آس آف
خبر ملی ہے کہ ڈیرہ غازی خان کے علاقے تمن کھوسہ کے قبائلی سرداروں کی کونسل نے چوری کے الزام میں ایک نوجوان کے والد خدا بخش کو حکم دیا ہے کہ اسے اپنے بیٹے کی بیگناہی ثابت کرنی ہو گی اور اس کے لئے اسے ننگے بدن ایک انتہائی ٹھنڈے، یخ بستہ برفیلے پانی کے تالاب میں بندھے ہوئے ہاتھوں اور پیروں کے ساتھ ایسے ٨٠ فٹ تک چلے کہ پانی سے صرف اس کا سر باہر ہو اور اسی حالت میں اسے کم از کم ١٠ منٹ تک گزار لے تو تب اس کے بیٹے کو بےگناہ تصور کرتے ہوئے چھوڑ دیا جائے گا۔
بیچارہ مرتا کیا نہ کرتا، اولاد چیز ہی ایسی ہوتی ہے، بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق، بیٹے کی بیگناہی کے لئے خدا بخش اس آزمائش سے گزرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ تمن کھوسہ کی ہزاروں آنکھوں نے یہ تماشا دیکھا کہ بوڑھا خدا بخش دو منٹ بھی تالاب میں برفیلے پانی کی تاب نہ لا سکا اور باہر نکل آیا۔ جس کے سبب اس کے بیٹے پر الزام صحیح ثابت ہوا اور تمن کھوسہ کے قبائلی بزرگوں کی کونسل نے اس کو پچاس ہزار روپے بطور جرمانہ ادا کرنے کی سزا دے دی۔
یہ خبر حیران کن، انوکھی یا نئی نہیں، ایسے واقعات روز کا معمول ہیں۔ کیونکہ قبائلیوں کے پرانے رسم و رواج اور روایات جو صدیوں سے چلے آتے ہیں کے مطابق ملزموں کو اپنی بیگناہی خود ہی ثابت کرنا پڑتی ہے۔ ان روایات کے مطابق مختلف الزاموں پر آزمائش کے مرحلے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی انہیں اپنی بیگناہی ثابت کرنے کے لئے ننگے پیروں دہکتے ہوئے کوئلوں پر سے گزرنا پڑتا ہے، تو کبھی برفیلے پانی میں سے ننگے بدن گزرنا پڑتا ہے۔
یہ سب یہاں تک تو چلو کسی حد تک قابل قبول ہیں مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ایسے واقعات میں بھائیوں کے جرم کی سزا ان کی بہنوں کو اور بیٹوں کے گناہ کا کفارہ ان کی ماؤں کو ادا کرنا پڑتا ہے، اور خاوندوں کی زیادتی کا کا خمیازہ ان کی بیویوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟
یہ کہاں کا انصاف اور انسانیت ہے؟
ایسا کب تک ہوتا رہے؟
کب تک گناہگاروں کی سزا بےگناہوں کو دی جاتی رہے گی؟
بیچارہ مرتا کیا نہ کرتا، اولاد چیز ہی ایسی ہوتی ہے، بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق، بیٹے کی بیگناہی کے لئے خدا بخش اس آزمائش سے گزرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ تمن کھوسہ کی ہزاروں آنکھوں نے یہ تماشا دیکھا کہ بوڑھا خدا بخش دو منٹ بھی تالاب میں برفیلے پانی کی تاب نہ لا سکا اور باہر نکل آیا۔ جس کے سبب اس کے بیٹے پر الزام صحیح ثابت ہوا اور تمن کھوسہ کے قبائلی بزرگوں کی کونسل نے اس کو پچاس ہزار روپے بطور جرمانہ ادا کرنے کی سزا دے دی۔
یہ خبر حیران کن، انوکھی یا نئی نہیں، ایسے واقعات روز کا معمول ہیں۔ کیونکہ قبائلیوں کے پرانے رسم و رواج اور روایات جو صدیوں سے چلے آتے ہیں کے مطابق ملزموں کو اپنی بیگناہی خود ہی ثابت کرنا پڑتی ہے۔ ان روایات کے مطابق مختلف الزاموں پر آزمائش کے مرحلے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی انہیں اپنی بیگناہی ثابت کرنے کے لئے ننگے پیروں دہکتے ہوئے کوئلوں پر سے گزرنا پڑتا ہے، تو کبھی برفیلے پانی میں سے ننگے بدن گزرنا پڑتا ہے۔
یہ سب یہاں تک تو چلو کسی حد تک قابل قبول ہیں مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ایسے واقعات میں بھائیوں کے جرم کی سزا ان کی بہنوں کو اور بیٹوں کے گناہ کا کفارہ ان کی ماؤں کو ادا کرنا پڑتا ہے، اور خاوندوں کی زیادتی کا کا خمیازہ ان کی بیویوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟
یہ کہاں کا انصاف اور انسانیت ہے؟
ایسا کب تک ہوتا رہے؟
کب تک گناہگاروں کی سزا بےگناہوں کو دی جاتی رہے گی؟
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔