17 August, 2007

صدر کے عہدے کا انتخاب

صدر کے عہدے کیلئے انتخاب، عہدے پر فائز صدرکی میعاد ختم ہونے سے زیادہ سے زیادہ 60 دن (دو ماہ) اور کم سے کم 30 دن (ایک ماہ) قبل کر لیا جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ اگر یہ انتخاب مذکورہ بالا مدت کے اندر اس لئے نہ کرایا جا سکتا ہو کہ قومی اسمبلی توڑ دی گئی ہے تو یہ اسمبلی کے عام انتخابات کے 30 دن (ایک ماہ) کے اندر کرایا جائیگا۔ صدرکا خالی عہدہ پر کرنے کے لئے انتخاب عہدہ خالی ہونے کے 30 دن (ایک ماہ) کے اندر کرایا جائے گا مگر شرط یہ ہے کہ اگریہ انتخاب مذکورہ بالا مدت کے اندر اس لئے نہ کرایا جا سکتا ہو کہ قومی اسمبلی توڑ دی گئی ہے تو یہ اسمبلی کے عام انتخابات کے 30 دن (ایک ماہ) کے اندر کرایا جا سکے۔صدر کے انتخاب کے جواز پرکسی عدالت یا دیگر ہیئت مجاز کی طرف سے یا اس کے سامنے اعتراض نہیں کیا جائے گا۔
 
صدر کا انتخابی ادارہ
صدر کا انتخابی ادارہ دونوں ایوانوں کے ارکان اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان پر مشتمل ہو گا۔

صدر کے انتخاب کی اہلیت
صدر مسلمان ہوگا 45 سال یا اس سے زائد عمر ہوگی اور قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل ہو اور کسی منفعت بخش عہدے پر فائز نہ ہو اور نہ کسی دوسری حیثیت میں ہو جو اس کی خدمات میں اس کومعاوضے کا حق ہو۔ صدر کے عہدے پر فائز کوئی شخص اس عہدے کیلئے دوبارہ انتخاب کا اہل ہوگا لیکن کوئی شخص دو متواتر میعادوں سے زائد اس عہدے پر فائز نہیں ہوگا اوریہ دستور کے تابع ہوگا۔ صدر کا عہدہ دستور کے تابع جس دن وہ عہدہ سنبھالے گا پانچ سال تک مدت ہو گی۔ مگر شرط یہ ہے کہ صدر اپنی میعاد ختم ہونے کے باوجود اپنے جانشین کے عہدہ سنبھالنے تک اس عہدے پر فائز رہیں گے۔

جدول دوم۔ آرٹیکل 41 (3) صدر کا انتخاب
(1) چیف الیکشن کمشنر صدر کے عہدے کے لئے انتخاب کا انعقاد اورانصرام کرے گا اور مذکورہ انتخاب کیلئے افسر رائے شماری (ریٹرننگ افسر) ہوگا۔
(2) چیف الیکشن کمشنر مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے ارکان کے اجلاس اورصوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے اجلاس کی صدارت کرنے کے لئے افسران صدارت کنندہ (پریذائڈنگ افسران) کا تقرر کرے گا۔
(3) چیف الیکشن کمشنر عام اعلان کے ذریعے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے لئے، جانچ پڑتال کرنے کیلئے نام واپس لینے کیلئے اگر کوئی ہو، اور انتخاب کے انعقاد کیلئے اگر ضروری ہو وقت اور مقام مقررکرے گا۔
(4) نامزدگی کیلئے مقررہ کردہ دن کی دوپہر سے پہلے مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا کوئی رکن نامزدگی کا ایک کاغذ جس پر بحیثیت تجویز کنندہ خود اس کے اور بحیثیت تائید کنندہ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا جیسی بھی صورت ہو، اسمبلی کے کسی دوسرے رکن کے دستخط ہوں اورجس کے ساتھ نامزد شخص کا ایک دستخط شدہ بیان منسلک ہو کہ وہ نامزدگی پر رضا مند ہے افسر صدارت کنندہ کو دے کر کسی ایسے شخص کو بحیثیت صدر انتخاب کے لئے نامزد کر سکے گا جو بحیثیت صدر انتخاب کا اہل ہو، مگر شرط یہ ہے کہ کوئی شخص تجویز کنندہ یا تائید کنندہ کی حیثیت سے کسی ایک انتخاب میں ایک سے زیادہ کاغذ نامزدگی پر دستخط نہیں کرے گا۔
(5) جانچ پڑتال چیف الیکشن کمشنر اس کی طرف سے مقرر کردہ وقت اور مقام پر کرے گا اور اگر جانچ پڑتال کے بعد صرف ایک شخص جائز طور پر نامزد رہ جائے تو چیف الیکشن کمشنر اس شخص کو منتخب شدہ قرار دے گا یا اگر اس شخص سے زیادہ جائز طور پر نامزد رہ جائیں تو وہ عام اعلان کے ذریعے جائز طور پر نامزد اشخاص کے ناموں کا اعلان کرے گا جو بعد ازاں امیدوار کے نام سے موسوم ہوں گے۔
(6) کوئی امیدوار اس غرض کیلئے مقرر کردہ دن کی دوپہر سے قبل کسی وقت اس افسر صدارت کنندہ کو جس کے پاس اس کا کاغذ نامزدگی داخل کرایا گیا ہو اپنا دستخطی تحریری نوٹس دے کر اپنی امیدواری سے دستبردار ہو سکے گا اور کسی امیدوار کو جس نے اس پیرے کے تحت اپنی امیدواری سے دستبرداری کا نوٹس دے دیا ہو مذکورہ نوٹس کو منسوخ کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔
(7) اگر ایک کے سوا باقی تمام امیدوار دستبردار ہوگئے ہوں تو الیکشن کمشنراس ایک امیدوار کو منتخب قرار دے دے گا۔
(8) اگر کوئی بھی دستبردار نہ ہو یا اگر دستبرداریوں کے بعد دو یا زیادہ امیدوار رہ جائیں تو چیف الیکشن کمشنر عام اعلان کے ذریعے امیدواروں اوران کے تجویز کنندہ اورتائید کنندگان کے ناموں کا اعلان کریگا اور مابعد پیروں کے احکام کے مطابق خفیہ رائے دہی کے ذریعے رائے دہی منعقد کرنے کی کارروائی کرے گا۔
(9) اگر کوئی امیدوار جس کی نامزدگی درست پائی گئی ہو نامزدگی کیلئے مقرر کردہ وقت کے بعد فوت ہو جائے اور رائے دہی کے آغاز سے قبل افسر صدارت کنندہ کواس کی موت کی اطلاع مل جائے تو افسر صدارت کنندہ، امیدوار کی موت کے امر واقعہ کے بارے میں مطمئن ہو جانے پر رائے دہی منسوخ کر دیگا اور اس امر واقعہ کی اطلاع چیف الیکش کمشنر کو دے گا اور اس انتخاب سے متعلق تمام کارروائی ہر لحاظ سے اس طرح از نو شروع کی جائے گی گویا کہ نئے انتخاب کیلئے ہو۔ مگر شرط یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کی صورت میں جس کی نامزدگی رائے دہی کی تنسیخ کے وقت جائز تھی مزید نامزدگی ضروری نہیں ہوگی۔ مزید شرط یہ ہے کہ کوئی شخص جس نے رائے دہی منسوخ ہونے سے پہلے اس جدول کے پیرا 6 کے تحت اپنی امیدواری سے دستبرداری کا نوٹس دیدیا ہو، مذکورہ تنسیخ کے بعد انتخاب کیلئے بحیثیت امیدوار نامزد کئے جانے کا نااہل نہیں ہوگا۔ رائے دہی کا انعقاد مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) اور ہر ایک صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں ہوگا اور متعلقہ افسران صدارت کنندہ ایسے افسروں کی اعانت سے رائے دہی کا انصرام کریں گے جس طرح کہ وہ چیف الیکشن کمشنر کی منظوری سے علی الترتیب مقرر کریں۔
(11) مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) اور ہر ایک صوبائی اسمبلی کے ہر ایک رکن کو جو خود کو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا جیسی بھی صورت ہو اس صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں ووٹ ڈالنے کے لئے پیش کرے جس کا وہ رکن ہو (جس کا حوالہ بعد ازیں ووٹ دینے والے شخص کے طور پر دیا گیا ہے) ایک انتخابی پرچی جاری کی جائے گی اوروہ اپنا ووٹ اصالتاً پرچی پر مابعد پیروں کے احکام کے مطابق نشان لگا کر استعمال کریگا۔
(12) رائے دہی خفیہ رائے دہی کے ذریعے ایسی انتخابی پرچیوں کی وساطت سے ہو گی جن پر ایسے تمام امیدواروں کے نام حروف تہجی کے لحاظ سے درج ہوں گے جو دستبردار نہ ہوئے ہوں اور کوئی ووٹ دینے والا شخص اس شخص کے نام کے سامنے جسے وہ ووٹ دینا چاہتا ہو نشان لگا کر ووٹ دیگا۔
(13) انتخابی پرچیاں مثنیٰ کے ساتھ انتخابی پرچیوں کی ایک کتاب سے جاری کی جائیں گی ہر مثنیٰ پر نمبر درج ہوگا اور جب کوئی انتخابی پرچی کسی ووٹ دینے والے شخص کو جاری کی جائے تو اس کا نام مثنیٰ پر درج کیا جائے گا اور افسر صدارت کنندہ کے مختصر دستخط کے ذریعے انتخابی پرچی کی تصدیق کی جائے گی۔
(14) انتخابی پرچی پر نشان لگا دینے کے بعد ووٹ دینے والا شخص اسے انتخابی پرچی کے صندوق میں ڈالے گا جو افسر صدارت کنندہ کے سامنے رکھا ہوگا۔
(15) اگر کسی ووٹ دینے والے شخص سے کوئی انتخابی پرچی خراب ہو جائے تو وہ اسے افسر صدارت کنندہ کو واپس کردے گا جو پہلی انتخابی پرچی کو منسوخ کر کے اور متعلقہ مثنیٰ پر منسوخ کا نشان لگا کر اسے دوسری انتخابی پرچی جاری کرے گا۔
(16) کوئی انتخابی پرچی ناجائز ہوگی اگر (اول) اس پر کوئی ایسا نام، لفظ یا نشان ہو جس سے ووٹ دینے والے شخص کی شناخت ہو سکے یا (دوم) اس پر افسر صدارت کنندہ کے مختصر دستخط نہ ہو یا (سوم) اس پر کوئی نشان نہ ہو یا (چہارم) دو یا زیادہ امیدواروں کے نام کے سامنے نشان لگایا گیا ہو یا (پنجم) اس امیدوار کی شناخت کے بارے میں تعین نہ ہو سکے جس کے نام کے سامنے نشان لگایا گیا ہو۔
(17) رائے دہی ختم ہونے کے بعد ہرایک افسر صدارت کنندہ ایسے امیدواروں یا ان کے کارندگان مجاز کی موجودگی میں جو حاضر رہنا چاہیں، انتخابی پرچیوں کے صندوقوں کو کھولے گا اور انہیں خالی کرے گا اور ان میں موجود انتخابی پرچیوں کی جانچ پڑتال کرے گا ایسی پرچیوں کو مسترد کرتے ہوئے جو ناجائز ہوں، جائز انتخابی پرچیوں پر ہر ایک امیدوار کے لئے درج شدہ ووٹوں کی تعداد کا شمار کرے گا اور بائیں طور پر درج شدہ ووٹوں کی تعداد سے چیف الیکشن کمشنر کو مطلع کرے گا۔
(18) (ا) چیف الیکشن کمشنر انتخاب کا نتیجہ حسب ذیل طریقے سے متعین کرے گا یعنی
(الف) مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں ہر ایک امیدوار کے حق میں ڈالے ہوئے ووٹ شمار کئے جائیں گے۔
(ب) کسی صوبائی اسمبلی میں ہر ایک امیدوار کے حق میں ڈالے ہوئے ووٹوں کو اس صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی مجموعی تعداد سے جس میں فی الوقت سب سے کم نشستیں ہوں ضرب دیا جائے گا اوراس صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی مجموعی تعداد سے جس میں ووٹ ڈالے گئے ہوں تقسیم کیا جائے گا اور
(ج) شق (ب) میں محولہ طریقے سے شمار کردہ ووٹوں کی تعداد کو شق (الف) کے تحت شمار کردہ ووٹوں کی تعداد میں جمع کر دیا جائے گا۔
تشریح : اس پیرے میں ”نشستوں کی مجموعی تعداد “ میں غیر مسلموں اور خواتین کیلئے مخصوص نشستیں شامل ہیں۔ (2)کسی کسر کو قریب ترین کل میں بدل دیا جائیگا۔
(19) اس امیدوار کو جس نے پیرا 18 میں مصرحہ طریقے سے مدون ووٹوں کی سب سے زیادہ تعداد حاصل کی ہو چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے منتخب قرار دے دیا جائے گا۔
(20) جبکہ کسی رائے دہی میں کوئی سے دو یا زیادہ امیدوار ووٹوں کی مساوی تعداد حاصل کریں تو منتخب کئے جانے والے امیدوار کا چناؤ قرعہ اندازی کے ذریعے کیا جائیگا۔
(21) جبکہ کسی رائے دہی کے بعد ووٹوں کا شمار مکمل ہو گیا ہو اوررائے شماری کا نتیجہ متعین ہو گیا ہو چیف الیکشن کمشنر فی الفور ان کے سامنے جو موجود ہوں نتیجہ کا اعلان کرے گا اور نتیجہ سے وفاقی حکومت کو مطلع کرے گا جو فی الفور نتیجہ کو عام اعلان کے ذریعے مشتہر کرنے کا حکم دے گی۔
(22) چیف الیکشن کمشنر اعلان عام کے ذریعے صدر کی منظوری سے اس جدول کی اغراض کی بجا آوری کے لئے قواعد وضع کرے سکے گا۔ دستور پاکستان 1973 کے مطابق صدر کا عہدہ پانچ سال کی میعاد کا ہے اور صدارت پر متمکن شخص صرف دو دفعہ اس عہدے پر فائز رہ سکتا ہے جس کی مجموعی میعاد دس سال بنتی ہے جب صدر کے پانچ سال میعاد میں چار سال دس ماہ مکمل ہو جاتے ہیں تو پانچویں سال کا گیارہواں ماہ صدر کے انتخاب کے لئے مقرر کیا گیا ہے اورانتخاب جدول دوم کے طریقہ کار کے تحت ہوتا ہے اگر قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی ہو تو پھر یہ انتخاب پانچویں سال کے گیارہویں ماہ نہیں ہوتا بلکہ قومی اسمبلی کے دوبارہ منتخب ہو کر حلف لینے کے بعد 30 دن (ایک ماہ) کے اندر منعقد کیا جاتا ہے لیکن طریقہ کار جدول دوم میں دیا گیا اختیار کیا جاتا ہے۔
اس طریقہ کار سے ہٹ کر کوئی اورطریقہ کار اختیار کیا جائے یا مدت سے ہٹ کر کسی اوروقت پر صدر کا انتخاب کیا جائے تو نہ صرف یہ دستور سے روگردانی بلکہ دستور کوتوڑنے کی بات ہوگی۔ قانون و دستور کی فرماروائی کا یہ تقاضا ہے کہ دستور پاکستان 1973 کو ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھا جائے اور صدارتی انتخاب دستور کے مطابق کرایا جائے۔ آئیے اب صدر جنرل پرویز مشرف کے صدر کے انتخاب دوسری مرتبہ کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ آیا دستور کے تقاضے پورے کرنے کے حوالے سے ان کا انتخاب کب ہوگا۔
جنرل پرویز مشرف نے بطور صدرپاکستان 16 نومبر 2002ء کو آرٹیکل 42 کے تحت حلف اٹھایا اور آرٹیکل 44 شق (1) کے تحت پانچ سال کے لئے صدر منتخب ہوئے صدر جنرل پرویز مشرف کی دستوری میعاد 15 نومبر 2007ء کو پوری ہو رہی ہے مگر دستور کا صدارت کے انتخاب کا نسخہ یہ کہتا ہے کہ پانچویں سال کے پورے ہونے سے دو ماہ قبل اور ایک ماہ سے پہلے صدر کا انتخاب دوبارہ لازمی ہے لہٰذا اس طرح سے صدر پرویزمشرف کا دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے کے لئے انتخاب کا مہینہ گیارہواں مہینہ 15 ستمبر سے 15 اکتوبر 2007ء بنتا ہے ان 30دنوں (ایک ماہ) میں چیف الیکشن کمشنر نے جدول دوم کے تحت دوبارہ صدارتی انتخاب کا اعلان کرنا ہے اور یہ اعلان یکم ستمبر 2007ء سے ہوگا اور یہ سارا صدارتی انتخاب کا عمل 15 اکتوبر 2007ء تک مکمل ہو جائے گا۔
انتخابی ادارہ جو دونوں ایوانوں اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین پر مشتمل ہے اس انتخاب کے وقت 2002ء کے منتخب شدہ ارکان موجود ہوں گے جنہوں نے صدر پرویز مشرف کو اعتماد کا ووٹ دے کر صدر بنایا ہے دوسری پانچ سالہ مدت کیلئے بھی منتخب کریں گے مگر اس انتخاب کے حوالے سے حزب اختلاف کے سیاسی رہنما اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ انتخابی ادارہ جس نے پہلے ہی صدر کو منتخب کیا تھا اب دوبارہ اسی ادارے کو دوبارہ منختب کرنا اخلاقی طور پر درست نہیں ہے یہ بنیادی طور پر بے وجہ دلیل ہے بصورت دیگر پھر دستور سے روگردانی کرنی پڑے گی اور دستور کو توڑ کر انتخاب کرانا پڑے گا دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دستور کو نہ ماننا دستور کی بنیادی روح کے خلاف ہے اور ہر شہری کا دستور کو ماننا فرض عین ہے لہٰذا صدر پرویز مشرف اور دوسرے امیدوار صدارت کے لئے 15 ستمبر سے 15 اکتوبر 2007ء تک صدارتی انتخاب میں جائیں گے اور جن کو ووٹوں کی اکثریت حاصل ہو گی وہی صدر منتخب ہو گا۔
سیاسی عمائدین ایک مسئلہ عمومی طور پر پیش کر رہے ہیں کہ اگر کوئی صوبائی اسمبلی توڑ دی جائے جو حزب اختلاف کی ہے تو پھر صدارتی انتخاب کیسے ہوگا اوراگر ہوگا تو وہ دستوری طور کیسے درست ہوگا اس ضمن میں یہ حوالہ دینا کافی ہے کہ صوبائی اسمبلی کے اراکین 1985 میں آٹھویں ترمیم کے حوالے سے صدارتی انتخابی ادارہ میں ڈالے گئے اور اگرایک تو کجا ساری صوبائی اسمبلیاں ٹوٹ جائیں اور قومی اسمبلی برقرار رہے تو انتخاب قانونی اور دستوری ہوگا اور وہ کسی مجاز عدالت یا فورم میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا لہٰذا اس کیلئے حوالہ 1974ء کو بھارت کا ایک کیس ہے جوصدر نے سپریم کورٹ کو بھیج کراس سے رائے لی اوراس میں سپریم کورٹ آف انڈیا کی مکمل عدالت نے صدر کے انتخاب کو ضروری قرار دیا باوجود کہ وہاں کی صوبائی اسمبلی ٹوٹے ہونے کے سبب اور یہ تحریر کیا کہ صوبائی اسمبلی ٹوٹے ہونے کے باوجود صدارتی انتخاب لازمی ہے اوراسی لئے صدر کے انتخاب کو کسی مجاز عدالت یا فورم میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا اور وہ کیس AIR 1974 Supreme Court Page 1682 ہے اور کوئی بھی اگر اس کا مطالعہ کرنا چاہے تو وہ پوری آگاہی حاصل کر سکتا ہے کہ صدارتی انتخاب بصورت صوبائی اسمبلی نہ ہونے یا ایک یا دو صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے سے اس پر اثر انداز نہیں ہوتی اور ہر حال میں صدارتی انتخاب کرانا ضروری ہے۔
دستور میں صدارت کے انتخاب کی یہ اسکیم نہ تو صدر جنرل پرویز مشرف نے لیگل فریم ورک آرڈر 2002ء (چیف ایگزیکٹو آرڈر نمبر 2202,24) کے تحت ڈالی ہے اور نہ ہی اس اسکیم میں 1973 سے لے کر آج تک کوئی ترمیم لائی گئی ہے۔ یہ خالصتاً 1973ء کے دستور کی اسکیم ہے جس میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی لہٰذا اس سے یہ بھی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ کسی شخص کو مخصوص حالات میں صدر منتخب کرنے کے لئے خاص حالات پیدا کئے گئے ہیں جس کو بدنیتی پر مبنی کہا جا سکے۔


ڈاکٹر شیر افگن نیازی، وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور


بشکریہ روزنامہ جنگ

2 comments:

میرا پاکستان نے لکھا ہے

اگر مخصوص حالات کا سہارا نہیں‌لیا جارہا تو موجودہ صدر یعنی جنرل پرویز مشرف صدر کے عہدے کیلیے نااہل ہیں‌کیونکہ وہ اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے کی شرط پوری نہیں‌کرتے۔ اس کی وجہ ان کا سرکاری ملازمت میں‌ہونا ہے۔ سرکاری ملازم اسمبلی کا انتخاب نہیں‌لڑسکتا اور اپنی ملازمت سے نکلنے کے بعد دوسال تک اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا اہل نہیں‌ہوتا۔
صدر نے ہرحال میں‌اگر منتخب ہونے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو پھر احتجاجی تحریک ہی ان کا راستہ روک سکتی ہے۔ ویسے اخلاقی لحاظ سے جنرل صاحب کا انہی اسمبلیوں‌سے اگلے پانچ سال کیلیے ووٹ لینا غلط ہے۔

8/17/2007 06:23:00 AM
اجمل نے لکھا ہے

موجودہ صدر کا موجودہ اسمبلیوں سے انتخاب موجودہ اسمبلییں کے ارکان کی غیرت اور دیانت کا امتحان ہے ۔ غیرتمند اور دیانتدار اسے ووٹ نہیں دے گا ۔

8/18/2007 06:16:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب