20 May, 2008

جہیز کی لعنت

روزنامہ نوائے وقت لاہور، مورخہ ٥ مئی ٢٠٠٨  خواتین ایڈیشن
جہیز کی لعنت، چھٹکارے کے لئے خواتین موثر کردار ادا کریں (فتوی از جناب ۔ مفتی محمد دارالافتاء والارشاد، ناظم آباد کراچی)


آپس میں ہدیہ تحفہ کا لین دین اور مشکل حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرنا باہم الفت و محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ‘ یعنی ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو تاکہ آپس میں محبت و الفت پیدا ہو‘ مگر شریعت نے ہدیہ و تحفہ اور باہمی مدد کی جن مصلحتوں کے لئے ترغیب دی ہے آج کل جہیز کے لین دین میں ان مصلحتوں میں سے کوئی مصلحت بھی نہیں پائی جاتی بلکہ یہ ہندو معاشرے سے آئی ہوئی ایک لعنت ہے جس نے معاشرے میں بیٹی کی پیدائش کو غریب باپ پر بوجھ بنا کر رکھ دیا ہے۔ پاک وہند کے سوا بقیہ دنیا کے مسلمان آج بھی اس رسم سے بے خبر ہیں۔ موجودہ دور میں شادی کے موقع پر طرفین کے ایک دوسرے کو تحفے اور لڑکی کو جہیز دینے میں جس قدر غلو ہونے لگا ہے اس میں مندرجہ ذیل قباعتیں پائی جاتی ہیں۔
١۔ لڑکی کا باپ زبان سے تو لوگوں کو یہی بتا رہا ہوتا ہے کہ میں اپنی خوشی سے جہیز دے رہا ہوں مگر حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اکثر و بیشتر وہ محض یہ سوچ کر جہیز دینے پر مجبور ہوتا ہے کہ اگر نہ دیا تو لڑکی سسرال کے طعنوں کا شکار ہو گی۔ اس صورت میں اس کے ‘بخوشی‘ جہیز دینے کے زبانی دعوؤں کا کوئی اعتبار نہیں اور ان مصنوئی دعوؤں کے باعث لڑکے والوں کے لئے اس کے دیئے ہوئے مال کا استعمال حلال  نہیں ہو گا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ‘ مسلمان کا مال اس کے دل کی مکمل خوشی کے بغیر حلال نہیں‘۔
٢۔ اللہ تعالٰی نے شوہر کو اپنی زوجہ کے لئے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ بمنزلہ حاکم بھی قرار دیا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی، ترجمہ ‘مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں‘ سوچا جائے کہ اللہ تعالٰی جب شادی سے متعلق اور شادی کے بعد جتنے اخراجات ہیں سب کے سب مرد کے ذمے ڈال کر اسے حاکمیت کا پروانہ عطا فرما رہے ہیں اور مرد محکوم والا کردار ادا کرتے ہوئے سونے کے لئے بستر، دوستوں اور مہمانوں کو بٹھانے کے لئے صوفے اور کھانا کھلانے کے لئے برتن تک بھی بیوی یا اس کے والدین سے وصول کرے تو یہ مرد کے لئے کس قدر سبکی کی بات ہے مگر دنیا کی محبت نے عقل پر پردے ڈال دیئے ہیں اور اس کھلی حقیقت کی طرف دھیان نہیں جاتا۔
٣۔ جہیز دیتے وقت فخرونمود اور دولت کے اظہار کی خاطر اس کی خوب نمائش کی جاتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ‘جو شخص لوگوں میں شہرت اور اپنا چرچا کروانے کی نیت سے کوئی عمل کرے گا تو اللہ تعالٰی قیامت کے دن لوگوں کے سامنے اس کی اس حرکت کو ظاہر کریں گے۔ (تاکہ سب کے سامنے ذلیل ہو) متفق علیہ۔
٤۔ ایک قباعت یہ بھی ہے کہ آجکل جہیز اتنی زیادہ مقدار میں دیا جاتا ہے جس سے لرکی پر حج فرض ہو جاتا ہے مگر حج کرواتے نہیں اور یوں حج میں سستی کی وجہ سے بیوی اور شوہر کے والدین سب گنہگار ہوتے ہیں۔
٥۔ اس قبیح رسم کی وجہ سے غریب آدمی کے لئے لڑکی کی شادی وبال جان بن گئی ہے۔ وہ جہیز کی مطوبہ مقدار پوری کرنے کے لئے حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیر پیسہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بعض لوگ من گھڑت ضرورت کو پورا کرنے کے لئے صدقات و فطرہ مانگتے پھرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو حرام کھانے اور بھکاری بنانے پر مجبور کرنے والے لوگ وہ ہیں جو لڑکیوں سے جہیز وصول کرتے ہیں لہذا ایسے لوگ بھیک مانگنے اور حرام ذرائع اختیار کرنے کے جرم میں ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔
٦۔ جہیز کی مطوبہ مقدار پوری نہ ہونے کی صورت میں لرکی کے نکاح میں تاخیر کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں یا تو بدکاریاں ہوتی ہیں یا عزت و عفت محفوظ رکھنے والی لڑکیاں گھٹ گھٹ کر نفسیاتی مریض بن جاتی ہیں۔ بہت سوں کو دیگر دوسرے جسمانی امراض بھی لاحق ہو جاتے ہیں کیونکہ جدید تحقیق کے مطابق لڑکی کی شادی میں بلوغت کے بعد زیادہ تاخیر اس کی صحت کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ نیز اس تاخیر میں حدیث کے اس حکم کی بھی مخالفت ہے جس میں لڑکی کے بالغ ہوتے ہی اس کے جلد نکاح کی ترغیب دی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ارشاد فرمایا کہ ‘ تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو، ان میں سے ایک لڑکی کے بالغ ہونے اور مناسب رشتہ ملنے کے باوجود تاخیر ہے‘ (مشکٰوۃ ٦١)۔ واضح رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ کو جو جہیز دیا تھا وہ درحقیقت اس رقم سے خریدا تھا جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بطور مہر ادا کی تھی۔ کتب حدیث و تاریخ میں اس کی تصریح موجود ہے۔ ملاحظہ ہو (الزرقانی ٣٢٠،٣٨٥/٢)۔

خلاصہ یہ کہ جہیز کی مروجہ صورت شریعت، عقل، غیرت کے خلاف ہونے اور مفاسد کثیرہ کی بنا پر ناجائز ہے۔ لہذا اگر کسی کا داماد واقعی اتنا غریب ہو کہ گھر کا ضروری سامان خریدنے کی قدرت بھی نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں لڑکی کے والدین اگر اس کے ساتھ مالی تعاون کرنا چاہیں تو حرج نہیں بلکہ باعثِ ثواب ہے مگر اس صورت میں تعاون بھی نقدی کی صورت میں ہونا چاہیے تاکہ وہ گھر کی ضرورت کی جو اشیاء خریدنا مناسب سمجھے خرید سکے اور اگر داماد کوئی دینی یا دینوی مشاغل کے باعث از خود خریدنے کی فرصت نہ رکھتا ہو تو ایسے غریب داماد کے ساتھ تعاون کے طور پر لرکی کے والدین از خود بھی یہ اشیاء خرید کر دے سکتے ہیں۔ جہیز کے معاملے اصل ذمہ داری لڑکے اور اس کے والدین کی بنتی ہے کہ وہ لرکی والوں کو جہیز دینے سے سختی سے باز رکھنے کی کوشش کریں تاکہ لڑکی کے باپ کو مکمل اطمینان ہو جائے کہ لڑکا جہیز سے واقعی نفرت کرتا ہے۔ اگر لرکے والے ایسا نہ کریں اور لڑکی کے باپ کو یہ خیال ہو کہ جہیز نہ دیا تو لڑکی طعنوں کا شکار ہو گی اور اس کی زندگی اجیرن ہو جائے گی تو اس مجبوری میں انشاءاللہ اسے جہیز دینے کا گناہ نہ ہو گا۔ اس صورت میں گناہ صرف جہیز وصول کرنے والے داماد اور اس کے والدین کو ہو گا۔

6 comments:

اجمل نے لکھا ہے

شائع کرنے کا شکریہ ۔ مفتی صاحب نے صحیح تشریح کی ہے ۔

اجمل's last blog post..افسوسناک اعداد و شُمار

5/20/2008 09:30:00 PM
راشد کامران نے لکھا ہے

واقعتا ایک سماجی مسئلہ اور دین کے نام پر استحصال کی ایک قبیح‌ رسم جو نہ جانے کب ختم ہوگی۔

راشد کامران's last blog post..کوا بریانی

5/21/2008 02:39:00 AM
ماوراء نے لکھا ہے

پاکستانی بھیا، آپ کے بلاگ کی آرچیو نظر نہیں آ رہی؟ مجھے پوچھنا تھا کہ آپ نے بلاگ پہلی بار کب لکھنا شروع کیا تھا؟؟

ماوراء's last blog post..فٹ بال کھلاڑی:D

5/25/2008 02:04:00 AM
پاکستانی نے لکھا ہے

جی ماوراء! اردو بلاگ پر میری پہلی پوسٹ 4 اپریل 2005 کی ہے۔

پاکستانی's last blog post..حضرت پیر عادل

5/25/2008 05:25:00 AM
ماوراء نے لکھا ہے

بہت شکریہ۔

ماوراء's last blog post..فٹ بال کھلاڑی:D

5/25/2008 07:09:00 AM
فیصل نے لکھا ہے

میں نے اپنی شادی میں جہیز نہیں لیا تھا، پہلے تو سسرال والوں نے بھی بڑی کوشش کی کہ میں مان جاؤں لیکن میرے سخت انکار پر وہ خاموش ہو گئے۔ لوگوں نے شائد کوئی باتیں کی ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم کیونکہ میرے سامنے کسی نے کچھ نہیں کہا۔ مختصر یہ کہ اگر مرد حضرات چاہیں تو یہ لعنت بڑی آسانی سے ختم ہو سکتی ہے۔

فیصل's last blog post..رین لینڈر- ایک اچھا ڈیسکٹاپ کیلنڈر

5/30/2008 02:25:00 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب