29 April, 2008

بچپن کے دُکھ

کون ہے جسے اپنا بچپن عزیز نہیں؟ معصوم شرارتوں سے بھرپور بچپن جسے یاد کر کے یقیناًً ہر کوئی ہنستا ہو گا۔ میرے جیسے انسان کی تو ہر لمحہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش کبھی بچپن کے وہ دن لوٹ آئیں



جہاں سپنا سجایا تھا
جہاں بچپن بتایا تھا
جہاں پیڑوں کے سائے میں گھروندا ایک بنایا تھا!


انسان اپنے بچپن کو یاد کرے اور سکول کا بے فکرا زمانہ یاد نہ آئے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نیچے دی گئی تصویریں بھی کسی بچے کی یادگاریں ہیں جو انجانے میں پیپر یا ہوم ورک کرتے ہوئے محفوظ ہو گئیں ہیں۔ ان تصویریں پر لکھی گئی تحریر کو غور سے پڑھیں پہلی لائن سے آخری لائن تک۔




 


گرميوں ميں جب سب گھر والے سو جاتےتھے
دھوپ کي اُنگلي تھام کے ہم چل پڑتے تھے
ہميں پرندے کتنے پيار سے تکتے تھے
ہم جب ان کے سامنے پاني رکھتے تھے
موت ہميں اپني آغوش ميں چھپاتي تھي
قبرستان ميں جا کر کھيلا کرتے تھے
رستے ميں اِک ان پڑھ دريا پڑتا تھا
جس سے گزر کر پڑھنے جايا کرتے تھے
جيسے سورج آکر پياس بجھائے گا
صبح سويرے ايسے پاني بھرتے تھے
اُڑنا ھم کو اتنا اچھا لگتا تھا
چڑياں پکڑ کر اُن کو چوما کرتے تھے
تتلياں ہم پر بيٹھا کرتيں تھيں
ھم پھولوں سے اتنے ملتے جلتے تھے
ملي تھي يہ جواني ھم کو رستے ميں
ھم تو گھر سے بچپن اوڑھ کے نکلے تھے


بچپن کے دُ کھ کتنے اچھے تھے
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے
وہ خوشياں بھي جانے کيسي خوشياں تھيں
تتلي کے پر نُوچ کے اُچھلا کرتے تھے
مار کے پاؤں ہم بارش کے پاني ميں
اپني ناؤ آپ ڈبويا کرتے تھے
چھوٹے تھے تو مِکرو فريب بھي چھوٹے تھے
دانہ ڈال کے چڑيا پکڑا کرتے تھے
اب تو اِک آنسو بھي رُسوا کر جائے
بچپن ميں جي بھر کے رُويا کرتے تھے
خُوشبو کے اُڑتے ہي کيوں مرجھايا پھول
کتنے بھولے پن سے پوچھا کرتے تھے
کھيل کود کے دن بھر اپني ٹولي ميں
رات کو ماں کي گُود ميں سويا کرتے تھے


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب