20 November, 2007

پہلے کبھی انسان ہوا کرتا تھا میں بھی


کب طاری ہوئی مجھ پہ یہ شب بھول گیا ہوں
ہوتے تھے سویروں کے جو ڈھب بھول گیا ہوں
پہلے کبھی انسان ہوا کرتا تھا میں بھی
اس جبر نے کیا کر دیا اب بھول گیا ہوں
اب میرا کوئی طرز تکلم ہی نہیں ہے
میں بزم کا تہذیب و ادب بھول گیا ہوں
شاعر نے کہا بول لب آزاد ہیں تیرے
اک میں ہوں کہ ہر جنبش لب بھول گیا ہوں
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی آزادی کا سورج
کب ڈوبا تھا یہ بات میں اب بھول گیا ہوں
میری بھی سنا کرتا تھا فریاد کبھی وہ
میرا بھی کبھی ہوتا تھا رب بھول گیا ہوں
آزادی غلامی سے ملی جب سے ہے مجھ کو
آقاؤں کا ہر قہر و غضب بھول گیا ہوں
اک چھیڑ، کوئی شوخی، ذرا لطف و شرارت
دہشت میں میری جان ، میں سب بھول گیا ہوں
ماضی کا کوئی خواب نہ آئندہ کی امید
کب یاد تھا کچھ مجھ کو؟ میں کب بھول گیا ہوں؟



مزید شعر ایک اور کیفیت میں ہوئے۔ پیش ہیں:



میرے اسلاف کی پہچان ذرا رُک جاؤ
جانے والی ہے میری جان ذرا رُک جاؤ
میری مٹھی میں رکی پیاری ریت کے پیارے نقشے
یوں بکھرنا نہ میری جان ذرا رک جاؤ
عمر بھر میں نے چکائے ہیں تیرے سارے حساب
رہ گیا تھوڑا سا بھگتان ذرا رک جاؤ
میں نے دلہن کی طرح تجھ کو سجے دیکھا ہے
دیکھ لوں اور تیری شان ذرا رک جاؤ
مانگ میں تیری لہو میرا بھرا رہتا تھا
تجھ پہ میں اب بھی ہوں قربان ذرا رک جاؤ
آج میں تجھ کو دکھا سکتا نہیں منہ اپنا
اب نہیں مجھ میں کوئی مان ذرا رک جاؤ
اک وطن اور وطن، پھر سے بچا باقی وطن
کھو نہ بیٹھوں کہیں اوسان ذرا رک جاؤ
میری آنکھوں میں امیدوں کی چمک باقی ہے
چھوڑنا مجھے مت حیران ذرا رک جاؤ
جتنے بھی دوست تھے وہ سارے ہی دشمن نکلے
ڈگمگانے لگا ایمان ذرا رک جاؤ
مجھ سے پہلے نہ مجھے چھوڑ کے جانا پیارے
پہلے ہے میرا ہی امکان ذرا رک جاؤ


کلام ۔ نذیر ناجی ۔ کالم نگار روزنامہ جنگ

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب