مقاصد کے لیئے جوہری ٹیکنالوجی میں تعاون کے معاہدے کی پاکستان کو پیش کش نہ کیئے جانے کی ایک وجہ ڈاکٹر خان بھی ہیں۔
ڈاکٹر خان تاحال اسلام آباد میں نظربند ہیں اور حال ہی میں ان کا مسانے کے کینسر کا آپریشن بھی ہوا ہے۔
دینا خان نے اپنے بیان کے آخر میں خبردار کیا ہے کہ ان کے والد سے تفتیش کئی ماہ پہلے مکمل کر لی گئی تھیں لیکن پھر بھی ان کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور یہ امید کی جارہی ہے کہ نظر بندی کے دوران ہی مر کھپ جائیں گے اور دنیا انہیں بھول جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا اور آخر کار سچ سامنے آ کر رہے گا جیسا کہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔

بشکریہ - بی بی سی اردو

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب