10 April, 2007

نیلو فر بختیار کا کارنامہ




مجھے یہ خبر پڑھ کر سخت حیرت ہوئی کہ روشن خیالی کا راگ الاپنے والی حکومت کی اس قدر گری ہوئی سوچ، میراتھن ریس پر فخر کرنے اور اسے روشن خیال نظریے کی فتح قرار دینے والے ذہنوں کی اتنی پستی، چودہدری صاحب کس منہ سے اسلام اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی بات کر رہے ہیں اور کیسے اسے مشرف کے روشن خیال نظریے کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں، میرے خیال کے مطابق تو مشرف کے روشن خیال نظریے کے تحت نیلو فر بختیار کو ایوارڈ سے نوازنا چاہیے، کیونکہ اس نے مشرف کے روشن خیال نظریے کو تقویت دے ہے، اس نے ایسا کام کیا ہے کہ اس عمر کے لوگ ایسا سوچیں بھی تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔
نیلو فر بختیار کے اس کارنامے پر مشرفی کابینہ کو تو خوش ہونا چاہیے، میراتھن ریس کی طرح اس اعزاز کو بھی سرکاری طور پر کیش کرنا چاہیے کہ نیلو فر بختیار نے یہ کارنامہ سرانجام دے کر روشن خیالی دنیا میں اور مشرف کے دل میں اعلٰی مقام حاصل کر لیا ہے اور روشن خیالی کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ سنہری لفظوں سے جگمگاتا رہے گا۔

10 comments:

Anonymous نے لکھا ہے

ان تصاویر میں قابل اعتراض بات کیا ہے؟

4/23/2007 03:57:00 PM
Anonymous نے لکھا ہے

اے خاصہِ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے
اُمّت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے

4/23/2007 03:57:00 PM
Anonymous نے لکھا ہے

یہاں مسئلے یہ نہیں‌کہ نیلوفر ایک غیر کے گلے کیوں‌ملی بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اس تصویر کو اخبار میں‌کیوں‌چھاپا گیا۔ پتہ نہیں‌کیا کیا اس سے بھی زیادہ پاکستان میں‌ہورہا ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔

4/23/2007 03:58:00 PM
Anonymous نے لکھا ہے

Bhai sahib aap khmakhua jusbaatee hu rahauin hain. Shukar karain in size kee khatoon ko kisee nai hug kia. Allah musababul asbaab hai..

4/23/2007 03:59:00 PM
Anonymous نے لکھا ہے

نعمان نے لکھا
“ان تصاویر میں قابل اعتراض بات کیا ہے؟“

نہیں نعمان کچھ بھی نہیں ، اس سے کئی بہتر اور بہترین مناظر تو کراچی یونیورسٹی اور کالجز میں نظر آتے ہیں ، مگر کیا کریں یہ پاکستانی لوگ بھی چھوٹی سی بات کا فسانہ بنا لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ویسے میں اور نعمان ایک بات پر متفق ہیں کہ ہم بھی انہیں (نیلو کو) ایسے ہی مبارک دینا چاہیں گے انکے کارنامے کی ۔ ۔ اور ہاں نعمان آپ تصویر بنوا لینا ، میں نے بنوائی تو بیوی سے پٹائی ہو جانی ہے وہ بھی کچھ پرانے دقیانوسی خیالات کی مالک ہے ۔ ۔

میرا پاکستان نے لکھا
“اس تصویر کو اخبار میں‌کیوں‌چھاپا گیا۔ پتہ نہیں‌کیا کیا اس سے بھی زیادہ پاکستان میں‌ہورہا ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔“

تو آپ کیا چاہتے ہیں وہ بھی چھاپا جائے جو پردے کے اندر ہے ، پھر تو آپکو بڑی پرابلم ہو جائے گی ، کیونکہ جامعہ حفصہ کے برقعوں کے اندر سے اگر کوئی “حکومتی ایجنسی“ کے ۔ ۔ اوہ سوری کی کارکنان برآمد ہوئیں تو ۔ ۔ ۔ اور یہ تصویر خاص طور پر اسلئے چھاپی گئی کہ ۔۔ دنیا کو پتہ چلے کہ یہ سال پاکستان میں سیاحت کا سال ہے ، اور ہم گوروں کو گلے لگانے کے لئے اپنی ۔ ۔ الٹرا ماڈرن حواتین کو تیار رکھے ہوئے ہیں ۔ ۔ ادھر آئیں تو سہی ۔ ۔۔

اور “ًئسھتاق“ صاحب ۔ ۔ اب نیلو اتنی بھی بری نہیں کہ اسے ہگنگ نہ کی جائے ۔ ۔ آپ فکر نہیں کریں نعمان میں آپ تینوں ملکر ہگ کریں گے ۔ ۔ اسے ۔ ۔ ۔

اجمل انکل ۔ ۔ ۔ نے لکھا ÷ ÷ ÷
اے خاصہِ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے
اُمّت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے

اب دعا کی نہیں دوا کی ضرورت ہے ۔ ۔۔ ۔ ورنہ امت پر یہ وقت پچھلے دو سو سال سے آیا ہوا ہے ۔ ۔ ۔۔ اور اب اس کا عروج ہے ۔ ۔ ۔۔

4/23/2007 04:00:00 PM
Anonymous نے لکھا ہے

سلام
میں بالکل متفق ہوں اب دعا کی نہیں دوا کی ضرورت ہے۔
ویسے یہ مزے کا کمنٹ تھا کہ اس عمر میں اس کو کسی نے تو گلے لگایا ورنہ کوئی منہ لگانے کو تیار نہیں۔
اور کوئی موقع ہوتا تو حکومت اور نوٹس لینے والے سارے بغلیں بجا بجا کر قوم کے جزبات کو بکواس مانتے لیکن اب دیکھو کیسے سارے لعنتی لائن بنا کر نوٹس لے رہے ہیں۔

4/23/2007 04:01:00 PM
Anonymous نے لکھا ہے

کیا وزٰیر سیاحت کا دوسرے ملک جا کر جمپ لگانا ضروری ہوتا ہٰے ؟

4/23/2007 04:01:00 PM
Anonymous نے لکھا ہے

اظہر آپ کے تبصرے میں جامعہ اور کالجز کے ذکر کا کیا محل ہے؟ جامعہ میں کوئی لڑکیاں پیراشوٹ سے چھلانگیں نہیں لگاتیں۔

ویسے زکریا اس موضوع پر وضاحت کرسکتے ہیں لیکن پھر بھی میں یہ بتاتا چلوں کہ یہ ایک بہت ہی سنسنی خیز تجربہ ہے جب آپ سینکڑوں فٹ کی بلندی سے نیچے آرہے ہوتے ہیں اور ایک لمحے کو آپ کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ اگر پیراشوٹ نہ کھلا تو کیا ہوگا۔ خوف، حیرت، خوشی، بہادری اور کارنامے کا ایک ایسا تجربہ آپ کو حاصل ہوتا ہے کہ زمین پر پیر لگنے سے پہلے آپ کے اوسان اچھے خاصے معطل ہوجاتے ہیں۔ اسلئیے ڈائیونگ کے دوران انسٹرکٹر ساتھ ہوتے ہیں۔ اور غالبا انسٹرکٹر ان کی مدد ہی کررہے تھے۔ ایک استاد، ایک گائیڈ کی طرح جو ان کی جان بچانے اور انہیں انجری سے بچانے کا کام انجام دے رہا تھا۔

اور جو لوگ اس تجربے سے پہلی بار گزرتے ہیں وہ آپ کو بتا سکتے ہیں کہ اس کے بعد انسان کی حالت کیا ہوتی ہے۔ پیر کپکپاتے ہیں اور ٹانگوں پر کھڑا رہنا دشوار معلوم ہوتا ہے اور خوشی بھی بہت ہوتی ہے۔ اس تصویر میں ان کا ایک انسٹرکٹر ایک گائیڈ ایک کامیابی پر ان کو مبارکباد دے رہا ہے حوصلہ افزائی کررہا ہے۔

خرابی دیکھنے والوں کی سوچ میں ہے، نیلوفر کے عمل میں نہیں۔

4/23/2007 04:02:00 PM
Anonymous نے لکھا ہے

سب عوام کے پسییے سے ہو رہا یے

4/23/2007 04:03:00 PM
Unknown نے لکھا ہے

نعمان نے لکھا ہے۔ ان تصاویر میں قابل اعتراض بات کیا ہے؟
آپ کی طرح میں بھی اسی سوچ و بچار میں ہوں کہ آخر اس میں ایسا ہے کیا جسے ایشو بنایا جا رہا ہے، اس بارے میں مزید چوہدری صاحب سے پوچھنا پڑے گا۔


اجمل صاحب نے لکھا ہے۔
اے خاصہِ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے
اُمّت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
واقعی آجکل حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں، اس وقت امت کو دوا سے زیادہ دعا کی ضرورت ہے۔


میرا پاکستان نے لکھا ہے۔ یہاں مسئلے یہ نہیں‌کہ نیلوفر ایک غیر کے گلے کیوں‌ ملی بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اس تصویر کو اخبار میں‌کیوں‌چھاپا گیا۔ پتہ نہیں‌کیا کیا اس سے بھی زیادہ پاکستان میں‌ہورہا ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔
بالکل سہی کہا آپ نے، اصل مسلہ یہی ہے کہ اسے میڈیا میں کیوں لایا گیا ہے، ورنہ یہ تو روزمرہ کی طرح عام سی بات ہے۔


ئسھتاق آپ کے تبصرے کا بیحد شکریہ


اظہرالحق بھائی، تفصیلی تبصرے کے لئے بیحد شکریہ


بدتمیز نے لکھا ہے۔
سلام میں بالکل متفق ہوں اب دعا کی نہیں دوا کی ضرورت ہے۔ ویسے یہ مزے کا کمنٹ تھا کہ اس عمر میں اس کو کسی نے تو گلے لگایا ورنہ کوئی منہ لگانے کو تیار نہیں۔ اور کوئی موقع ہوتا تو حکومت اور نوٹس لینے والے سارے بغلیں بجا بجا کر قوم کے جزبات کو بکواس مانتے لیکن اب دیکھو کیسے سارے لعنتی لائن بنا کر نوٹس لے رہے ہیں۔
کمال ہے دوسرے اسے قیامت کی نشانیاں قرار دے رہے ہیں، اور آپ کو یہ سب دیکھ کر مزا آ رہا ہے، اور یہ کوئی اور موقع کیسا ہوتا ہے؟


عوام نے لکھا ہے۔ کیا وزٰیر سیاحت کا دوسرے ملک جا کر جمپ لگانا ضروری ہوتا ہٰے ؟
یہ ہوئی نا عوامی بات، اصل میں ہماری وزیر سیاحت عملی قسم کی خاتون ہیں اور یہ سارا عمل کا ہی بکھیڑا ہے۔


نعمان بھائی، میرے خیال سے تو یہ زکریا بھائی کا پسندیدہ ٹاپک ہے اور پھر انہیں اس کا تجربہ بھی ہے وہ زیادہ بہتر طریقے سے اس بارے میں آگاہی دے سکتے ہیں۔


عوام نے لکھا ہے۔ سب عوام کے پسییے سے ہو رہا ہے۔
بالکل بھائی، ایسے شوق صرف عوامی پیسے سے ہی پالے جا سکتے ہیں۔

4/23/2007 04:04:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب