ہیرے موتی لوگ
ڈیرہ غازی خان کی دھرتی میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی ہے، اگر کمی ہے تو حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہاں اچھے سے اچھا شاعر، اعلٰی سے اعلٰی گلوگار، مصور، مجمہ ساز، خطاط اور دستکار پڑا ہوا ہے۔ لیکن زندگی بھر ان کی شہرت اور پذیرائی ان کی شکستہ، بوسیدہ، جابجا سے آثار قدیمہ کی تصویر پیش کرتی ہوئی چاردیواری کی حدود سے آگے نہیں بڑھ پاتی، یہاں تک کہ یہیں پر گھٹ کر مر جاتی ہے۔ اس علاقے کے فنکاروں کے ساتھ یہ ظلم اور ناانصافی کیوں؟ یہ سوال برسہا برس سے ڈیرہ غازی خان کی گرد کے ساتھ کوچہ و بازار میں رسوا پھرتا ہے، مگر کوئی نہیں جو اسے جواب کے سانچے میں ڈھال کر رنگ و روپ کے اجالوں سے نکھار دے۔ اندھیرے، گمنامیاں اور ناقدری کی دھول نہ جانے کب تک ان کے چہروں کو دھندلائے رکھے گی۔
شمیم خطاط کو کون نہیں جانتا؟ جو اسی سرزمین پر برسہا برس سے خطاطی سکھا کر اپنا پیٹ پال رہا تھا، صرف دو دن پہلے ہی گمنامی کے گھپ اندھیروں میں کہیں گم ہو گیا۔
میڈا عشق وی توں، میڈا دین وی توں‘ گا کر سوز و آواز کا جادو جگانے والے پٹھانے خان مرحوم سے کون واقف نہیں، انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اپنی آخری زندگی گزارنے والے پٹھانے خان مرحوم کے گھرانے کو دو وقت کی روٹی کے لئے آخر کار پٹھانے خان مرحوم کے ساز بجانے والے آلات کی بولی لگوانے کا سوچنا پڑا۔
کوئی ایک دکھ ہو تو بندہ رونا بھی روئے، یہاں تو دکھوں کا ایک جہان آباد ہے۔ لوگ تڑپتے پھرتے ہیں لیکن کوئی ایسا نہیں جو ان کے درد کا درماں بنے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم لوگ جن کو اپنے کندھوں پر بیٹھا کر اسلام آباد کی عظمتوں کے سپرد کرتے ہیں وہ ان فضاؤں میں جاتے ہی زمینی لوگوں کو یوں بھول جاتے ہیں جیسے کبھی ان کے پاس لوٹ کر زمین پر نہیں آنا۔
اپنے ہی مفادات کی ہیبتناکیوں میں گم لوگو! ہوش میں آؤ اور مٹی میں ملے ہوئے ان ہیرے، موتیوں کو مٹی میں دفن ہونے سے بچا لو، ان کی چمک سے دنیا کو خیرہ کرنے کے لئے انہیں بھی وہی مواقع فراہم کرو جو تم نے لاہور، اسلام آباد اور اس جیسے دیگر علاقوں کو فراہم کیئے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ملک کے ایک علاقے پر تو نوازشات کی بارش اور دوسرا ایک قطرے کو ترستا رہے، مساوات کا دعوٰی کرتے ہو تو اس کی لاج بھی رکھو۔
4 comments:
سلام
5/06/2007 12:25:00 AMٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی حکومت کی طرف دیکھنا وہ بھی بے حس حکومتوں کی طرف دیکھنا بےوقوفی ہے۔ ایسے میں انسان کو خود کچھ کرنا چاہئے۔
آپ ڈیرہ غازی خان کے فن یا عجائبات کو متعارف کرانے کے لئے کافی کام کر سکتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو تصاویر فراہم کر سکتے ہیں۔ ان پر کالم لکھ کر مکمل پتہ اور دوسری معلومات دے سکتے ہیں۔
یہ مسئلہ صرف ڈیرہ غازی خان کا نہیں پورے پاکستان کا ہے اور اس وقت تک رہے گا جب تک ہماری قوم کی اکثریت چڑھتے سورج کی پوجا چھوڑ کر اپنے ہنر یا قابلیت پر توجہ نہیں دیتی
5/06/2007 12:26:00 AMافتخار انکل ٹھیک کہتے ہیں۔۔یہ دکھڑا پورا پاکستان کا ہے۔
5/06/2007 12:26:00 AMمنیر بھائی۔۔۔اردو پیڈ کی پاتھ کا بھی تک مسئلہ حل نہیں ہوا کیا؟
آپ کی بات سے مجھے مکمل اتفاق ہے مگر بڑے شہروں کی نسبت چھوٹے شہروں میں جہاں ٹی وی اور ریڈیو اسٹیشن تک نہ ہو وہاں ایسے مسائل حد درجہ زیادہ ہیں، چھوٹے شہروں کے فنکاروں کے لئے لازمی ہے کہ وہ پہلے مال روڈ لاہور کی خاک چھانیں، نہیں جناب انہیں بھی اپنا پورا حصہ اور حق ملنا چاہیے۔
5/06/2007 12:26:00 AMنہیں ساجد بھیا ابھی تک یہ مسلہ حل نہیں ہو سکا۔ آپ بتائیں اس کا کوئی حل تجویز کیا ہے ابھی تک ایسے ہی گزارہ کرنا ہے۔
بی ٹی
آپ کی بات بھی اپنی جگہ بالکل صحیح ہے، میں کوشش کروں گا کہ اس طرف کچھ زیادہ توجہ دوں۔
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔