میرے مطابق… مشورہ
اور یہ بھی المیہ رہا ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان۔۔۔جب عشرہ ترقی کے جشن پر قومی وسائل لٹا رہے تھے تو عوام میں ان کے خلاف۔۔۔ایک آتش فشاں پھٹنے کو تیار ہورہاتھا۔۔۔!!! وہ جن درآمد شدہ اقتصادی ماہرین کی لفاظی اور ان کے معاشی فلسفے کے سحر میں کھوکر۔۔۔اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں سے۔۔۔۔قوم کو بہلا رہے تھے تو ملک شدید طبقاتی تضادات کا شکار ہوچکا تھا! وہ جس صنعتی تعمیر کو اپنا کارنامہ گردان رہے تھے۔ ۔۔ وہ بدعنوانی کی نئی داستانیں بن کر سامنے آرہی تھیں اور وہ مشرقی پاکستان میں جب ترقیاتی کارناموں پر فخر کررہے تھے تو ملک دو لخت ہونے کی طرف بڑھ رہا تھا !!! اور تبھی ان کے خلاف جب گلی محلوں میں نعرے لگنا شروع ہوئے تو یہ سمجھنا ان کیلئے دشوار تھا کہ۔۔۔اس احتجاج کا آخر جواز کیا ہے؟؟؟ فیلڈ مارشل کو اپنے دور اقتدار کے وہ ابتدائی دن یاد تھے جب عوام کی اکثریت ۔۔۔برسہا برس سے ناکام اور بدعنوان سیاستدانوں کی باہمی کشمکش اور اقتدار کے لئے ان کی سازشوں سے بیزار ہوکر ۔۔۔انہیں خوش آمدید کہا کرتی ۔۔۔تھی!!! ملکی پیداوار میں اضافے کے اعلان سن کر۔۔۔عش عش کیا کرتی اور ان کے وضع کردہ نظام حکومت میں بھرپور شریک بھی تھی!!! آخری تین برسوں میں فیلڈ مارشل کے لئے نئے محاذ کھلتے چلے گئے!!! وہ امریکا جو 1958 میں ایوب خان کو اقتدار تک لانے میں معاون تھا اور جس کی نوازشات کی بارش کئی برس ان پر حاوی رہی۔۔۔اب انہیں ہٹانے کے لئے فعال تھا!!! اور بدقسمتی سے ہماری تاریخ کے ہر حکمراں کی طرح۔۔۔ایوب خان بھی ایک ایسے نظام کے تابع ہوچکے تھے جہاں آنکھیں تو ہوتی ہیں۔۔۔بینائی نہیں ہواکرتی!! کان ہوتے ہیں سماعت نہیں ہوتی!! دماغ تو ہوتا ہے فراست نہیں اور اختیار تو ہوتا ہے لیکن وہ اسکے مناسب استعمال سے قاصر ہوتے چلے جاتے ہیں!! اقتدار کے ایوانوں میں۔۔۔خوشگفتار مکڑیاں ۔۔۔ہر لمحہ ایسے جال بنتی رہتی ہیں۔۔۔جن کے سوتے ۔۔۔صرف خوشامد سے ہی پھوٹتے ہیں اور وہ وقت مقررہ پر۔۔۔حکمرانوں کی شعوری کوشش نہ ہونے کے باوجود ۔۔۔ان سے کوئی ایسا فیصلہ ضرور صادر کروادیتی ہیں۔ جو انہیں ۔۔۔زوال کی اتھا ہ گہرائیوں کی طرف دھکیل دیتا ہے!!! اور یہ جملہ میں نے پچھلی تحریر میں بھی لکھا تھا کہ "آپ کی اصل طاقت ۔۔۔وہ ہوا کرتی ہے ، جو آپ استعمال نہیں کرتے۔۔۔اور وہ مشورے ہوتے ہیں ، جنہیں آپ رد کردیا کرتے ہیں۔۔۔!!!" ایوب خان کے خلاف جب بین الاقوامی طاقتوں نے اپنا محاذ بنایا تو سول اور ملٹری establishment کو بھی اس سے باخبر کردیا گیا تاکہ انہیں فیصلہ کرنے میں آسانی رہے۔۔۔!!! تبھی ان کے نامزد وزیر دفاع اے آر خان نے 19 مارچ 1969 کو ان کے خلاف چارج شیٹ پڑھ کہ سنائی اور انہی کے نامزد فوجی سربراہ جنرل آغا محمد یحیٰ خان نے چھ روز بعد انہیں معزول کرکے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا !!! عجب معاملہ یہ رہا کہ برطرفی سے کئی برس پہلے ۔۔۔1965 کی جنگ کے دوران ہی ایوب خان کو اس بات کا اندازہ ہوچکاتھا کہ امریکا انکے ساتھ ہاتھ کرگیا ہے۔ کیونکہ ایک طرف انہیں اشارہ تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر آزاد کرواکر تاریخ میں امر ہوسکتے ہیں تو دوسری طرف بھارتی قیادت کو بھی مشورہ تھا کہ جوابا" مغربی پاکستان پر حملہ آور ہوجاؤ او ر یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مجیب الرحمان کے دو قابل اعتماد ساتھیوں ، تاج الدین اور روح القدس نے "چھ نکات" ، کن دستاویزات اور ہدایات کی روشنی میں تیار کئے تھے۔۔۔اور جن کے اعلان پر 5 فروری 1966کو سیاسی جماعتوں کے کنونشن میں موجود 99 فیصد سیاستدان حیرت زدہ رہ گئے تھے۔ ۔۔!!! اور پھر آئندہ چند برسوں میں رقم ہوتی تاریخ کے المناک باب۔۔۔آج بھی جیسے خون رس رہے ہیں!!!
برسہا برس بعد کے موجودہ حالات بڑی حد تک مختلف ضرور ہیں لیکن بہرحال یہ ضرور طے ہے کہ امریکا۔۔۔اگر صدر مشرف سے کئی امور پر خوش تو کئی پر۔۔۔ناخوش بھی ہے!!! خوشی کے اشاروں میں ۔۔۔جلا وطن سیاسی قیادے کا وطن لوٹ کر۔۔۔کسی تحریک کو منظم نہ کرنا۔۔۔بلوچستان پر خاموشی۔۔۔جمہوری اور سیاسی عمل پر محض بیانات۔۔۔اور بھارت کی طرف سے ہمارے لئے دوستی کا ہاتھ وغیرہ سمجھے جاسکتے ہیں۔۔۔لیکن ان کے عوض ۔۔افغانستان کی بدتر ہوتی صورتحال میں پاکستان کے موجودہ کردار سے مطمئن نہیں۔۔۔!!! ایران کے ساتھ اگر امریکا کی محاذ آرائی ۔۔۔ٹل جاتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کے دروازے کھلتے ہیں تو یہ پاکستان پر مزید دباؤ کا سبب ہوگا کیونکہ ایران۔۔۔"افغانستان" اور" عراق" کی دلدل میں پھنسے امریکا کی بھرپور مدد کے عوض مراعات حاصل کرنے کی بہتر پوزیشن میں آرہا ہے۔۔۔اور ایک بہترین خارجہ پالیسی کے باعث اگر صدر احمدی نژاد ۔۔۔کا اب امریکی ویزے کے حصول کے بعد ۔۔۔اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے اجلاس سے خطاب۔۔۔خلیج میں ایک نئے معرکے کو تو ٹالتا نظر آرہاہے۔۔۔لیکن جیساکہ پہلے عرض کیا کہ یہ پاکستان پر مزید دباؤ کا سبب بننے جارہا ہے !! اور اس امر یکہ ایران مفاہمت کی کوششوں اور سعودی عرب کے تعاون سے ترتیب پاتی نئی فلسطینی حکومت جہاں امریکی نیشنل سیکورٹی کونسل میں موجود Elliot Abrams جیسے انتہا پسندوں کو پریشان کررہی ہے۔ ۔۔وہاں یہ تمام انتہا پسند قوتیں ۔۔۔خود افغانستان اور شمالی قبائیلی علاقوں میں صدر مشرف کے کردار پر بھی مطمئن نہیں!! چنانچہ غالب امکان یہی ہے کہ ۔۔۔اس محاذ کے بندہونے کی صورت میں واشنگٹن کے تیور اسلام آباد کے لئے مزید بگڑیں گے !!!
"میرے مطابق" ملک کا موجودہ بحران ۔۔براہ راست نہ سہی ۔۔۔لیکن کسی نہ کسی حد تک اس دباؤ کی ابتدا ضرور ہے۔۔جس کا اشارہ حکومت میں شامل کئی اہم شخصیات کا اس بحران کے دوران خود کو لاتعلق کرلینا ہے!!! صدر مشرف نے درست کہا کہ تمام تر غلط اقدامات کی ذمہ داری ان پر ڈالنا۔۔۔غلط ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ جہاں تمام تر قوت کا ارتکاز بھی صدر ہی کی ذات تک ہے۔۔وہاں انہیں اس الزام کے لئے بھی تیار رہنا چاہئیے۔!!! انہیں یہ حقیقت بھی سمجھ لینی چاہیے ان کے اردگرد جمع سیاسی مشیران گرامی۔۔۔انہیں اس "نظام" کا دیا ہوا تحفہ ہیں۔۔ان کے وفادار دوست نہیں!!! یہ سب پہلے کسی اور کے جانثار تھے اور آئندہ کسی اور کے حاشیہ بردار ہوسکتے ہیں۔۔۔ان میں اکثریت کی خاموشی اور ہچکچاہٹ ۔۔۔۔وہ اشارہ ہے جو صدر مشرف کو سمجھنا چاہئیے !!! امریکا کو چیف جسٹس یا انتخابات کے شفاف ہونے سے نہیں۔۔۔افغانستان سے دلچسپی ہے۔۔۔۔!!! وہ آپ کو بہت کچھ دے کر جوابا" آپ سے اس سپردگی کا متقاضی ہے ، جس سے آپ کو ہچکچاہٹ ہے۔۔۔خارجی اور داخلی، دونوں طرف دباؤ بڑھنے جارہا ہے۔۔۔اور وہ پرکشش سیاسی نقشہ ۔۔۔جس کے مطابق صدر مشرف کو اگلے کچھ عرصے میں موجودہ اسمبلیوں سے دوبارہ منتخب ہوکر ۔۔انہیں توڑ کر نئی پارلیمنٹ کا انتخاب اور پھر اس سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا تھا۔۔۔ابھی سے عدلیہ کے حالیہ بحران اور قانونی موشگافیوں کی نذر ہوچکا ہے۔۔۔!! بے نظیر بھٹو۔۔۔خود کو بہتر ڈیل کی پوزیشن میں لارہی ہیں۔۔۔وہ براہ راست صدر مشرف کے استعفیٰ اور وطن واپسی کے بجائے۔۔۔صرف یہ پیغام دے رہی ہیں کہ۔۔طالبان کی بڑھتی ہوئی قوت کے خلاف۔۔ان کی شمولیت کے بغیر فتح ناممکن ہے!!!
شراکت اقتدار۔۔۔!!! اور ان قوتوں سے خود کو الگ رکھ رہی ہیں جو اس وقت واشنگٹن میں بہت زیادہ قابل قبول نہیں!!! دلچسپ بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو پچھلے دنوں دبئی عین تب پہنچنا تھا ۔۔۔جب یہاں سے محترمہ کی فلائیٹ امریکا کے لئیے روانہ ہوچکی ہوتی !!! ہیتھرو ائیرپورٹ پر غیر متوقع ہڑتال کے باعث ۔۔۔پروازیں اس طرح تاخیر کا شکار ہوئیں کہ دونوں سابق وزرائے اعظم گھنٹوں تک دبئی میں موجود رہے لیکن ایک دوسرے سے گفتگو سے پرہیز کیا!! اور شاید یہ بات بھی قاریئن کے لئے دلچسپی کاامر ہوکہ شہباز شریف اور اسحٰق ڈار سمیت دیگر کئی رہنماؤں کے برعکس میاں نواز شریف کو امریکا کا ویزا نہیں مل سکا!!! اسفندیار ولی خان کی یہاں محترمہ سے ملاقات بھی اہم ہے اور وہ بڑی حد تک محترمہ کے موجودہ حالات میں نظریاتی حلیف ہیں۔۔۔اور صدر مشرف کے کئی قریبی ساتھی بھی۔۔مسلم لیگ" ق " پر تکیہ کئے جانے کے بجائے محترمہ سے مفاہمت کے لئے کوشاں ہیں اور ان ٹریک ٹو مذاکرات کے لئے گذشتہ کئی ماہ سے لندن اور اسلام آباد سے دبئی آتی پروازوں میں مسافروں کی فہرست بڑی دلچسپ ہے!!! محترمہ بہر صورت انتخابات سے پہلے وطن واپسی پر اصرار کررہی ہیں اور انہوں نے بلاول اور بختاور دونوں کو امریکا کی اہم درسگاہوں میں داخل کروادیا ہے جبکہ چھوٹی آصفہ انہی کے ساتھ رہے گی۔۔۔!!! فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ بلی چوہے کے اس کھیل میں کیا نقشہ ابھرے گا تاہم یہ طے ہے کہ اگلے چند ماہ ۔۔کسی بھی طور ۔۔پرسکون ۔۔۔گزرنے کے امکانات یوں معدوم ہیں کہ ۔۔یہ انتخابات کا سال ہے!!! ان انتخابات کا۔۔جن کی تیاری ابھی سے ڈرائنگ روموں۔۔کئی دارالحکومتوں ۔۔۔اور سڑکوں پر شروع ہوچکی ہے۔۔۔۔یہ طے ہے کہ establishment محترمہ کو ان کی شرائط پر واپس نہیں آنے دے گی۔۔۔اور دینی ، سیاسی جماعتوں اور مسلم لیگ نواز شریف کو ان پر کہیں زیادہ فوقیت دے گی۔۔۔صدارتی انتخابات۔۔اور انتخابی مہم کے ساتھ ساتھ۔۔۔چیف جسٹس کے خلاف ۔۔۔ریفرنس طویل سماعتی مراحل سے گذرے گا۔۔۔ہر ہر لمحے پر establishment۔۔۔سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور غیر ملکی قوتیں اپنا اپنا کھیل کھیلیں گی؟؟؟ صدر اپنے اس بیا ن پر خود کہاں تک متفق ہیں کہ یہ تمام احتجاج سیاسی جماعتیں کررہی ہیں۔۔۔!! میں اس نقطہ نظر سے شدید اختلاف کرتا ہوا صرف یہ عرض کروں گا کہ سیاسی جماعتیں اس بحران کو مستقبل میں کوئی شکل شاید دے سکیں۔۔لیکن اس وقت وہ بڑی حد تک آپ کے ہم رکاب ہیں !!! صدر مشرف کے لئے اگلے چند ماہ اہم ہیں؟؟؟ فیصلہ وہ کیا کریں گے۔۔۔یہ وقت ہی بتائے گا۔۔۔لیکن۔۔۔وہ مشورہ ایک بار پھر کہ۔۔۔" آپ کو دئیے گئے کئی مشورے رد کردینا ہی اس وقت آپ کی طاقت ہوگا۔۔۔" چاہیں تو۔۔۔وہ اس مشورے کو بھی رد کردیں۔۔
برسہا برس بعد کے موجودہ حالات بڑی حد تک مختلف ضرور ہیں لیکن بہرحال یہ ضرور طے ہے کہ امریکا۔۔۔اگر صدر مشرف سے کئی امور پر خوش تو کئی پر۔۔۔ناخوش بھی ہے!!! خوشی کے اشاروں میں ۔۔۔جلا وطن سیاسی قیادے کا وطن لوٹ کر۔۔۔کسی تحریک کو منظم نہ کرنا۔۔۔بلوچستان پر خاموشی۔۔۔جمہوری اور سیاسی عمل پر محض بیانات۔۔۔اور بھارت کی طرف سے ہمارے لئے دوستی کا ہاتھ وغیرہ سمجھے جاسکتے ہیں۔۔۔لیکن ان کے عوض ۔۔افغانستان کی بدتر ہوتی صورتحال میں پاکستان کے موجودہ کردار سے مطمئن نہیں۔۔۔!!! ایران کے ساتھ اگر امریکا کی محاذ آرائی ۔۔۔ٹل جاتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کے دروازے کھلتے ہیں تو یہ پاکستان پر مزید دباؤ کا سبب ہوگا کیونکہ ایران۔۔۔"افغانستان" اور" عراق" کی دلدل میں پھنسے امریکا کی بھرپور مدد کے عوض مراعات حاصل کرنے کی بہتر پوزیشن میں آرہا ہے۔۔۔اور ایک بہترین خارجہ پالیسی کے باعث اگر صدر احمدی نژاد ۔۔۔کا اب امریکی ویزے کے حصول کے بعد ۔۔۔اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے اجلاس سے خطاب۔۔۔خلیج میں ایک نئے معرکے کو تو ٹالتا نظر آرہاہے۔۔۔لیکن جیساکہ پہلے عرض کیا کہ یہ پاکستان پر مزید دباؤ کا سبب بننے جارہا ہے !! اور اس امر یکہ ایران مفاہمت کی کوششوں اور سعودی عرب کے تعاون سے ترتیب پاتی نئی فلسطینی حکومت جہاں امریکی نیشنل سیکورٹی کونسل میں موجود Elliot Abrams جیسے انتہا پسندوں کو پریشان کررہی ہے۔ ۔۔وہاں یہ تمام انتہا پسند قوتیں ۔۔۔خود افغانستان اور شمالی قبائیلی علاقوں میں صدر مشرف کے کردار پر بھی مطمئن نہیں!! چنانچہ غالب امکان یہی ہے کہ ۔۔۔اس محاذ کے بندہونے کی صورت میں واشنگٹن کے تیور اسلام آباد کے لئے مزید بگڑیں گے !!!
"میرے مطابق" ملک کا موجودہ بحران ۔۔براہ راست نہ سہی ۔۔۔لیکن کسی نہ کسی حد تک اس دباؤ کی ابتدا ضرور ہے۔۔جس کا اشارہ حکومت میں شامل کئی اہم شخصیات کا اس بحران کے دوران خود کو لاتعلق کرلینا ہے!!! صدر مشرف نے درست کہا کہ تمام تر غلط اقدامات کی ذمہ داری ان پر ڈالنا۔۔۔غلط ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ جہاں تمام تر قوت کا ارتکاز بھی صدر ہی کی ذات تک ہے۔۔وہاں انہیں اس الزام کے لئے بھی تیار رہنا چاہئیے۔!!! انہیں یہ حقیقت بھی سمجھ لینی چاہیے ان کے اردگرد جمع سیاسی مشیران گرامی۔۔۔انہیں اس "نظام" کا دیا ہوا تحفہ ہیں۔۔ان کے وفادار دوست نہیں!!! یہ سب پہلے کسی اور کے جانثار تھے اور آئندہ کسی اور کے حاشیہ بردار ہوسکتے ہیں۔۔۔ان میں اکثریت کی خاموشی اور ہچکچاہٹ ۔۔۔۔وہ اشارہ ہے جو صدر مشرف کو سمجھنا چاہئیے !!! امریکا کو چیف جسٹس یا انتخابات کے شفاف ہونے سے نہیں۔۔۔افغانستان سے دلچسپی ہے۔۔۔۔!!! وہ آپ کو بہت کچھ دے کر جوابا" آپ سے اس سپردگی کا متقاضی ہے ، جس سے آپ کو ہچکچاہٹ ہے۔۔۔خارجی اور داخلی، دونوں طرف دباؤ بڑھنے جارہا ہے۔۔۔اور وہ پرکشش سیاسی نقشہ ۔۔۔جس کے مطابق صدر مشرف کو اگلے کچھ عرصے میں موجودہ اسمبلیوں سے دوبارہ منتخب ہوکر ۔۔انہیں توڑ کر نئی پارلیمنٹ کا انتخاب اور پھر اس سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا تھا۔۔۔ابھی سے عدلیہ کے حالیہ بحران اور قانونی موشگافیوں کی نذر ہوچکا ہے۔۔۔!! بے نظیر بھٹو۔۔۔خود کو بہتر ڈیل کی پوزیشن میں لارہی ہیں۔۔۔وہ براہ راست صدر مشرف کے استعفیٰ اور وطن واپسی کے بجائے۔۔۔صرف یہ پیغام دے رہی ہیں کہ۔۔طالبان کی بڑھتی ہوئی قوت کے خلاف۔۔ان کی شمولیت کے بغیر فتح ناممکن ہے!!!
شراکت اقتدار۔۔۔!!! اور ان قوتوں سے خود کو الگ رکھ رہی ہیں جو اس وقت واشنگٹن میں بہت زیادہ قابل قبول نہیں!!! دلچسپ بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو پچھلے دنوں دبئی عین تب پہنچنا تھا ۔۔۔جب یہاں سے محترمہ کی فلائیٹ امریکا کے لئیے روانہ ہوچکی ہوتی !!! ہیتھرو ائیرپورٹ پر غیر متوقع ہڑتال کے باعث ۔۔۔پروازیں اس طرح تاخیر کا شکار ہوئیں کہ دونوں سابق وزرائے اعظم گھنٹوں تک دبئی میں موجود رہے لیکن ایک دوسرے سے گفتگو سے پرہیز کیا!! اور شاید یہ بات بھی قاریئن کے لئے دلچسپی کاامر ہوکہ شہباز شریف اور اسحٰق ڈار سمیت دیگر کئی رہنماؤں کے برعکس میاں نواز شریف کو امریکا کا ویزا نہیں مل سکا!!! اسفندیار ولی خان کی یہاں محترمہ سے ملاقات بھی اہم ہے اور وہ بڑی حد تک محترمہ کے موجودہ حالات میں نظریاتی حلیف ہیں۔۔۔اور صدر مشرف کے کئی قریبی ساتھی بھی۔۔مسلم لیگ" ق " پر تکیہ کئے جانے کے بجائے محترمہ سے مفاہمت کے لئے کوشاں ہیں اور ان ٹریک ٹو مذاکرات کے لئے گذشتہ کئی ماہ سے لندن اور اسلام آباد سے دبئی آتی پروازوں میں مسافروں کی فہرست بڑی دلچسپ ہے!!! محترمہ بہر صورت انتخابات سے پہلے وطن واپسی پر اصرار کررہی ہیں اور انہوں نے بلاول اور بختاور دونوں کو امریکا کی اہم درسگاہوں میں داخل کروادیا ہے جبکہ چھوٹی آصفہ انہی کے ساتھ رہے گی۔۔۔!!! فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ بلی چوہے کے اس کھیل میں کیا نقشہ ابھرے گا تاہم یہ طے ہے کہ اگلے چند ماہ ۔۔کسی بھی طور ۔۔پرسکون ۔۔۔گزرنے کے امکانات یوں معدوم ہیں کہ ۔۔یہ انتخابات کا سال ہے!!! ان انتخابات کا۔۔جن کی تیاری ابھی سے ڈرائنگ روموں۔۔کئی دارالحکومتوں ۔۔۔اور سڑکوں پر شروع ہوچکی ہے۔۔۔۔یہ طے ہے کہ establishment محترمہ کو ان کی شرائط پر واپس نہیں آنے دے گی۔۔۔اور دینی ، سیاسی جماعتوں اور مسلم لیگ نواز شریف کو ان پر کہیں زیادہ فوقیت دے گی۔۔۔صدارتی انتخابات۔۔اور انتخابی مہم کے ساتھ ساتھ۔۔۔چیف جسٹس کے خلاف ۔۔۔ریفرنس طویل سماعتی مراحل سے گذرے گا۔۔۔ہر ہر لمحے پر establishment۔۔۔سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور غیر ملکی قوتیں اپنا اپنا کھیل کھیلیں گی؟؟؟ صدر اپنے اس بیا ن پر خود کہاں تک متفق ہیں کہ یہ تمام احتجاج سیاسی جماعتیں کررہی ہیں۔۔۔!! میں اس نقطہ نظر سے شدید اختلاف کرتا ہوا صرف یہ عرض کروں گا کہ سیاسی جماعتیں اس بحران کو مستقبل میں کوئی شکل شاید دے سکیں۔۔لیکن اس وقت وہ بڑی حد تک آپ کے ہم رکاب ہیں !!! صدر مشرف کے لئے اگلے چند ماہ اہم ہیں؟؟؟ فیصلہ وہ کیا کریں گے۔۔۔یہ وقت ہی بتائے گا۔۔۔لیکن۔۔۔وہ مشورہ ایک بار پھر کہ۔۔۔" آپ کو دئیے گئے کئی مشورے رد کردینا ہی اس وقت آپ کی طاقت ہوگا۔۔۔" چاہیں تو۔۔۔وہ اس مشورے کو بھی رد کردیں۔۔
میرے مطابق…ڈاکٹر شاہد مسعود روزنامہ جنگ
2 comments:
وہی ہوگا جو منظور میرے اللہ کو ہو گا ۔ اللہ بہتر کرے اور ہمارے ملک پر صالح حکمران فائز کرے ۔ آمین
4/23/2007 04:17:00 PMمیں نے بہت عرصے تک سوچا کہ اس شخص کی باتیں دل پر اثر کیوں نہیں کرتیں تو پتہ چلا کہ بھائی صاحب بھی ہم جیسے ہی ہیں جدھر زیادہ ملا ادھر ہی چلا دئیے ۔۔ ۔ اسکرین پر اتنے شائستہ کہ گلاب جامن لگیں اور اگر کوئی غلطی سے الگ سے ملے اور انہیں پتہ چلے کہ مینگو مین یعنی عام آدمی ہے تو اس بے چارے کو ایسے ٹریٹ کریں کہ وہ آئیندہ ۔ ۔ ۔ ۔ کبھی بھی مڑ کہ نہ دیکھے (وضاحت یہ کہ میرے ساتھ نہیں بلکے کئی دوسروں کے ساتھ ہوا، مجھے تو کچھ لوگ وی آئی پی سمجھتے ہیں ؛
4/23/2007 04:18:00 PMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔