وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
کہاں آ کے رکنے تھے راستے، کہاں موڑ تھا، اسے بھول جا
وہ جو مل گیا، اسے یاد رکھ، جو نہیں ملا، اسے بھول جا
وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر میری بات سن، اسے بھول جا، اسے بھول جا
میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں، تیری آس، تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی میرے کان میں،مرے پاس آ، اسے بھول جا
کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم، تیرے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا، تو بھی مسکرا، اسے بھول جا
نہ وہ آنکھ ہی تری آنکھ تھی، نہ وہ خواب ہی ترا خواب تھا
دلِ منتظر تو یہ کس لئے ترا جاگنا، اسے بھول جا
یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا، اسے دیکھ، اس پر یقیں نہ کر
نہیں عکس کوئی بھی مستقل سرِ آئینہ، اسے بھول جا
جو بساطِ جاں ہی ُالٹ گیا، وہ جو راستے میں پلٹ گیا
اسے روکنے سے حصول کیا، اسے مت بلا، اسے بھول جا
امجد اسلام امجد
2 comments:
زبردست تصویر اور نظم....;)
7/31/2007 11:48:00 PMشکریہ ساجد بھائی
8/01/2007 12:22:00 AMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔