04 October, 2006

سیاسی قتلوں کی تاریخ


ویسے تو پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کی بمشکل پہلی ہی سالگرہ کے ایک ماہ بعد ہی فوت ہوجانےکو بہت سے لوگوں نے فطری موت ماننے سے انکار کردیا تھا اور آج تک لوگوں کی اچھی خاصی تعداد کہتی ہے کہ ’انہیں زہر دیا گیا تھا۔‘
کچھ لوگوں کا خیال ہے انہیں ’زیارت ریزیڈنسی میں مرنے کے لیئے بے یار ومدد گار چھوڑ دیا گیا تھا‘ جس کے لیئے
کچھ انگلیاں تو ان کے جان نشیں نواب لیاقت علی خان کی طرف بھی اٹھتی ہیں-
لیکن پاکستان میں سیاسی مگر آج تک غیر حل شدہ قتلوں کی تاريخ خود وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل سے شروع ہوتی بتائی جاتی ہے۔ جب انہیں کمپنی باغ راولپنڈی میں بھرے جلسے میں گولی مار دی گئی تھی تو ایک پولیس افسر نے موقع پر ہی ان کے مبینہ قاتل سید اکبر خان کو گولی مار کر گویا لیاقت علی خان کے قتل کیس کو ہی گولی مار دی تھی-
اسی لیئے جب بھی پاکستان میں کوئی سیاسی قتل ہوتا ہے تو عوام کہتے ہیں اس کی تحقیقات کا حشر بھی لیاقت علی خان کے کیس جیسا ہوگا-
لیکن اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں سب سے پہلا سیاسی قتل نوجوان سیاسی کارکن حسن ناصر کا تھا جنہیں لیاقت علی خان کے دور حکومت میں لاہور کے شاہی قلعے میں تشدد کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا۔
اگر کوئی غور سے دیکھے تو پاکستان کی سیاسی تاریخ بڑی لڑائی مارکٹائی سے بھرپور فلم اور سیاسی قتلوں کی تاریخ ہے جو حسن ناصر سے لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو سے لےکر ضیاءالحق تک، اور مرتضی بھٹو سے لے کر اکبر بگٹی تک کہی جاتی ہے- یہ تمام ہلاکتیں نہایت ہی پُراسرار اور تا حال غیر حل شدہ یا داخل دفتر ہیں۔
ایوب خان کا آمرانہ زمانہ آیا جسے ’اکتوبر انقلاب‘ کہا گیا-
انیس سو ساٹھ کی دہائي میں دوسری بلوچ بغاوت ہوئی- سردار نوروز خان کی قیادت میں بلوچ پہاڑوں پر چلے گئے جہاں سے حکومت نے قرآن پر صلح کا جھوٹا حلف دیکر نوروز خان کو پہاڑوں سے اتارا اور انہیں ان کے بھائی اور بیٹوں سمیت بعد میں حیدرآباد سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی-
یحیٰی خان کے دور میں اگرچہ سیاسی مخالفین کے سیاسی قتل انفرادی طور تو فقط پیپلز پارٹی نے اپنے سرحد کے رہنما حق نواز گنڈاپور کی موت کو قرار دیا تھا جسے حکومت نےطوفانی بجلی کے ٹوٹنے سے قرار دیا تھا لیکن یحییٰ خانی دور میں سابق مشرقی پاکستان میں لاکھوں بنگالیوں کا قتل عام بھی سیاسی تھا-
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سیاسی قتل کو ایک طرح سے ایک ادارے کی شکل ملی ہوئی تھی۔
ڈیرہ غازی خان میں جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نذیر کا قتل، لاہور میں خواجہ رفیق اور نواب احمد محمد خان قصوری کے قتل، سندھ میں امین فقیر سمیت پیر پگاڑو کے چھ حروں اور انجنیئرنگ کالج جامشورو کے لیکچرر اشوک کمار اور کراچي میں عطاءاللہ مینگل کے بیٹے اسد اللہ مینگل کی آج تک گمشدگیاں، بلوچستان میں لونگ خان نصیر، مولوی شمس الدین کے قتل (نہیں معلوم کہ بھٹو اور اکبر بگٹی کو تاریخ بلوچستان میں فوجی آپریشن کے دوران سینکڑوں بلوچوں کے قتل کی جوابداری میں شک کا فائدہ دے گی یا نہیں) ۔
بھٹو کے ہی دور میں ان کے وزیر اور دوست حیات محمد خان شیرپاؤ کا قتل پشاور یونیورسٹی میں ہوا جس کا اس دور کی حکومت اور بہت سے لوگوں نے الزام خان عبدالولی کی نیشنل عوامی پارٹی اور اس کی طلبہ تنظیم پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن پر لگایا تھا لیکن ایسے بھی بہت سے بھٹو مخالف لوگ تھے جو شیرپاؤ کے قتل کا الزام خود بھٹو حکومت پر لگاتے تھے۔
اسی طرح کوئٹہ میں معمر و ممتاز پشتون رہنما عبدالصمد خان اچکزئی کا قتل بھی پُراسراریت کے پردے میں ملفوف رہا-
ذولفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں قید اپنے سیاسی مخالف چودہری ظہور الہی کو بھی قتل کروانے کے لیئے اس وقت کے گورنر اکبر بگٹی کو کہا تھا جنہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ چودہری ظہور الٰہی کے بیٹے اور بھتیجے بگٹی کی یہ ’احسانمندی‘ اپنے انداز سے چکاتے آئے ہیں۔
راوی کے کنارے بھٹو کے مخالف احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری قتل ہوئے جس کی ایف آئی آر بھٹو پر کاٹی گئی- ضیاء الحق کے دور حکومت میں اگرچہ بھٹو کو نواب قصوری کے قتل کیس میں موت کی سزا دے دی گئي لیکن ان کی پارٹی والوں کے علاوہ بہت سے لوگ اور غیر جانبدار مبصر بھی بھٹو کی پھانسی کو ایک عدالتی قتل قرار دیتے ہیں۔ ضیاء الحق کو بھٹو کو پھانسی دے کر کوئی نواب قصوری کے خاندان والوں سے انصاف مقصود نہیں تھا بلکہ، بقول شخصے، اسے ایک پھانسی اور دو گردنیں نظر آرہی تھیں۔ بھٹو کی پھانسی کے کچھ دنون بعد ہی پروین شاکر نے لکھا تھا:
’دیکھ کر قاتل کے بچے در گذر کرتا قصاص
مقتول کے پیاروں میں اتنا ظرف تھا لیکن کہاں‘
ضیاء الحق دور میں سیاسی مخالفین کے پشتوں کے پشتے لگ گئے جن میں طالب العلم رہنما نذیر عباسی (جنکے قتل کا پرچہ بینظیر بھٹو دور حکومت میں انٹیلیجنس بیورو کے سابق سربراہ بریگيڈیئر امتیاز اور دیگر فوجی اہلکاروں کے خلاف کاٹ کر ’سربمہر‘ کردیا گیا تھا) کی تشدد کے ذریعے فوجی تحویل میں موت نمایاں واقعات میں سے ایک ہے۔
ضیاءالحق کے مخالفین شاہنواز بھٹو کی جنوبی فرانس میں پر اسرار حالات میں موت اور پھانسی پانے والے ناصر بلوچ، ایاز سموں، ادریس طوطی ، عثمان غنی، ضلع دادو میں سندھ یونیورسٹی کی بسوں پر ٹوڑہی ریلوے پھاٹک پر فوج کی فائرنگ سے پانچ ہلاکتوں، کالونی ٹیکسٹائیل مل ملتان میں مزدوروں کی پولیس فائرنگ سے ہلاکتوں،اور سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک میں سینکڑوں لوگوں کی فوجی اور نیم فوجی دستوں اور پولیس کے ہاتھوں ہلاکتوں کو بھی کئی لوگ ضیاءا لحق حکومت کے ہاتھوں سیاسی قتل قراردیتے ہیں۔
جنرل ضیاء کے خلاف بھٹو برادران کی طرف سے بنائي ہوئی شدت پسند تنظیم الذوالفقار کے ہاتھوں بھی بہت سے سیاسی مخالفین یا ان کے فرض کیئے ہوئے ’دشمنوں‘ کی جاننیں جاتی رہیں۔ ایسی دہشت گردانہ وارداتوں میں میبینہ طور پر چودہری ظہور الہی، ظہور الحسن بھوپالی، اور کیپٹن طارق رحیم کے کیس نمایاں ہیں- جبکہ ایسی کارروائیوں میں حصہ لیتے الذولفقار کے رحمت نجم، الیاس صدیقی، لالا اسد شیخ ، اعظم پٹھان سمیت کئی نواجوان بھی مارے گئے تھے-
ضیاءالحق کے دنوں میں شیعہ مذہبی رہنما علامہ عارف الحسینی قتل ہوئے جن کا شیعوں کی اکثریت نے الزام براہ راست ضیاء الحق اور ان کے دست راست گورنر سرحد جنرل فضل حق اور دیگر معتمدین پر لگایا۔
کچھ دنوں بعد ضیاءالحق بہاولپور کے قریب ہوائی حادثے کا شکار ہوکر ہلاک ہوگۓ لیکن پاکستان میں مقبول سازشی تھیوریاں یہ ہیں کہ انہیں فوج کے اندرون خانہ سازش یا بین الاقوامی سازش کے تحت ہلا ک کیا گیا۔
ضیاءالحق کے خاتمے پر بینظیر بھٹو اقتدار میں دو مرتبہ آئیں اور ان کے دونوں ادوار میں بھی سیاسی مخالفین کے سیاسی قتل جاری رہے یہاں تک کہ ان کا ناراض بھائی بھی ’پولس مقابلے‘ میں مارا گیا جس کا الزام ان کے شوہر آصف علی زرداری، سندھ کے سابق وزیر اعلی عبداللہ شاہ، انٹیلجنس بیورو کے سربراہ مسعود شریف، اور واجد علی درانی سمیت کئی پولیس افسروں پر لگا۔
ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے بھائی اور بھتیجے کے قتل، اور ممبران صوبائی اسمبلی غلام حسین انڑ، علی محمد ہنگورو، اور معمر سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کی سرکاری تحویل میں اموات بھی ان کے مخالف بنظیر بھٹو حکومت کے ہی کھاتے میں ڈالتے ہیں۔
جبکہ ایم کیو ایم حزب اقتدار میں ہو یا حزب اختلاف میں مبینہ طور بیشمار سیاسی محالفین کے قتل کے الزمات لگتے رہے ہیں جن میں پارٹی منحرفین بھی شامل ہیں- ’جو قائد کا غدار ہے و موت کا حقدار ہے‘ انیس اکیانوے میں یہ نعرہ کراچی کی دیوراروں پر راتوں رات لکھا ہوا ملا تھا-
نواز شریف دورِ حکومت میں بھی ایم کیو ایم کے کارکنوں اور شاہ بندر میں الذوالفقار والوں سمیت کئی ماورائے عدالت قتل کے کیسز ملتے ہیں۔ سب سے ہائی پروفائیل کیس، فوج کے ہاتھوں ٹنڈو بہاول میں نو کسانوں کی ہلاکتین ہیں جنہیں ابتدائی طور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے ’بھارتی ایجنٹ‘ قرار دیا تھا-
لیکن پاکستان کی تاریخ میں لیاقت علی خان کے قتل اور ضیاءالحق کی حکومت کے ہاتھوں بھٹو کی پھانسی کے بعد موجودہ مشرف حکومت میں اکبر بگٹی کی ہلاکت سب سے ’ہائی پروفائیل‘ کیس ہے۔
ضیاء الحق اور مشرف میں طویل المدت مطق العنانیت کے علاوہ ایک اور بھی مماثلت ہے وہ یہ ایک کے ہاتھ پر بھٹو کے خون اور دوسرے کے ہاتھ پر بگٹی کے خون کے الزامات لگتے ہیں-
لیاقت علی سے لےکر اکبر بگٹی تک تمام سیاسی قتل سدا پر اسرار اور ناقابل حل تاریخی معمہ ہی رہیں گے۔

بشکریہ - بی بی سی اردو

1 comments:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

ميں اُن دنوں آٹھويں جماعت ميں تھا ۔ ہمارا گھر لياقت [کمپنی] باغ سے ايک ميل کے فاصلہ پر تھا اور وہ ميدان جہاں ميں ہاکی کھيلنے جاتا تھا آدھے راستہ پر تھا ۔ ميں اپنے بائيسکل پر سوار ہاکی کھلنے جا رہا تھا کہ ديکھا سامنے سے بدحواس لوگوں کا ہجوم بھاگا چلا آتا ہے ۔ ميں نے رُک کر وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ لياقت علی خان کو گولی ماری گئی ہے ۔ ميں نے فوراً گھر پہنچ کر خبر دی اور ہم لوگ ريڈيو لگا کر بيٹھ گئے ۔ بعد کی اطلاعات سے معلوم ہوا کہ لياقت علی خان کو امريکہ اور برطانيہ کے ذہنی غلاموں نے مروايا تھا اور پھر خواجہ ناظم الدين کو معزول کر کے حکومت پر قبضہ کر ليا ۔

نواب محمد خان قصوری کو جب قتل کيا گيا تو ميں لاہور ميں تھا ۔ ذاتی مشاہدہ کی بنياد پر ميں کہہ سکتا ہوں کہ اُسے ايف ايس ايف کے جوانوں نے قتل کيا ۔ ايف ايس ايف ذوالفقار علی بھٹو نے فوج کے متوزی ايک تنظيم بنائی تھی ۔ مارنا دراصل نواب صاحب کے بيٹے احمد رضا کو تھا جو کہ پيپلز پارٹی کا اہم ليڈر اور بھٹو کا رازدان تھا مگر اُس نے بھٹو کو آنکھيں دکھانا شروع کر دی تھيں ۔ احمد رضا کار ميں باپ کے ساتھ کہيں جا رہا تھا جب اُن پر فائرنگ کی گئی ۔

حيات محمد شير پاؤ کے ساتھ ميری سرکاری کام کے سلسلے ميں ميٹنگ تھی ۔ ميں مع اپنے دو ساتھيوں کے مقررہ وقت پر پشاور پہنچ گيا ليکن شيرپاؤ اسمبلی کے اجلاس ميں پھنسے ہوئے تھے ۔ ہميں ليجا کر مہمانوں کی گيلری ميں بٹھا ديا گيا اور ہم اسمبلی کی کاروائی ديکھتے رہے ۔ اسمبلی سے فارغ ہو کر شيرپاؤ سيدھے ہمارے پاس آئے اور معذرت کی کہ ميٹنگ نہيں ہو سکے گی کيونکہ اسمبلی کا اجلاس خلافِ توقع بہت لمبا ہو گيا اور اُنہوں نے ايک اہم جلسہ سے خطاب بھی کرنا ہے ، اُنہوں نے چيف سيکريٹری کو ہدائت کی وہ جلسہ ميں نہ جائے اور ہمارے ساتھ بات چيت کرے ۔ ہميں چيف سيکٹری کے دفتر ليجاکر کھانا کھلايا گيا اور مختصر بات چيت کے بعد ميٹنگ ختم ہو گئی کيونکہ ايک اہم فيصلہ تھا جو وزيرِاعلٰی ہی کر سکتے تھے ۔ ہم واپس واہ کينٹ کو روانہ ہوئے جبميں واہ پہنچا تو ايک کافی سينئر آفسر ميرے گھر موجود تھے مجھے آگے بڑھ کر ملے اور کہا ميٹنگ نہيں ہوئی کيا ؟ ميں نے کہا ميٹنگ نہيں ہوئی ليکن آپ پريشان کيوں ہيں ؟ کہنے لگے آپ کو نہيں معلوم کہ شيرپاؤ بم دھماکے ميں مارے گئے ؟ اُنہيں ڈر تھا کہ کہيں ميں بھی شيرپاؤ کے ساتھ نہ ہوں ۔ بعد ميں جو کچھ معلوم ہوا اُس کے مطابق شيرپاؤ کو مروانے والا حکومت کے علاوہ کوئی اور نہ ہو سکتا تھا ۔

10/04/2006 12:28:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب