مزدوروں کا عالمی دن
ہر سال کی طرح آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں مزدوروں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ہر سال صرف اس دن مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے دنیا بھر میں آواز بلند کی جاتی ہے۔ جسے سننے والے تو سب ہوتے ہیں، مگر ان کے حقوق کی جنگ لڑنا والا کوئی ہوتا، ہر سال اس دن مزدوروں کی فلاح وبہبود کیلئے بڑے بڑے دعوے کیئے جاتے ہیں مگر عملی طور پر اس کے ثمرات کبھی بھی مزدور طبقے تک نہیں پہنچ سکے۔ مزے کی بات یہ کہ اس دن عام تعطیل کی وجہ سے سب ہی اپنے اپنے گھروں میں چین کی نیند لیتے ہیں سوائے مزدورں کے، میرا تجربہ ہے کہ اس دن ایک مزدور عام دنوں کی مناسبت سے زیادہ کام کرتا ہے، شاید اسی خوشی میں کہ آج ان کا دن منایا جا رہا ہے۔
اٹھو زمین سے اے راندگان خاک، اٹھو
خدا نے سر جو دیئے ہیں، انہیں اٹھا کے اٹھو
تمام سجدے بشر پر حرام ہوتے ہیں
( بس ایک سجدہ ہے جائز جو " اس" کو زیبا ہے)
اٹھو زمیں سے اے کشتگان درد کہ اب
وہ بے کسی کے زمانے تمام ہوتے ہیں !
یہ بے بسی کے وظیفے ۔۔۔۔ یہ عاجزی کے درد
ازل سے آج تک کس کے کام آئے ہیں !
حقوق گرتے نہیں کاسئہ گدائی میں
کبھی نہ بھیک کے ٹکڑوں پہ نام آۓ ہیں
اٹھو زمیں سے، اٹھاؤ سروں کو، دیکھو تو
تمھارے واسطے کیا کیا پیام آۓ ہیں !
بھلے دنوں کی توقع میں، جاگتی آنکھیں
بکھر گئیں اس مٹی میں انتظار کے بعد
جو خواب دیکھے ہیں صدیوں تمھارے آبا نے
جو تم بھی دیکھتے جاؤ گے رات دن، یوں ہی
تمھیں بھی خواب ہی واپس ملیں گے اور وہ بھی
بڑی اذیت و ذلت بہت پکار کے بعد !
سو اب جو دیکھو تو زندہ حقیقتیں دیکھو
کہ جن کے ساۓ میں تم کو حیات کرنی ہے
گزارنے ہیں یہی پر تمام آۓ دن
یہی تمھارے عزیزوں نے رات کرنی ہے
ہے سر حرمت آدم، زباں کی آزادی
کرو اے بخت گزیدو، جو بات کرنی ہے
خدا نے سر جو دیئے ہیں، انہیں اٹھا کے اٹھو
تمام سجدے بشر پر حرام ہوتے ہیں
( بس ایک سجدہ ہے جائز جو " اس" کو زیبا ہے)
اٹھو زمیں سے اے کشتگان درد کہ اب
وہ بے کسی کے زمانے تمام ہوتے ہیں !
یہ بے بسی کے وظیفے ۔۔۔۔ یہ عاجزی کے درد
ازل سے آج تک کس کے کام آئے ہیں !
حقوق گرتے نہیں کاسئہ گدائی میں
کبھی نہ بھیک کے ٹکڑوں پہ نام آۓ ہیں
اٹھو زمیں سے، اٹھاؤ سروں کو، دیکھو تو
تمھارے واسطے کیا کیا پیام آۓ ہیں !
بھلے دنوں کی توقع میں، جاگتی آنکھیں
بکھر گئیں اس مٹی میں انتظار کے بعد
جو خواب دیکھے ہیں صدیوں تمھارے آبا نے
جو تم بھی دیکھتے جاؤ گے رات دن، یوں ہی
تمھیں بھی خواب ہی واپس ملیں گے اور وہ بھی
بڑی اذیت و ذلت بہت پکار کے بعد !
سو اب جو دیکھو تو زندہ حقیقتیں دیکھو
کہ جن کے ساۓ میں تم کو حیات کرنی ہے
گزارنے ہیں یہی پر تمام آۓ دن
یہی تمھارے عزیزوں نے رات کرنی ہے
ہے سر حرمت آدم، زباں کی آزادی
کرو اے بخت گزیدو، جو بات کرنی ہے
1 comments:
دنیا نمائش کا نام ہے اور دین عمل کا ۔ شیطان کے بہکائے لوگوں کو ظاہری آنکھوں پر بھروسہ ہے اور ان کی عقل کی آنکھ بند ہوتی ہے ۔ ظاہری زیبائش انہیں نظر آتی ہے اسلئے اُسی کے پیچھے دوڑتے ہیں جبکہ کہ خالق و مالک کو اندرونی زیبائش پسند ہے ۔
5/06/2007 12:30:00 AMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔