سچ تو یہ ہے
پاکستانی عوام کی نگاہ میں ٩ مارچ کی تاریخ دو خاص واقعات کے باعث اہم حیثیت کی حامل بن گئی ہے۔ ایک ٩ مارچ وہ تھی جس دن صدر مشرف کا چیف جسٹس افتخار چوہدری کے سنگ قضیہ نا مرضیہ شروع ہوا تھا۔ اب یہ ایک اور مئی ٩ مارچ ہے جس تاریخ میں جمہوریت کے حوالے سے بڑا دن کہا جا رہا ہے بشرطیکہ شراکت اقتدار کے عہد و پیمان باندھنے والی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پی پی پی اور پی ایم ایل ن اعلان مری کے معاہدوں کو آخر تک عملاََ انجام دے کر اسے بڑا دن بنائے رکھیں۔ اعلان مری میں کئی اہم فیصلے کئے تو گئے ہیں لیکن اہم یہ ہے کہ آیا یہ اعلامیہ قابل عمل ہو گا یا نہیں؟سب سے اہم یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ حلف اٹھانے کے تیس دنوں کے اندر پارلیمنٹ سے قرارداد کے ذریعے معزول ججوں کو بحال کروایا جائے گا۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی اس وقت طلب امر کو پارلیمنٹ کے ذریعے مقررہ مدت میں طے کیا جا سکے گا۔ علاوہ ازیں، اسے قرارداد کے ذریعے بحال کرنے کی بات کی جا رہی ہے جبکہ قرارداد کوئی قانون نہیں ہوتی بلکہ سفارش کا درجہ رکھتی ہے۔ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان عبدالحمید ڈوگر اور دیگر ایگزیکٹو ججز اسے مسترد کر کے غیر آئینی قرار دے سکتے ہیں۔ اس قرارداد کا مقصد موجودہ چیف جسٹس اور ایگزیکٹو ججوں کی برطرفی ہے۔ لہذا وہ اس کی آئینی حیثیت کبھی تسلیم نہیں کریں گے تو ایسی صورتحال میں قرارداد کی ‘قوت نافذہ‘ کیا ہو گی۔ ایسے حالات میں پولیس یا فوج کے ذریعے ہی عمل درآمد کروایا جا سکتا ہے۔ فوج تو اب لاتعلق ہو چکی ہے۔ لیکن یہ خدشہ ذہن میں جڑ پکڑنے لگتا ہے کہ قرارداد کی اس شق کو منوانے کی ضد کہیں عوام اور پولیس کے مابین تصادم اور تشدد کی آگ نہ بھڑکا دے۔ اس کے علاوہ موجودہ ججوں کو برطرف کر کے معزول ججوں کی لانے کی بات کرنا گویا صدر پرویز مشرف کے ساتھ ٹکراؤ کی بات کرنا ہے۔ یہ معزول جج اور ان کے حامی وکلاء صدر مشرف کے خلاف ہیں۔ چنانچہ ان کی بحالی کی صورت میں صدر کو برطرف کرنے کی کوشش کا تناؤ آمیز منظر بھی سامنے آ سکتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ، پارلیمنٹ اور صدر ملک کے تین بنیادی ادارے ہیں۔ یہ تینوں طاقتور ادارے اگر آپسی تصادم کا شکار ہوگئے تو یہ پاکستان کے لئے کوئی اچھی صورتحال نہیں ہے۔ اس طرح چوتھا بنیادی ادارہ میڈیا بھی انتشار کا شکار ہوئے بنا نہیں رہ سکے گا۔ ایسے میں عملی سوچ یہ ہو گی کہ مصلحت کے پیش نظر ٹکراؤ کی صورتحال پیدا کرنے کے کے بجائے کوئی بیچ کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یوں بھی ججز کی بحالی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے اتنی جلد بازی کی ضرورت نظر نہیں آتی تھی۔ کم از کم نئی پارلیمنٹ کو تین ماہ تو چلنے دیا جاتا۔ لیکن اس فیصلے کے پیچھے صدر مشرف سے ٹکراؤ کی خواہش کی جلدی نظر آتی ہے۔ مخدوم امین فہیم جیسی صلح پسند شخصیت کو اعلان مری میں شامل کرنے سے اجتناب کرنا اس کا ایک ثبوت ہے۔ صدر مشرف سے ان کی سیاسی مفاہمت تھی۔ اعلان مری کے مطابق ‘وزیراعظم وہ ہو گا جو پی پی پی اور پی ایم ایل ن دونوں کے مشترکہ ایجنڈے کو چلائے گا‘۔ تو اگر مخدوم امین فہیم اسے نہیں چلائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صدر مشرف سے ٹکراؤ اور تصادم کا ارادہ ہے۔ پاکستان میں جمہوری اقدار کے فروغ کے لئے پارلیمنٹ کی تشکیل و خودمختاری اہم جزو ہے لیکن تصادم اور وہ بھی فوری تصادم اس مقصد میں رکاوٹ ہے۔ دوسری طرف پی ایم ایل ن وزارتوں میں حصہ لینے کی بات کر رہی ہے اور اس بات کا بھی عہد کیا گیا ہے کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی لیکن ان سب وعدوں کے پیچھے کئی سوال تشنہ ہیں۔ کہیں جمہوریت کا خواب پھر خواب نہ رہ جائے۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔