شادی بیاہ کی رسمیں ۔ حصہ دوم
شادی کی رسم میں برات (بارات) سب سے اہم اور دلچسپ مرحلہ ہے۔ پہلے وقتوں میں برات سجے سجائے اونٹوں پر جاتی تھی، اونٹوں پر کچاوے رکھ کر اس پہ بیٹھا جاتا تھا اور اونٹوں کی ایک لمبی قطار ہوتی تھی۔ سب سے آگے والے اونٹ کو مرھی کہا جاتا تھا، جس پر دلہن کو بیٹھا کر لایا جاتا تھا، دوسرے تمام باراتی پیدل چلتے تھے صرف خواتین کو اونٹوں پر سواری کرتی تھی۔ دلہا بھی اپنی دلہن کے کچاوے کو سہارا دیئے سارا راستہ پیدل چلتا رہتا تھا۔ اصل بارات یعنی جنج یہی تھی لیکن اب اونٹوں کا دور ختم ہو گیا ہے۔ اس لئے اب باراتیں پیدل، بیل گاڑیوں، ٹریکٹر ٹرالیوں، بسوں اور کاروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ لیکن برات کا اصل حسن پیدل جانے اور آنے والی برات میں ہے۔ سب سے آگے ڈھول نقارے اور بین والے ہوتے ہیں، دلہا اور سربالا اس کے بعد باراتی ہوتے ہیں۔ دوست اور رشتے دار نوجوان سارا راستہ بھنگڑے ڈالتے جاتے ہیں، جہاں جہاں سے برات گزرتی ہے لوگ گھروں سے باہر آ کر اسے دیکھتے ہیں، بچے اور خواتین تو بڑے شوق سے برات دیکھتے ہیں۔ جونہی یہ برات لڑکی والوں کے گھر کے قریب پہنچتی ہے جوش اور جذبے میں مزید تیزی آ جاتی ہے۔ دلہن کے گھر سے ذرا فاصلے پر برات کچھ دیر کے لئے رک جاتی ہے اور لڑکی کے گھر میں موجود خواتین اور بچے دروازے اور دیواروں کے اوپر سے اس کا نظارہ کرتی ہیں۔ ویلیں دینے، بھنگڑا ڈالنے کے بعد اس برات کا لڑکی والے استقبال کرتے ہیں۔ خواتین گھر اور مرد باہر لگے ٹینٹوں، شامیانوں یا درختوں کے نیچے رکھی چارپائیوں، کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ لڑکی کی ماں اور دیگر خواتین لڑکے کی طرف سے آنے والی خواتین کو دروازے پر روک لیتی ہیں اور اندر سے دروازہ بند کر دیتی ہیں۔ دلہے کی ماں جب تک اندر پھیلائے ہوئے کپڑے جسے جھل کہتے ہیں میں رقم نہ ڈالے دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ بعض دفعہ ہلکی پھلکی مذاق بھی کی جاتی ہے اور اندر داخل ہونے والی خواتین کو درختوں کی ٹہنیاں بھی ماری جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ لڑکے والے خوشی سے برداشت کرتے ہیں۔ دلہا کا برادری کی موجودگی میں نکاح پڑھایا جاتا ہے۔ دلہے کے والد کو سب لوگ مبارک باد دیتے ہیں اور پھر دلہا وہاں موجود سب افراد کے پاس سلام کرتا ہے اور لوگ اسے سلامی میں رقم پیش کرتے ہیں۔ پھر نائی سب لوگوں سے ایک مخصوص رقم جو سو سے لیکر ہزار تک کی ہو سکتی ہے بطور نیندر وصول کرتا ہے اور بلند آواز میں کہتا ہے فلاں شخص نے جس کی قوم فلاں اور فلاں جگہ کا رہنے والا ہے نے اتنے سو نیندر اور اتنے روپے ویل دی ہے۔ ایک آدمی رقم وصول کرتا جاتا ہے اور کاپی میں درج کرتا جاتا ہے۔ دلہا کو اس کے بعد دلہن کے گھر لے جایا جاتا ہے۔ (یہاں سے دلہے کو لوٹنے کا عمل شروع ہوتا ہے) جہاں پر دلہن تیار ہو کر گھونگھٹ میں بیٹھی ہوتی ہے، اندر داخل ہوتے ہی دلہے کی سالی اسے دودھ کا گلاس پیش کرتی ہے اور دودھ پلائی وصول کرتی ہے۔ دلہے کی بہن عموماََ چھوٹی بہن دلہے کی لنگی یا قمیض کا ایک کونہ مضبوطی سے باندھ دیتی ہے، اسے پلو بندھائی کہتے ہیں۔اور یہ خواہش ہر بہن کو ہوتی ہے، پلوبندھائی کے غوض چھوٹی بہن منہ مانگی رقم وصول کرتی ہے۔ جہاں دلہن بیٹھی ہوتی ہے اس کے کچھ فاصلے پہ ایک مضبوط پیندے والا مٹی کا برتن رکھا جاتا ہے، دلہے کو ایڑی کے زور پر اسے پہلی ٹھوکر میں توڑنا ہوتا ہے اگر دلہا اس میں ناکام رہے تو ساری لڑکیاں اس پہ زور زور سے ہنستی ہیں اور دلہے کو شرمساری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد دلہے کو جوتا اتار کر دلہن کے پاس بیٹھنے کو کہا جاتا ہے وہ جونہی جوتا اتارتا ہے، تاک میں بیٹھی ہوئی سالی جوتا چھپا دیتی ہے۔ ننگے پاؤں چلنے کے خوف سے دلہا کچھ دیکر ہی اپنی جان چھڑواتا ہے۔ اس کے بعد رخصتی کا وقت آ جاتا ہے۔ ماں باپ دل پر ہاتھ رکھ کر آنسوؤں اور نیک دعاؤں کے ساتھ لاڈوں سے پلی بیٹی کو رخصت کر دیتے ہیں۔ دلہا والے دلہن کو لیکر ہنسی خوشی ناچتے گاتے ہوئے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔
گھر پہنچنے سے قبل کسی دربار پر پہنچ کر دعا بھی کی جاتی ہے۔ سسرال میں دلہن اپنے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دروازہ پکڑ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ اسے موہاڑی پکڑنا کہتے ہیں۔ اس موقع پر دلہن کا سسر یا خاوند دلہن کو کہتا ہے فلاں گائے یا بھینس تمھاری ہے، نقد رقم دینے کا بھی رواج ہے۔ پھر دلہن کمرے کے اندر داخل ہوتی ہے۔ گھونگھٹ اٹھانے سے قبل دلہن دلہے سے گھنڈ کھلائی لیتی ہے۔
شادی کے ساتوین دن دلہن کی ماں اپنے رشتے داروں کے ہمراہ اپنی بیٹی کے گھر آتی ہے اور اپنی بیٹی اور داماد کو اپنے ساتھ لے آتی ہے اسے ست واڑہ کہتے ہیں۔ دوسرے دن دلہن اور دلہا واپس اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔ اس طرح آنے جانے اور میل ملاپ کا سلسلہ پوری زندگی چلتا رہتا ہے۔
--- ختم شد ---
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔