ملک دشمن اور سامراجی ایجنٹوں کے منہ پر طما نچہ
امریکہ کے ایک اعلیٰ فوجی کمانڈر نے کہا ہے کہ امریکہ طالبان سے متعلق اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر رہا ہے جس کے تحت اب سرحد پار کر کے پاکستان کے اندر طالبان پر بھی حملے ہو سکتے ہیں۔چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے کہا کہ یہ تبدیلی افغانستان کی سرحد کے پار سے طالبان کے نہایت کارگر حملوں کے جواب میں کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویزکیانی نے کہا ہے کہ ملک کی حاکمیت اور سالمیت کا ہر قیمت پر دفاع کیا جائے گا اور کسی بھی غیر ملکی فوج کو پاکستان کی حدود میں آپریشن کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جنرل کیانی نے کہا ہے کہ اتحادی افواج کے ساتھ یہ بات صاف ہے کہ پاکستان کی سرحد میں آپریشن کا حق صرف پاکستان کا ہے۔ ایڈمرل مولن نے واشنگٹن میں کانگریس کی ایک کمیٹی کو بتایا کہ وہ اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ امریکہ یہ جنگ جیت رہا ہے اگرچہ 'انہیں یقین ہے کہ امریکہ یہ جنگ جیت سکتا ہے۔' ایڈمرل مولن کا یہ بیان صدر بش کے افغانستان میں مزید 4,500 فوجی بھیجنے کے اعلان کے ایک دن بعد آیا ہے۔ افغانستان میں پہلے ہی 33,000 امریکی فوجی موجود ہیں۔ کانگریس کی آرمڈ سروسز کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے ایڈمرل مولن نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان میں شدت پسند ایک مشترکہ لڑائی لڑ رہے ہیں۔ 'میرے خیال میں دونوں ممالک ایک دوسرے کی سرحدوں کے پار سے ہونی والی ایک پیچیدہ بغاوت میں الجھے ہوئے ہیں۔'انہوں نے کہا کہ 'جب شدت پسند پاکستان سے سرحد عبور کر کے آتے ہیں تو ہم انہیں ڈھونڈ کر مار سکتے ہیں۔۔۔ لیکن جب تک ہم پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر ان پناہ گاہوں کو تباہ نہیں کر دیں گے جہاں سے وہ حملے کرتے ہیں، دشمن آتے رہیں گے۔' دریں اثناءوائٹ ہاوس نے گذشتہ بدھ کو ایک بیان میں کہا گیاہے کہ القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی گرفتاری میں ناکامی سے امریکی فوجی اور انٹیلیجنس کارروائیوں کی بندشوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ وائٹ ہاوس کی ترجمان دانا پرینو نے کہا کہ صدر بش کی القاعدہ کے رہنما کو قانون کے شکنجے میں دیکھنا چاہتے تھے لیکن امریکی حکام کے پاس 'سپر پاورز' نہیں ہیں۔ مورخہ گیارہ جو لائی کو'پہاڑی سلسلوں میں دس اور گولے گرے تھے لیکن کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی تھی البتہ قیمتی درختوں کو نقصان پہنچا تھا۔ جنوبی وزیرستان سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق افغان سرحد کے قریب انگور اڈہ میں امریکہ اور 'اتحادیوں' کی گولہ باری سے ایک پاکستانی چیک پوسٹ پر آٹھ فوجی زخمی ہوگئے تھے مقامی لوگوں کے مطابق اس کے علاوہ مارٹر کے مزید دس گولے پاکستان کی سرحدی حدود میں گرے جس میں میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی تھی ۔مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھاکہ زخمیوں کو ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعہ بنوں منتقل کر دیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ گولہ باری میں چیک پوسٹ مکمل طور پر تباہ ہوگئی ۔یاد رہے کہ اس پہلے گیارہ جون کوامریکی طیاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں بھی پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے ایک ٹھکانے پربمباری کی تھی جس کے نتیجہ میں گیارہ اہلکاروں سمیت انیس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ گولہ باری کے بعد امریکی جاسوس طیاروں نے جنوبی شمالی وزیرستان میں نچلی پروازیں شروع کی تھیں۔ مورخہ بیس اگست کوپاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں افغانستان کی حدود سے داغے گئے دو میزائل ایک معروف قبائلی شخص کے مکان پر گرے جس میں کم از کم چھ لوگوں کے ہلاک ہونے کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔مقامی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ شام سات بجے کے قریب افغانستان کے علاقے پکتیکا سے داغے گئے دو میزائل وانا کے علاقے زیڑی نور میں یعقوب مغل خیل وزیر کے مکان پر گرے۔ انتظامیہ کے مطابق کچھ لوگ زخمی بھی تھے جس میںمالک مکان یعقوب بھی شامل تھا۔یادرہے کہ اس پہلے بھی جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں امریکہ کی جانب سے مقامی طالبان یا غیر ملکیوں کے ٹھکانوں کو جاسوس طیاروں یا میزائل حملے سے نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجہ میں کئی مقامی لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ مورخہ تین ستمبر کوامریکی اور اتحادی افواج نے جنوبی وزیرستان میں کارروائی کی جس میں چھاتہ بردار فوجیوں نے بھی حصہ لیا ۔پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جنوبی وزیرستان میں امریکی فوجی کارروائی کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'حکومت پاکستانی سرزمین پر کسی بیرونی فورس کو حملے کی اجازت نہیں دے گی۔'پاکستان کے خارجہ سیکریٹری سلمان بشیر نے اسلام آباد میں امریکہ کی سفیر این پیٹرسن کو طلب کرکے انہیں اس حملے پر حکومت پاکستان کی سخت ناراضگی سے آگاہ کرایا۔ پاکستانی فوج کے مطابق امریکی اور اتحادی افواج نے جنوبی وزیرستان میں جو کارروائی کی اس میں چھاتہ بردار فوجیوں نے بھی حصہ لیا۔ یہ پہلا موقع تھا جس میں امریکی اور اتحادی افواج نے پاکستان کے اندر گھس کر زمینی فوج کا استعمال کیا اس سے قبل ہونے والے تمام حملے فضا سے کیے گئے تھے۔ گورنر سرحد کی جانب سے جاری ایک بیان میں مرنے والوں کی تعداد بیس بتائی گئی تھی جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ فوج کے ترجمان نے کہا تھاکہ یہ حملہ بلا اشتعال کیا گیا جس میں عام شہریوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔وزیر اعظم گیلانی نے کہا تھاکہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور اپنی سرحدوں کے اندر انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ جبکہ دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا تھا کہ آئندہ پاکستان کی سرزمین پر کوئی حملہ ناقابل قبول ہوگا اور مزید طیش دلانے کے مترادف ہوگا۔ صوبہ سرحد کے گورنر اویس احمد غنی نے جنوبی وزیرستان میں اتحادی افواج کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی عوام مسلح افواج سے ملک کی سلامتی کی خاطر اس قسم کے حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کی توقع کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کے مشیر داخلہ رحمان ملک نے انکشاف کیا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے ایک مقام پر یقینی طور پر القائدہ کے رہنما ایمن الظواہری کا پتہ چلا لیا تھا لیکن انہیں گرفتار کرنے کا موقع ضائع ہو گیا۔ جبکہ مورخہ چار ستمبر کوپاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں سرحد کے قریب افغان حدود سے داغے گئے تین میزائلوں سے پانچ افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے۔حملے کے نتیجے میں ایک مکان بھی تباہ ہوگیا تھا۔مقامی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ شام چار بجے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ کے علاقہ چارخیل میں افغان سرحد کے قریب رحمن والی خان اور فرمان کے مکان پر تین میزائل گرے، جس کے نتیجہ میں پانچ افراد ہلاک اور چار زخمی ہوگئے تھے۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ مقامی طالبان نے لاشوں کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے اس لیے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ہلاک ہونے والے مقامی ہیں یا ان میں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ میزائل گرنے سے علاقے میں زبردست خوف و ہراس پھیل گیا تھاگزشتہ ایک ہفتے سے میران شاہ وانا اور ملحقہ علاقوں میں امریکی جاسوس طیاروں میں اضافہ ہوا ہے ایک ہی وقت میں تین سے زیادہ جاسوس طیارے گشت کرتے ہوئے دیکھے گئے تھے عام لوگ جاسوس طیاروں اور میزائل حملوں سے سخت پریشان ہیں۔ یادرہے کہ اس پہلے بھی کئی بار قبائلی علاقوں میں نامعلوم مقام کی جانب سے میزائل داغنے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔مقامی لوگ اس قسم کے واقعات کا الزام افغان حکومت یا امریکہ پر لگاتے ہیں۔لیکن حکومت پاکستان اس قسم کے واقعات کو محض ایک حادثہ قرار دیتی رہی۔جنوبی وزیرستان کے علاقہ انگوراڈہ میں امریکہ اور اتحادی فوج کے حملے میں کم از کم بیس عام شہری ہلاک ہوگئے تھے۔ پاکستانی حکومت گزشتہ کئی سالوں سے طاقت، دولت اور بات چیت کے ذریعے شدت پسندی کے خاتمے کے لیے مصرفِ عمل ہے مگر اس میں کمی کی بجائے روز بروز اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ لڑائی چند سال قبل جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا سے شروع ہوئی تھی اور آج سات قبائلی ایجنسیوں اور صوبہ سرحد کے زیادہ تر اضلاع تک پھیل گئی ہے۔ اس دوران شدت پسندوں اور سکیورٹی کو جتناجانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا اس سے کہیں زیادہ نقصان ان علاقوں کے معصوم لوگوں کو پہنچا ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مسلسل جنگ نے بڑی تعداد میں لوگوں سے روزگار چھین لی اور ان علاقوں میں کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ تعلیمی اداروں کو نذرِ آتش اور دیگر شہری سہولیات سے لوگوں کو محروم کر دیا گیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کے اٹھ جانے سے جاری جنگ میں برسِر پیکار فریقین کا کردار بدل سکتا ہے۔ کل تک حکومت اور طالبان دونوں آمنے سامنے تھے جبکہ مقامی آبادی کو خاموش رہنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں سوجھ رہا تھا مگر اب مقامی لشکر کے بن جانے سے طالبان اور مقامی آبادی کا آمنا سامنا ہوسکتا ہے جس کا ساتھ بظاہر'سول وار' کا خطرہ جڑا ہوا ہے۔صرف چند سالوں کے دوران تین سو سے زائد قبائلی مشران کو'ٹارگٹ کلنگ' کا نشانہ بنایا گیا جس سے سینکڑوں سالوں سے موجود جرگہ سسٹم کمزور جبکہ لوگوں کو ابتر صورتحال سے نمٹنے کا حوصلہ پست ہوگیا۔ حالات کی خرابی نے لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا اور انہوں نے طالبان کو اپنے اپنے علاقوں سے بیدخل کرنے کے لیے مقامی لشکر تشکیل دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس رجحان کا آغاز صوبہ سرحد کے ضلع بونیر سے ہوا جہاں پر مقامی لوگوں نے حملہ کر کے چھ طالبان کو مار کر انہیں علاقے سے نکال باہر کیا۔اس کے بعد ضلع دیر میں مقامی لوگوں نے طالبان کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ پشاور کے مضافات میں واقع متنی کے علاقے میں مقامی لوگوں کے ایک جرگے نے سنیچرکے روز سولہ کے قریب طالبان کو پولیس کے حوالے کر دیاتھا۔لکی مروت اور قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی تحصیل لنڈی کوتل میں لوگوں نے اٹھ کر شدت پسندوں کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے حیران کن بات طالبان کا گڑھ سمجھے جانے والے باجوڑ ایجنسی میں دیکھنے کو ملی جہاں پر سکیورٹی فورسز کی تین ہفتوں تک جاری رہنے والی فضائی حملوں کے بعد لوگوں نے ایک مقامی لشکر تشکیل دیکر طالبان کو علاقے سے بیدخل کرنے کا اعلان کیاگیا۔ اس کا آغاز پہلے صدر مقام خار سے ہوا جہاں پر اب بھی مقامی مسلح رضاکار شب وروز پہرہ دے رہے ہیں جبکہ سالازئی کی تحصیل میں اتوار کو قبائلی لشکر نے مشکوک طالبان کے گھروں کو مسمار کردیا۔ باجوڑ میں مقامی لوگوں کی جانب سے اٹھایا جانے والے اس قدم کو اس لحاظ سے غیرمعمولی سمجھا جاتا ہے کہ وہاں پر بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی خوف سے ایک عام شخص اشاروں کنایوں میں طالبان کے خلاف بات کرنے کی جرات تک نہیں کرسکتا تھا۔ حکومت ابھی تک شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے طاقت، بات چیت اور ترقیاتی منصوبوں کی بظاہر' ناکام' پالسی پر عمل پیرا ہے مگر حالات سے تنگ آئے ہوئے لوگوں کے اٹھ کر کھڑے ہونے نے اس میں ایک اور 'موثر' حکمت عملی کا اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن شدت پسندی کی روک تھام کے لیے یہ حکمت عملی جتنی کامیاب نظر آرہی ہے اس کے ساتھ کئی ایک خطرات بھی جڑے ہوئے ہیں۔ان علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف مقامی لشکر کی جانب سے ہونے والی کاروائیوں کے بعد طالبان مقامی آبادی کو حکومت یافتہ سمجھنے لگے ہیں جس سے ان کی غیرجانبداری کے تاثر کو بظاہر ایک دھچکا پہنچا ہے۔ اگر چہ طالبان نے جوابی کاروائی کے حوالے سے محتاط رویہ اپنا رکھا ہے لیکن اگر اس میں شدت آتی ہے تو گھیرا تنگ ہوتے دیکھ کر وہ مقامی آبادی کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ مبصرین کے خیال میں اس حکمت عملی کی کامیابی اور اس سے پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے حکومت اور متعلقہ علاقوں کے عوام کے درمیان ایک مربوط اور موثر رابطہ کی ضرورت ہے۔ آٹھ ستمبر کو پیر کو گیارہ بجے کے قریب شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ سے قریباً چار کلومیٹر دور مغرب کی جانب ڈانڈے درپہ خیل میں ایک مکان پر سات میزائل گرے ۔ یہ میزائل حملہ امریکی جاسوس طیاروں نے کیا جو حملے کے دوران فضاءمیں گشت کر رہے تھے۔ میزائل حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بیس تک پہنچ گئی ۔ ہلاک ہونے والے تمام مقامی لوگوں تھے جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں تباہ شدہ عمارتوں کا ملبہ زیادہ تھا وہ اپنی مدد آپ کے تحت ملبہ ہٹانے میں مصروف رہے۔ جلال الدین حقانی کے مکان کے قریب ایک میزائل لڑکیوں کے ایک اسلامی مدرسہ پر گرا ہے جس کے نتیجہ میں دو بچیاں اور دو خواتین استانیاں ہلاک ہوئیں جبکہ نو بچیوں اور دو خواتین اساتذہ کو زخمی حالت میں سول ہسپتال میرانشاہ لایا گیا تھا۔ نئی منتخب حکومت کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاسوس طیاروں کے میزائل حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے اورگزشتہ چند ہفتوں میں ایسے حملوں میں ساٹھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ۔ان حملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کے ممکنہ ردِ عمل پر امریکی تھنک ٹینک سینٹر فار انٹرنیشنل پالیسی واشنگٹن میں ڈائریکٹر ایشیا پروگرام سیلیگ ہیریسن نے کہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اگر امریکی حملے جاری رہے تو پاکستان میں پشتون آبادی میں احساس محرومی بڑھ جائے گا۔ امریکہ کو پشتون علاقوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں اور انہوں نے برطانیہ کی تاریخ نہیں پڑھی اور اسی لیے امریکہ وہ تمام غلطیاں کر رہا جواس علاقے میں برطانیہ نے کی تھیں۔' انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ موجود ہے اور اپنے مالی استحکام کو استعمال کرتے ہوئے طالبان کو اپنا حمایتی بناتی ہے۔'لیکن ابھی بھی دیر نہیں ہوئی اور اس کی تلافی کی جا سکتی ہے۔ ایک ایسی پالیسی بنائی جائے جس سے طالبان کا القاعدہ کی طرف مزید مائل ہونے کو روکا جا سکے۔' سیلیگ ہیریسن پانچ کتابوں کے مصنف ہیں جن میں 'اِن افغانستان شیڈو' اور 'سٹڈی آف بلوچ نیشنلزم' شامل ہیں، سیلیگ ہیریسن واشنگٹن پوسٹ کے سابق شمالی ایشیا کے بیورو چیف بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ طالبان اور القاعدہ میں تفریق کی جائے کیونکہ القاعدہ ایک عالمی دہشتگرد تنظیم ہے اور دنیا کے لیے خطرہ ہے جب کہ طالبان سے دنیا کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ 'طالبان سے بات چیت کرنے کا جواز درست ہے اور اس کے ساتھ ہی القاعدہ کو ڈھونڈنے اور شکست دینے کے لیے موثر منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں کے حوالے سے بین الاقوامی سطح میں کافی بے اطمینانی ہے اور دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ آیا نئی حکومت اس صورتحال پر قابو پا سکتی ہے یا نہیں۔ طالبان کے مبینہ ٹھکانوں پر امریکی بمباری کی پالیسی غلط ہے چاہے وہ افغانستان میں ہو یا پاکستان میں۔اس قسم کی بمباری سے مزید لوگ طالبان کے حامی ہوتے جا رہے ہیں اور پشتون قبیلے مزید شدت پسند ہو گئے ہیں۔'ضرورت اس بات کی ہے کہ القاعدہ اور طالبان میں تفریق کی جائے۔ یہ درست ہے کہ کچھ طالبان مالی طور پر القاعدہ کے ساتھ ہیں لیکن زیادہ تر جن میں پاکستان طالبان بھی شامل ہیں ان کو القاعدہ سے ملانا غلط ہو گا۔ ایسے طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے ان میں تفریق نہیں کی جا رہی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان انتہا پسندی بڑھ رہی ہے اور ان کو کنٹرول کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔' پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی نے کہا ہے کہ ملک کی حاکمیت اور سالمیت کا ہر قیمت پر دفاع کیا جائے گا اور کسی بھی غیر ملکی فوج کو پاکستان کی حدود میں آپریشن کرنے کی اجازت نہیں ہے۔آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق یہ بات جنرل کیانی نے اتحادی فوج کے پاکستان میں حملوں میں ہلاک ہونے والے معصوم شہریوں کی ہلاکت پر کی۔ جنرل کیانی نے کہا ہے کہ اتحادی افواج کے ساتھ یہ بات صاف ہے کہ پاکستان کی سرحد میں آپریشن کا حق صرف پاکستان کا ہے۔ انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ کوئی ایسا معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت اتحادی افواج پاکستان کے اندر آپریشن کر سکتی ہے۔ امریکہ کے سینیئر فوجی افسران کے ساتھ یو ایس ایس ابراہم لنکن پر ستائیس اگست کو ملاقات کے حوالے سے جنرل کیانی نے کہا کہ ان کو حالات کی نزاکت کے متعلق بتا دیا گیا تھا جس کے جامع حل کے لیے صبر و تحمل کے ساتھ کام لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے اپنا موقف سمجھایا تھا اور کہا تھا کہ اس قسم کے مسائل کا واحد حل فوجی کارروائی نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے ساتھ مذاکرات کی بھی ضرورت ہے۔ بیان کے مطابق جنرل کیانی نے فوجی کارروائیوں کے خلاف عوامی ردِ عمل کا بھی ذکر کیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائک مولن نے جنرل کیانی کے بتائے ہویے حقائق کااعتراف کیا اور کہا کہ 'جنرل کیانی پاکستان کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں اور وہ کرتے رہیں گے۔' پاک فوج کے سربراہ نے بیان میں چار ستمبر کو انگور اڈہ میں ہونے والے حملے میں شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے حملے شدت پسندوں کو مزید مضبوط کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان فوج نے ماضی میں شدت پسندوں کے خلاف کامیاب آپریشنز کیے ہیں اور ابھی بھی قبائلی علاقوں اور سوات سے شدت پسندی ختم کرنے کے لیے کارروائی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے اس جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں اور ان کی موجودگی کی وجہ سے القاعدہ اور اس کے ساتھیوں کی نقل و حمل میں مشکلات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں عوام کی سپورٹ فیصلہ کن ہو گی۔ جنرل کیانی نے کہا کہ عدم اعتمادی اور غلط فہمیاں مزید مشکلات پیدا کرسکتی ہیں اور ان علاقوں میں کارروائی کرنے کی مجبوریوں کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ جنگ میں کوئی فوری حل نہیں ہوتا۔ اس میں کامیابی کے لیے اتحادی فوج کو سٹریٹیجک صبر و تحمل اور ہماری مدد کرنی چاہیے۔ جنرل کیانی کا بیان پاکستان کے سو لہ کروڑ مایوس عوام کو ایک امید کی کرن دکھائی دی ہے کہ ہم ابھی ایک آزاد پا کستان کے محفوظ شہری ہے۔اس بیان سے قبل وطن عزیز کے اندر جو سا مراجی ایجنٹوں کی پنیری لگی ہوئی ہے ان کے منہ پر بھی ایک طمانچہ پڑا ہے کہ ملک و قوم اور اس مٹی سے محبت کرنے والا بھی جنرل مو جودہے کیو نکہ ما ضی میں قانون شکن جر نیلوں اور سول حکمرانوں کی غلط پا لیسیوں سے امریکی اس غلط فہمی میں یہ بھی بکواس کرتے رہے ہیں کہ پا کستانی چند ٹکوں کے عوض اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں۔ لیکن اس بار ملک دشمن اور سا مراجی ایجنٹ اپنی ما ئیں،بہنیں بھی فروخت کرکے اپنے عزائم میں کا میاب نہیں ہونے پا ئیں گے۔اس وقت سب پر نظر رکھی جا رہی ہے کہ پا کستان میں حامد کر زئی کا کون کردار ادا کر رہا ہے ؟
تحریر: اے پی ایس،اسلام آباد
1 comments:
بس جمہوری حکومت آتے ہی آرمی چیف کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیے جاتے ہیں۔۔ آرمی چیف نے کوئی احسان نہیںکیا ہے۔۔ پاکستانی قوم ان کو اپنا پیٹکاٹکاٹکر اسی کام کےلیے پالتی رہی ہے۔۔ آرمی کا رول ساری کہانی میں اتنا سادہ نہیںجتنا آئی ایس پی آر کے مراسلوں میںدکھایا جاتا ہے۔۔ انکی ڈبل ایجنٹ پالیسی کی وجہ سے لوگوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
9/16/2008 08:15:00 AMراشد کامران's last blog post..نائن الیون۔ ایک تاریخی دن
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔