16 February, 2008

کل آج اور کل

کچھ خواب، کچھ اندیشے، کچھ سوال
 اعتزاز احسن


 


 


عہد جوانی میں دیکھے تھے
کیسے کیسے خواب سہانے
ان خوابوں میں ہم لکھتے
اکثر خوشیوں کے افسانے

 


ایک نئی دنیا کی کہانی
ایک نئی دنیا کے ترانے
ایسی دنیا جس میں کوئی
دکھ نہ جھیلے بھوک نہ جانے

 


لگتا تھا ہم سب نے دیکھے
اس دھرتی کے درد انجانے
سوچا تھا کہ سب نکلیں گے
غربت کے سب پاپ مٹانے

 


ایک طرف تھی جنتا ساری
ایک طرف تھے چند گھرانے
ایک طرف تھے بھوکے ننگے
ایک طرف قاروں کے خزانے

 


ایک طرف تھیں مائیں بہنیں
ایک طرف تحصیل اور تھانے
ایک طرف تھی تیسری دنیا
ایک طرف بے داد پرانے

 


ایک طرف سچل اور باہو
ایک طرف ملاء اور مسلک
ایک طرف تھے ہیر اور رانجھا
ایک طرف قاضی اور چوچک

 


ایک طرف امرت کے دھارے
ایک طرف تھے دھارے بھس کے
ساری دنیا پوچھ رہی تھی
بولو! اب تم ساتھ ہو کس کے؟

 


سوچا تھا ہم مل کر سارے
دنیا کو تبدیل کریں گے
دکھ اور درد کی یہ مسافت
طے ہم میل ہا میل کریں گے

 


سب بھائیوں کی سوچ تھی یکساں
ہاتھ میں ڈالے ہاتھ کھڑے تھے
سولی کو کچھ چوم چکے تھے
کچھ سولی کے ساتھ کھڑے تھے

 


آنکھوں میں سب خواب تھے روشن
ہاتھوں میں امید کا پرچم
دنیا ساری مٹھی میں تھی
لب پہ ترانہ، مدھم، مدھم

 


قدم سے اپنے قدم ملا کر
ابھی مسافت طے کرنا تھی
محکومی کے گیت ہم نے
آزادی کی لے بھرنا تھی

 


نیا سویرا آنے کو تھا
رات اندھیری جانے کو تھی
آزاد، اور آزادی بھی
تیری میری، آنے کو تھی

 


گرتی ہوئی دیوار کا لوگو!
باقی نہ تھا کوئی سہارا
لگنے کو تھا ایک ہی دھکا
ملنے پر بس ایک اشارہ

آج


 لیکن ہم تو بکھر رہے تھے
اور ہم کو احساس نہیں تھا
خواب ادھورے بھی رہتے ہیں
اس کا ہم کو پاس نہیں تھا

 


علم و ہنر کو چھوڑ کے ہم نے
اپنے اپنے مسلک پالے
رنگ و نصب، تہذیب اور مذہب
کیا کیا آپ تفرقے ڈالے

 


دیکھو دیکھو کتنے بیٹے
سرینگر میں کھیت ہوئے ہیں
دیکھو دیکھو کتنے بھائی
جھیل کی خونی ریت ہوئے ہیں

 


ہتھیاروں کی دوڑ لگی ہے
جنگ کرنے ہر فوج کھڑی ہے
مذہب اور تہذیب کے بل پر
قوم سے دیکھو قوم لڑی ہے

 


ایک مہذب قوم کو دیکھو
خود ہم نے بدنام کیا ہے
باقی جو کچھ بچا تھا اس کا
غیروں نے وہ تمام کیا ہے

 


دنیا کی تاریخ گواہ ہے
عدل بنا جمہور نہ ہو گا
عدل ہوا تو دیس ہمارا
کبھی بھی چکنا چور نہ ہو گا

 


عدل بنا کمزور ادارے
عدل بنا کمزور اکائیاں
عدل بنا بے بس ہر شہری
عدل بنا ہر سمت دھائیاں

 


دنیا کی تاریخ میں سوچو
کب کوئی منصف قید ہوا ہے؟
آمر کی اپنی ہی اَنا سے
عدل یہاں ناپید ہوا ہے

 


یوں لگتا ہے ایک ہی طاقت
ارض خدا پر گھوم رہی ہے
یوں لگتا ہے ہر اک قوت
پاؤں اس کے چوم رہی ہے

 


اس کی بمباری کے باعث
خوں میں سب لبریز ہوئے ہیں
مذہب میں شدت آئی ہے
خودکش جنگجو تیز ہوئے ہیں       
 

 

2 comments:

شعیب صفدر نے لکھا ہے

اچھا ہوتا ساتھ میں ویڈیو بھی پوسٹ کر دیتے!!! لنک یہ ہے
http://www.vidpk.com/view_video.php?vid=8832
http://www.vidpk.com/view_video.php?vid=8833

شعیب صفدر's last blog post..پندرہ سوروپے کامنی آرڈر

2/17/2008 03:57:00 AM
پاکستانی نے لکھا ہے

شکریہ شعیب بھائی، ان کے لنک میری نظروں سے نہیں گزرے، آپ نے یہاں پوسٹ کر دیئے اس کے لئے بیحد شکریہ۔

پاکستانی's last blog post..ایک پرچی کی مار

2/21/2008 07:34:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب