23 August, 2007

نواز، شہباز وطن واپس آسکتے ہیں

بی بی سی اردو کی خبر کے مطابق پاکستان کے سپریم کورٹ نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کی آئینی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں وطن واپس آنے کی اجازت دے دی ہے۔
یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے سنایا۔
اس سے قبل سماعت کے دوران وفاق کے وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ شریف خاندان رضاکارانہ طور پر اپنی مرضی سے ملک سے باہر گئے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے صدر مشرف کی کتاب ان دا لائن آف فائر کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس میں لکھا گیا ہے کہ سابق وزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف ملک سے نہیں جانا چاہتے تھے۔ عدالت نے صدر مشرف کی کتاب احمد رضا قصوری کے حوالے کی اور انہیں متعلقہ صفحات پڑھنے کو کہا اور ان کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیا۔
عدالت کے استفسار پر احمد رضا قصوری نے بتایا کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی واپسی سے متعلق کوئی منفی عدالتی فیصلہ موجود نہیں ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی منفی عدالتی فیصلہ موجود نہیں ہے تو وہ وطن واپس آ سکتے ہیں۔
وفاق کے دوسرے وکیل راجہ ابراہیم ستی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اٹھائیس مئی انیس سو اٹھانوے سے ملک میں ایمرجنسی لاگو ہے۔ اس پر عدالت نے ابراہیم ستی سے کہا کہ وہ ذرا سوچ کر بیان دیں کیونکہ ان کا یہ بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے دوررس نتائج ہو سکتے ہیں۔
عدالت کے پوچھنے پر اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم نے ایمرجنسی سے متعلق بیان کی وضاحت کے لیے بیس منٹ کی مہلت مانگی جس پر عدالت کی کارروائی بیس منٹ کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ اپنی عدالت میں واپسی پر اٹانی جنرل نے کہا کہ ملک میں انسانی حقوق بحال ہیں اور کوئی ایمرجنسی نہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا تھا کہ عدالت اس آئینی پٹیشن کا فیصلہ آج ہی کرنا چاہتی ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ چند روز بعد لارجر بینچ کے کچھ جج صاحبان تعطیلات کی وجہ سے دستیاب نہ ہوں۔
صبح کی کارروائی کے دوران سات رکنی بینچ نے کہا تھا کہ حکومت کی طرف سے عدالت میں جمع کرائی جانے والی دستاویزات معاہدہ کی ذیل میں نہیں آتیں اور انہیں صرف عہد نامہ کہا جا سکتا ہے۔
سماعت کے آغاز میں نواز شریف خاندان کے وکیل جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے پٹیشنوں کی حمایت میں دلائل دیئے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل پندرہ کے تحت ملک کے ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے بلا کسی روک ٹوک کے وطن واپس آ سکتا ہے۔
پٹیشنوں کے خلاف دلائل دیتے ہوئے وفاق کے وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ شریف خاندان کی طرف سے دائر کی جانے والی پٹیشنیں قابل سماعت نہیں ہیں۔ عدالت کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ حکومت نے ایک دوست ملک سے شریف خاندان کے معاہدوں کی اصل کاپیاں حاصل کر لی ہیں۔
اس پر بینچ میں شامل جسٹس محمد رضا خان نے کہا کہ ان دستاویزات کو معاہدے نہ کہا جائے کیونکہ ان پر صرف ایک فریق کے دستخط موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان دستاویزات کو زیادہ سے زیادہ عہد نامے کہا جا سکتا ہے۔
شریف خاندان کی جلاوطنی سے متعلق پٹیشنوں کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے سربراہی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کر رہے تھے جبکہ جسٹس جاوید اقبال، جسٹس سردار محمد رضا خان، جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس ایم جاوید بٹر، جسٹس ناصرالملک اور جسٹس راجہ فیاض احمد بینچ کے دیگر ارکان میں شامل تھے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنماء اور کارکن آج کی سماعت میں بہت دلچسپی لے رہے تھے۔ پارٹی کی ایک مرکزی رہنماء تہمینہ دولتانہ اور حمزہ شریف عدالت کے اندر موجود تھے جبکہ مسلم لیگ کی قیادت کے کئی ارکان رہا ہونے والے لیگی رہنماء مخدوم جاوید ہاشمی سے انکے بھائی کے انتقال پر تعزیت کے لیے ملتان میں ہیں۔
اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم کے علاوہ وفاق کی نمائندگی احمد رضا قصوری اور راجہ ابراہیم ستی کر رہے تھے جبکہ جسٹس (ریٹائرڈ) فخرالدین جی ابراہیم شریف خاندان کے وکیل ہیں۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف نے دو مختلف آئینی درخواستوں میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ ملک میں رہنا اور اگلے انتخابات میں حصہ لینا شریف برادران کا بنیادی حق ہے اور حکومت ان کی ملک واپسی میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرے۔


 


جلاوطنی کے معاہدے میں ہے کیا؟


عوام الناس کی سہولت کے لئے بی بی سی اردو نے اس معاہدے کا اردو ترجمہ کیا ہے جسے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔(اصل معاہدے کی کاپی یہاں ہے)



معاہدے کی تفصیل
بدھ کے روز میاں نواز شریف اور میاں شریف کی وطن واپسی میں رکاوٹیں ختم کرنے کی استدعا سے متعلق آئینی درخواستوں کے سلسلے میں حکومتی موقف سپریم کورٹ میں داخل کرایا گیا۔
حکومتی موقف کے ساتھ حکومت نے اس مبینہ معاہدے کی نقول بھی منسلک کی ہیں جس پر، حکومت کے مطابق، میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے بیس دیگر افراد نے دسمبر دو ہزار کو ملک بدری کے وقت دستخط کیے تھے۔
حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی نقول کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اس معاہدے پر دو دسمبر سن دو ہزار کو دستخط کیے تھے جبکہ میاں شہباز شریف کے دستخطوں کے ساتھ پانچ دسمبر سن دو ہزار کی تاریخ درج ہے۔
میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے علاوہ ان دستاویزات پر کوئی اور دستخط نہیں ہیں۔ بائیس کے بائیس افراد کی طرف سے دستخط کیے جانے والے معاہدوں کی تحریر ایک جیسی ہے اور میں صرف نام اور دستخط مختلف ہیں۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے دستخطوں کی حامل انگریزی تحریر کی اردو تلخیص ذیل میں دی جا رہی ہے:

معاہدے کا اردو متن
’میں، محمد نواز شریف، اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ پاکستان میں جیل سے رہائی کے سلسلے میں میری طرف سے جینٹلمین میری منظوری سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ میں اس بات کا بھی اقرار کرتا ہوں کہ میں مذاکرات کے طریقہِ کار اور نتائج سے پوری طرح مطمئن ہوں اور یہ کہ مجھے مذاکرات کے عمل کے دروان پوری طرح باخبر رکھا گیا ہے اور یہ کہ میں مذاکرات کے دوران اٹھائے جانے والے ہر اقدام اور اس کے نتائج سے پوری طرح متفق ہوں۔
میں اقرار کرتا ہوں کہ اس ملک میں جانے پر، جس کے بارے میں میں نے رضامندی ظاہر کی ہے، میں کسی ایسے کام یا سیاسی سرگرمیوں، کسی بھی اور نوعیت کی سرگرمیوں سے دس سال تک اجتناب کروں جو پاکستان کے مفادات کے خلاف ہو یا پاکستان میں میری قید سے متعلق ہو۔
میں اس بات سے بھی رضا مند ہوں کہ میں دس سال تک پاکستان سے باہر رہوں گا اور میری رہائش اس ملک میں ہو گی جس کا میں نے انتخاب کیا ہے۔ تاہم مجھے اس ملک سے باہر جانے کی اجازت ہو گی بشرطِ میں اسی ملک میں واپس آنے پر آمادگی ظاہر کروں۔
میں اس بات کا بھی اقرار کرتا ہوں کہ میں کسی بھی فریق پر جنٹلمین یا پاکستان میں اپنی رہائی سے متعلقہ ملک کا نام ظاہر نہیں کروں گا اور یہ کہ اگر اس ملک سے کہیں اور جاؤں کو تو ایسا صرف ان کی منظوری سے کروں گا۔ میں اس بات کا بھی اقرار کرتا ہوں کہ معاہدے میں شریک کسی بھی فریق یا جنٹیلمین کو اس سلسلے میں کسی بھی دعوے سے بری الذمہ سمجھتا ہوں‘۔
اس کے علاوہ حکومت نے عدالت کے سامنے میاں شہباز شریف کے دستخطوں کی حامل اس مفاہمت کی نقل بھی جمع کرائی ہے جس پر انہوں نے چھبیس جنوری سن دو ہزار تین کو سعودی عرب سے امریکہ جاتے وقت دستخط کیے تھے۔ اس تحریر میں انہوں نے اپنے امریکہ کے دورے کا مقصد فوری طبی امداد کو بیان کیا تھا۔
اس تحریر میں انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ طبی امداد کے خاتمے پر واپس سعودی عرب آ جائیں گے۔ انہوں نے اس بات کا بھی اقرار کیا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھ جانے والے امریکہ میں اپنے قیام کے دوران نہ تو کوئی انٹرویو دیں گے اور نہ ہی میڈیا سے رابطہ رکھیں گے یا کوئی بیان دیں گے۔ بشکریہ بی بی اردو

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب