نو سالہ دورِ اقتدار کا طائرانہ جائزہ
جنرل پرویزمشرف کو سات اکتوبر سنہ انیس اٹھانوے کو اس وقت پاکستان کا آرمی چیف مقرر کیا گیا جب جنرل جہانگیر کرامت نے وزیراعظم نواز شریف سے اختلافات ہونے کی بناء پراستعٰفی دے دیا تھا۔
بارہ اکتوبر سنہ انیس ننانوے کو جنرل پرویزمشرف نے سری لنکا سے واپسی پر نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا اور آئین کو معطل کر کے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھال لیا۔
جنرل پرویزمشرف نے سات نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا اور احتساب کے لیے نیب یعنی قومی احتساب بیورو کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔نیب کے روبرو سابق وزرا اعظم نواز شریف اور بینظیر بھٹو سمیت دیگر سیاست دانوں کے خلاف مقدمات کی سماعت ہوئی۔
ستائیس جنوری سنہ دو ہزار کو اعلٰی عدلیہ کے ججوں کے لیے پی سی او جاری کیا جس کے تحت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی سمیت ایک درجن کے قریب ججوں کو برطرف کردیا گیا۔
بارہ مئی سنہ دو ہزار کو سپریم کورٹ کے فل بنچ نے بارہ اکتوبر کے فوجی اقدام کے خلاف درخواست پر جنرل پرویز مشرف کو تین مہینے کے اندر انتخابات کرانے کے لیے حکم دیا۔
سنہ دو ہزار ایک میں جنرل پرویز مشرف نے پاکستان میں نیا ضلعی نظاِم حکومت متعارف کرایا جس کے تحت پہلے ملک بھر میں مرحلہ وار انتخابات ہوئے اور چودہ اگست دو ہزار ایک میں اس نظام کے تحت منتخب ہونے والوں نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا۔
بیس جون سنہ دو ہزار ایک کو جنرل پرویز مشرف نے بھارت یاترا سے قبل اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کو برطرف کر کے ان کی جگہ خود صدر بن گئے جبکہ اسی روز پارلیمنٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کو بھی تحلیل کردیا۔
گیارہ ستمبر سنہ دو ہزار ایک نائن الیون کے واقعہ کےبعد جنرل پرویز مشرف امریکہ کےاتحادی کی حیثیت سے سامنے آئے اور ان کو امریکہ کی بھر پور حمایت حاصل رہی۔
پانچ اپریل سنہ دو ہزار دو کو صدر مشرف نے قوم سے اپنے خطاب میں صدارتی ریفریڈم کرانے کا اعلان کیا تھا۔
تیس اپریل سنہ دوہزار کو متنازعہ ریفرنڈم ہوا جس میں جنرل پرویز مشرف صدِر مملکت بن گئے۔
اگست دو ہزار دو میں صدر جنرل پرویز مشرف نے معطل آئین میں ترمیم کے لیے ایل ایف او یعنی لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا جس کے تحت صدر اسمبلی تحلیل کرنے، نیشنل سیکیورٹی کونسل کا قیام اور اعلٰی عدلیہ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع کردی گئی۔
دس اکتوبر سنہ دو ہزار دو کو پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات ہوئے ۔ان انتخابات میں منتخب ہونے والے ارکان قومی اسمبلی نے چھتیس دن بعد سولہ نومبر کو حلف اٹھایا۔ جبکہ انیس نومبر کو سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات ہوئے جس میں چوہدری امیر حسین سپیکر اور سردار یعقوب ڈپٹی سپیکر کے طور پر منتخب ہوئے۔
تیس نومبر سنہ دو ہزار دو کو صدر پرویز مشرف نے نئے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی سے حلف لیا۔
پچیس دسمبر سنہ دو ہزار تین کوراولپنڈی میں صدر مشرف کے قافلے پر خود کش حملہ ہوا تاہم صدر مشرف محفوظ رہے۔ اس حملے میں چودہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔اکتیس دسمبر سنہ دوہزار تین کو صدر جنرل پرویز مشرف کی توثیق کے بعد سترھویں ترمیم پاکستان کے آئین کا باقاعدہ حصہ بن گئی۔ سترھویں ترمیم متحدہ مجلِس عمل کے ساتھ معاہدے کے بعد پیش کی گئی۔ اس بِل کے تحت صدر مشرف آئندہ سال کے آخر تک فوجی وردی اتار دیں گے۔
یکم جنوری سنہ دو ہزار چار پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے چھ سو اٹھاون ارکان نے صدر مشرف کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
چار فروری سنہ دو ہزار چار کو ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدلقدیر خان نے ’ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے تمام الزامات قبول کرتے ہوئےصدر جنرل پرویزمشرف سے ملاقات کر کے رحم کی اپیل کی ہے۔
تیس جون سنہ دوہزار چار کو چودھری شجاعت حسین سے صدر مشرف نے وزیراعظم کے عہدے کا حلف لیا۔
اٹھائیس اگست سنہ دو ہزار چار کو صدر پرویز مشرف نے شوکت عزیز سے وزیراعظم کے عہدے کا حلف لیا۔
پندرہ جولائی سنہ دو ہزار پانچ کو صدر مشرف کی جانب سے سرحد اسمبلی میں پاس کیے گئے حسبہ بل کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ۔
پچیس ستمبر سنہ دو ہزار چھ کو صدر پرویزمشرف کی کتاب ’ان لائن آف فائر‘ْ کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب فروخت کے لیے پیش کی گئی ۔
نو مارچ سنہ دوہزار سات کو صدر مشرف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ان کے عہدے سے ہٹا کر ان کے خلاف ریفرنس دائر کردیا اور اس طرح صدر مشرف کے خلاف ایک احتجاجی تحریک شروع ہوگئی۔
ستائس جولائی کو پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بینظیر بھٹو کے درمیان ابوظہبی میں ہونے والی ملاقات بغیر کسی اتفاق کے ختم ہوگئی ۔
پانچ اکتوبر کو صدر مشرف کی منظوری کے بعد بدعنوانی مقدمات کی واپسی کا قومی مصالحتی آرڈیننس جاری کرکیا گیا۔
دو اکتوبر کو پاکستان کے صدر اور فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اشفاق کیانی کو ترقی دے کر فوج کا نیا سربراہ نامزد کر دیا جبکہ لیفٹیننٹ جنرل طارق مجید کو چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی نامزد کردیا ۔
چھ اکتوبر کو ہونےوالے صدارتی انتخاب میں جنرل مشرف دوبارہ صدر منتخب ہوگئے جبکہ ان کی اہلیت کے حوالے سےصدارتی امیدوار جسٹس وجیہ الدین کی درخواست سپریم کورٹ کے فل بنچ کے روبرو زیر سماعت تھی۔
تین نومبر سنہ دوہزار سات کو صدر پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی لگادی ۔اُنہوں نے اعلی ججوں اور آئین کو معطل کردیا تھا اور پی سی او کے تحت ججوں سے حلف لیا گیا۔
گیارہ نومبر صدر مشرف نے اسمبلیاں پندرہ نومبر کو ختم کرنے اور عام انتخابات جنوری کے اوائل میں کرانے کا اعلان کیا۔
پندرہ نومبر کو صدر مشرف نے قومی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے پر اس کو تحلیل کردیا اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو کو پاکستان کا نگران وزیر اعظم مقرر کردیا۔
سولہ نومبر کو صدر جنرل مشرف نے نگران وزیراعظم اور کابینہ سے حلف لیا۔
اُنیس نومبر پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے سپریم کورٹ کے ججوں نے صدر مشرف کی اہلیت کے خلاف دائر چھ میں سے پانچ آئینی درخواستوں کو مسترد کر دیا۔
بائیس نومبر سپریم کورٹ نے صدر مشرف کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے خلاف دائراپیل مسترد کر دی۔ اس دن ملک میں بنیادی انسانی حقوق کی معطلی کے خلاف دولت مشترکہ نے پاکستان کی رکنیت معطل کردی۔
تئیس نومبر سپریم کورٹ نے صدر مشرف کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کو درست قرار دیا۔
ستائیس نومبر صدر مشرف نے فوجی دستوں اور اعلی فوجی افسران سے الوداعی ملاقات کی۔
اٹھائیس نومبر ایک فوجی تقریب کے دوران صدر مشرف نے فوج کی کمان جنرل اشفاق پرویز کیانی کے سپرد کردی۔
اُنتیس نومبر صدر مشرف نے سویلئن لباس میں دوسری بار ملک کے صدر کا حلف اُٹھا لیا اور ایک بار پھر قوم سے خطاب کیا۔
نو دسمبر صدر مشرف نے اعلان کیا کہ ملک سے ایمرجنسی پندرہ دسمبر کو اُٹھالی جائے گی۔
پندرہ دسمبر صدر مشرف نے ملک سے ایمرجنسی ختم کرتے ہوئے آئین بحال کردیا۔
اٹھارہ فروری کو ہونے والے انتخابات میں صدر پرویز مشرف کی حامی جماعت مسلم لیگ قاف کو ناکامی ہوئی۔
پچیس مارچ دو ہزار آٹھ کو صدر مشرف نےوزیراعظم مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کوحلف دلوایا۔
سات اگست کو حکمران اتحاد میں شامل چار بڑی جماعتوں نے’جنرل مشرف‘ کا مواخذہ کرنے کا اعلان کیا جبکہ پنجاب ،سندھ سرحد اور بلوچستان اسمبلی نے الگ الگ قرارداد منظور کی جن میں صدر پرویز مشرف سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا گیا۔
اٹھارہ اگست کو صدر پرویزمشرف نے قوم سے خطاب کر کے اپنے استعفیْ کا اعلان کردیا۔
بشکریہ ۔ بی بی سی اردو
1 comments:
I need your help. I want to begin blogging in urdu. Can you help me get started.
8/19/2008 07:00:00 AMDo I have to have Urdu Mahir or other software? I ordered it yesterday for about $250
Which buttons do I turn on in wordpress to let me post in Urdu and English?
Can you kindly send me a detaled email (moinansari@aol.com) on how to get started?
Best regards
Moin Ansari
http://www.wordpress.com
http://www.rupeenews.com
معین آنصآرّی's last blog post..Islamic Emerite of Georgia 8th-1122 AD still haunts Russia
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔