04 October, 2008

’بیل آؤٹ‘ منصوبہ، کیا ہے، کیوں ہے؟

ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات میں آجکل امریکی بیل آؤٹ پلان کا بڑا چرچا ہے لیکن بہت کم لوگوں کو اس پلان کے بارے میں علم ہے کہ یہ دراصل کیا ہے اور کس بارے میں ہے۔ قارئین کی سہولت کے لئے یہاں اس بل کے مندرجات پیش کئے جا رہے ہیں تاکہ قارئین کو اس پلان کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ 






امریکی بینکوں کو کیش یا نقدی سے خالی ہاتھ ہونے سے بچانے یا ’بیل آؤٹ‘ کرنے کے لیے سینیٹ میں پیش کیا جانے والا سات سو ارب ڈالر کے ترمیمی منصوبہ یا بِل کا مسودہ بھی کم و بیش وہی ہے جو کہ ایوانِ نمائندگان سے نامنظور ہونے والے بل کا تھا۔

اس بل میں چند تبدیلیاں کی گئی ہیں جو حکومتی ضمانت کی شقوں سے تعلق رکھتی ہیں اور کھاتے داروں کی بچتوں پر حکومتی ضمانت ایک لاکھ سے بڑھا کر ڈھائی لاکھ ڈالر تک کر دی گئی ہے۔


بینکوں کو بیل آؤٹ بل کی ضرورت کیوں پڑی ہے؟


امریکہ کی مارٹگیج مارکیٹ میں بھاری سرمایہ کاری کے بعد ساری دنیا میں سرمائے کی مارکیٹیں شدید مشکلات کی شکار ہیں۔ بینکوں نے بڑے پیمانے پر گھروں کے لیے ایسے قرضے دے دیے جن کی واپسی کی توقعات غیر یقینی ہیں۔ بظاہر یہ معاملہ مقامی دکھائی دیتا ہے لیکن اب اس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

امریکی بینک اب یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ انہوں نے جو قرضے دیے تھے ان کی حقیقی مالیت اب کتنی رہ گئی ہے، اس لیے ان قرضوں کو آگے فروخت نہیں کیا جا سکتا، اس ڈر سے کہ دوسرا مشکل میں پھنس جائے گا، بینک ایک دوسرے سے ان قرضوں کے سودے بھی نہیں کر رہے اور قرضوں کے اس بحران کے نتیجے میں امریکہ اور یورپ کے کئی بینک بیٹھ چکے ہیں۔


بل پر سینیٹ میں ووٹنگ کیوں ہو رہی ہے؟


ترمیم شدہ بل پر پہلے سینیٹ میں ووٹنگ اس لیے کرائی گئی کیونکہ کانگریسی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ اسے سینیٹ میں زیادہ حمایت حاصل ہے۔

ایوان نمائندگان کے ارکان کے برخلاف سینیٹ میں ہر سال ایک تہائی رکن انتخاب کا سامنا کرتے ہیں۔ اس لیے بیل آؤٹ پلان سے اگر لوگوں میں ناراضی پیدا ہو گی تو اس کا اثر سینیٹ پر کم پڑے گا۔

اس کے علاوہ سینیٹ میں نظریاتی تقسیم بھی ایوانِ نمائندگان کے برخلاف کم ہے اور ریپبلکن سینیٹر ایوانِ نمائندگان کے ارکان کے مقابلے میں زیادہ میانہ رو ہیں۔

اس لیے بیل آؤٹ منصوبے کے حامیوں کا خیال تھا کہ سینیٹ میں بل کی منظوری سے ایوان نمائندگان کے ارکان پر دباؤ بڑھ جائے گا اور اس کے ارکان باہمی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر بل کی منظوری دے دیں گے۔


ایوانِ نمائندگان نے بل کو مسترد کیوں کیا؟


اس بل کے مخالف امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں اور انہوں نے مل کر کوشش کی کہ بل منظور نہ ہو۔ ان کا خیال ہے کہ بل انتہائی غیر منصفانہ ہے اور لالچی بینکاروں کو یہ تحفظ نہیں ملنا چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر اس بل کی منظوری دے دی گئی تو اس سے ٹیکس دہندگان پر پڑنے والے بوجھ میں مزید اضافہ ہو گا۔

اس کے علاوہ اس بل سے فیضیاب ہونے والے اداروں کے سربراہوں اور اعلیٰ افسران کی تنخواہیں بھی اعتراض کا باعث ہیں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ ان تنخواہوں کی بھی حد مقرر کی جانی چاہیے۔


بیل آؤٹ پلان میں کن بڑی تبدیلیوں پر غور کیا جا رہا ہے؟


ترمیمی منصوبے میں متعدد تبدیلیاں کی گئی ہیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ نہ صرف عوام کو اس مالیاتی امداد کا زیادہ فائدہ پہنچے بلکہ ٹیکس دہندگان کی رقم بھی کم خرچ ہو۔

ترمیم شدہ بل میں نہ صرف ’ڈپازٹر پروٹیکشن‘ کی حد میں اضافہ کیا گیا ہے بلکہ چھوٹے کاروباروں کی مدد اور رینیو ایبل انرجی کی تشہیر کے لیے کچھ ٹیکسوں میں چھوٹ بھی دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس منصوبے میں چائلڈ ٹیکس کریڈٹ کے پھیلاؤ اور امریکہ کے کچھ علاقوں میں آنے والے حالیہ سمندری طوفان کے متاثرین کی مدد کی بات بھی کی گئی ہے۔

ایوانِ زیریں میں کچھ ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ ان گھر مالکان کی مدد بھی کی جائے جنہیں دیوالیے کا سامنا ہے تاہم سینیٹ میں موجود ریپبلیکنز دیوالیہ ہونے کے قوانین میں کسی قسم کی تبدیلی کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔

یہ تجاویز بھی ہیں کہ اس مالیاتی امداد میں حکومت کا حصہ کم کر دیا جائے اور اس کے لیے بینکوں کے اکاؤنٹنگ قوانین میں تبدیلی کی جائے جنہیں موجودہ قانون کے تحت اپنے سب پرائم قرضوں کے ڈوبنے سے ہونے والے نقصانات کی کل مالیت دینی ہوتی ہے۔

تاہم اگر اس بل میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جاتی ہیں تو اس پر اجماع کے امکانات کم سے کم ہو جائیں گے۔


اگر بل منظور نہ ہوا تو کیا ہو گا؟


ایوانِ نمائندگان کی جانب سے ابتدائی بل کی نامنظوری کے بعد دنیا بھر میں بازارِ حصص شدید مندی کا شکار اور متزلزل رہے۔ صرف امریکی ڈاؤ جونز ہنڈریڈ انڈیکس میں سات سو ستر پوائنٹس کی کمی دیکھنے میں آئی۔ یہی نہیں بلکہ تیل کی قیمتوں اور ڈالر کی قدر میں بھی کمی ہوئی اور یہ تمام عوامل سرمایہ کاروں کے لیے ایک بڑا دردِ سر ثابت ہوئے ہیں۔

بہت سے سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ مرکزی مسئلہ مالیاتی نظام کی بحالی کے حوالے سے پیدا ہونے والی بے یقینی کی کیفیت ہے۔ بل منظور نہ ہونے کی صورت بینک باہمی قرضوں کی فراہمی سے کتراتے رہیں گے اور کریڈٹ مارکیٹیں منجمد رہیں گی۔

اس کے نتیجے میں بڑے اور چھوٹے کاروباری اداروں اور حتٰی کہ عام افراد کو بھی قرضوں کے حصول میں نہ صرف مشکلات کا سامنا ہوگا بلکہ جو لوگ یا کمپنیاں یہ قرضے حاصل کر بھی لیں گے انہیں زیادہ شرحِ سود ادا کرنا ہوگی۔


بیل آؤٹ بل کی منظوری کے بارے میں کتنی امید کی جا سکتی ہے؟


دونوں صدارتی امیدوارں، باراک اوبامہ اور جان میکین کی حمایت کے بعد یہ امید بڑھ گئی ہے کہ بل کی منظوری کے لیے مفاہمت کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیا جائے گا۔

صدر بش متنبہ کر چکے ہیں کہ اگر بل منظور نہ ہو سکا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے سیاستدانوں پر زور دیا ہے کہ وہ مفاہمت کا راستہ تلاش کریں۔

بدھ کو سینیٹ میں ووٹنگ کے بعد امکان ہے کہ جمعرات کو ایوان نمائندگان میں بل پر بحث ہو گی اور توقع کی جا رہی ہے کہ سینیٹ میں بل کی منظوری ایوانِ نمائندگان میں بل کی منظوری کی راہ کو قدرے ہموار کر دے گی۔


بیل آؤٹ پلان کس طرح کام کرے گا؟


منصوبے کے تحت امریکی وزیر خزانہ ہنری پولسن اس سرمائے سے بڑے مالیاتی اداروں کے مشکوک قرضوں کی خریداری کریں گے اور اس کے بدلے میں امریکی ٹیکس دہندگان کو ان بینکوں میں نان ووٹنگ اختیار حاصل ہو جائے گا جن کے قرضے خریدے جائیں گے۔ اس طرح اگر بینک اس بحران سے نکل کر منافع میں آئے تو ٹیکس دہندگان کو بھی منافع حاصل ہو سکے گا۔ تاہم اگر ٹیکس دہندگان کو خسارہ ہوا تو مالیاتی اداروں کو اس کی کچھ نے کچھ قیمت ادا کرنی ہو گی۔

بینکوں کے سربراہوں اور اعلیٰ عہدیداروں کی تنخواہوں اور مالیاتی فوائد پر پابندیاں لگا دی جائیں گی اور اب انہیں ملازمتیں چھوڑنے کے صورت میں نام نہاد گولڈن پیرا شوٹ اور ان جیسے بھاری معاوضے حاصل نہیں ہو سکیں گے۔

بینکوں اور مالیاتی اداروں کو مستقبل میں مارٹگیج قرضوں میں خساروں سے تحفظ کے لیے ’انشورنس پالیسیاں‘ خریدنا ہوں گی۔


امریکی حکومت قرضے خریدنے کے لیے کیا منصوبہ بندی کر رہی ہے؟


امریکی حکومت عالمی مالیاتی مارکیٹوں سے قرضہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مجوزہ منصوبے کے تحت وزارتِ خزانہ کو سات سو ارب ڈالر مالیت کی’ٹریژری سکیورٹیز‘ جاری کرنے کا اختیار مل جائے گا۔

منصوبہ یہ ہے کہ وزارتِ خزانہ ان ڈوبے ہوئے اثاثوں کو ہاؤسنگ مارکیٹ میں بہتری کے بعد دوبارہ مالیاتی مارکیٹ میں فروخت کر دے گی اور اسے کچھ نفع بھی ہوگا۔

یہ بھی خدشات ہیں کہ مزید حکومتی قرضوں کا اجراء اس مسئلے کا حل نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں بجٹ خسارہ قریباً دوگنا ہو جائےگا۔ اس سے غیر ملکی بینکوں پر امریکہ کو زیادہ انحصار کرنا پڑے گا کیونکہ ممکنہ طور پر یہی بینک ہی’ٹریژری سکیورٹیز‘ کے خریدار ہوں گے۔


اس ’بیل آؤٹ‘ کا عام امریکی پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟


اگر آپ امریکہ میں رہتے ہیں تو آپ کے حصہ کے قومی قرضے میں تیئیس سو ڈالر کا اضافہ ہو جائے گا۔ ان امدادی منصوبوں کی کل رقم ایک اعشاریہ آٹھ کھرب ڈالر ہونے کا امکان ہے اور یہ فی امریکی خاندان پندرہ ہزار ڈالر کے مساوی ہے۔









بشکریہ بی بی سی اردو

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب